یوم الفتح کی گولڈن جوبلی اور مولانا

قائدین کے بیانات کا سلسلہ جاری رہا، لاہور کی فضاؤں میں تاجدار ختم نبوت کے نعرے گونجتے رہے


[email protected]

کیا حسن اتفاق ہے کہ 7ستمبر 1974کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا وہ ہفتہ کا دن تھا، پچاس سال بعد 7ستمبر 2024کو جس روز مسلمانوں نے اس تاریخ ساز فیصلے کی گولڈن جوبلی منائی اور تجدید عہد کیا وہ بھی ہفتہ کا دن تھا۔

جمعیت علماء اسلام اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے مینار پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں یوم فتح منانے کے لیے گولڈن جوبلی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر سے لاکھوں عاشقان مصطفٰی نے جوق در جوق شرکت کرکے جہاں تحریک ختم نبوت میں آقا کریم کی ناموس کی چوکیداری کرتے ہوئے قربانیاں دینے والے شہداء اور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کیا وہاں تجدید عہد بھی کیا کہ عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری کا فرض نبھاتے ہوئے اپنی جان اور اولاد کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔

کانفرنس 7 ستمبر کی سہ پہر شروع ہونا تھی لیکن قافلے چھ ستمبر ہی کو پہنچنا شروع ہوچکے تھے۔ ریلوے اسٹیشن، بس اڈوں، لاہور کی چھوٹی بڑی شاہراہوں پر عشاقان ختم نبوت کے جلوس اور ٹولیاں ہی ٹولیاں نظر آرہی تھیں، جس طرف بھی جاتے لاہور کی فضائیں پْرکیف نعروں سے گونجتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی مینار پاکستان گراؤنڈ کا دامن تنگ پڑ چکا تھا، گرمی اور حبس کے باوجود شمع رسالت کے پروانوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔

گولڈن جوبلی کانفرنس کے انتظامات جمعیت علمائے اسلام کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کے ہزاروں رضا کاروں نے سنبھالے اور انتہائی منظم انداز میں کانفرنس کے پر امن انعقاد کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان انتظامات کے روح رواں جمعیت علمائے اسلام کے حافظ نصیر احمد احرار اور سیکریٹری اطلاعات مولانا غضنفر صاحب تھے جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سہ پہر کانفرنس کا آغاز ہوا، تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور قائدین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جو کانفرنس کے اختتام تک جاری و ساری رہا۔ امیر مجلس حافظ ناصر الدین خاکوانی، مولانا عزیز الرحمن، مفتی تقی عثمانی، مفتی محمد حسن، پیر ذوالفقار نقشبندی، مولانا فضل الرحیم اشرفی ایسے اکابرین ضعف اور علالت کے باوجود اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔

قائدین کے بیانات کا سلسلہ جاری رہا، لاہور کی فضاؤں میں تاجدار ختم نبوت کے نعرے گونجتے رہے۔ امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری سے لے کر مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود اور مفتی محمود سے لے کر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن تک عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری کا حق ادا کرنے والے تمام اکابرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ اکابرین کی ولولہ انگیز تقاریر کا سلسلہ سارا دن جاری رہا مگر شمع رسالت کے پروانوں کا جم غفیر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے خطاب کا منتظر تھاکیونکہ مولانا کا خطاب ''راہروانِ عشق ومستی'' کے لیے ''نشان منزل'' کی حیثیت رکھتا تھا، اسی لیے سب کی نظریں مولانا فضل الرحمن پر جمی ہوئی تھیں۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے مولانا کو دعوت خطاب دی گئی تو لاکھوں کے مجمعے نے کھڑے ہو کر تکبیر کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ مولانا ڈائس پر آئے اور خطاب شروع کیا۔

آج انھوں نے اپنی تقریر کا خطبہ معمول سے ہٹ کر عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی طرح مترنم انداز میں پڑھا، دل مضطرب اور لہجے میں سوزوگداز چھلک رہا تھا آنکھوں میں اظہار تشکر کے موتی چمک رہے تھے۔

مولانا نے شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا "آپ نے ہم جیسے کمزور لوگوں کی دعوت پر جس طرح لبیک کہا ہے میں اپنی زندگی آپکے شکریہ کیلیے وقف کر دوں تب بھی میں فرزندان تحفظ ختم نبوت اور اہل پاکستان کا شکریہ ادا نہیں کر سکوں گا"۔ آج درویش صفت اور عجز و انکساری کے پیکر مولانا کا پرجوش خطاب، خطاب نہیں، للکار تھی۔ للکار ان قوتوں کے لیے جو پاکستان میں اسلام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔ ان کا خطاب چار اہم ترین نکات کے گرد گھومتا رہا، پہلا تحفظ عقیدہ ختم نبوت، دوسرا مسئلہ فلسطین، تیسرا تحفظ مدارس دینیہ اور چوتھا نکتہ سودی نظام سے نجات کا تھا۔ ان چاروں نکات پر مولانا کا خطاب پاکستان کے ہر غیور مسلمان کے دل کی آواز اور ترجمانی تھی۔

مولانا نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ " 50 سال کے بعد آج کا دن دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ رسول اللہﷺ کی ختم نبوت پر شب خون مارنے والوں کو اپنی عاقبت کا اندازہ کر لینا چاہیے کہ پاکستان کے عوام اپنے رسول اللہ کی ختم نبوت کے دفاع کے لیے ہر حد پارکرسکتے ہیں۔ 50 سال گزرنے کے باوجود بھی قوم کے عاشقانہ جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی اور ان شاء اللہ اگلی صدی تک میں اس کی ضمانت دیتا ہوں اللہ کے فضل و کرم پر اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے کہ آیندہ صدی بھی آپ کی ہے۔

مولانا کی تقریر کا دوسرا نکتہ امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ، مسئلہ فلسطین تھا، یہ سلگتا ہوا مسئلہ ہر مسلمان کے لیے اضطراب و بے قراری کا سبب ہے، پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی، جمعیت علمائے اسلام میدان میں نکلی اور مختلف شہروں میں تاریخی ملین مارچ کرکے ملت اسلامیہ کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ مولانا نے اپنے خطاب میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ "میں دنیائے اسلام کے حکمرانوں کو کہنا چاہتا ہوں اور آپ کی طرف سے پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اتنے زیادہ انسانوں کا خون بہانے کے بعد بھی کیا امریکا جس کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے عراقیوں کا خون ٹپک رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے افغانوں کا خون ٹپک رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے لیبیا کے عوام کا خون ٹپک رہا ہے۔

کیا اس کے بعد بھی امریکا کو انسانی حقوق کی بات کرنے کا حق حاصل ہے؟ امریکا انسانی حقوق کا قاتل تو ہو سکتا ہے انسانی حقوق کا علمبردار نہیں ہو سکتا"۔ مولانا کی تقریر کا تیسرا نکتہ مدارس دینیہ کاتحفظ تھا، مدارس دینیہ کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے، اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ ہی نہیں جمعیت علمائے اسلام اور ملک کی دیگر جماعتوں نے بھی ایسے تحفظات کو مسترد کردیا تھا لیکن مدارس سے وابستہ علمائے کرام تاحال شدید مضطرب ہیں، مولانا نے اپنے خطاب میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ "عالمی آقاؤں کے دباؤ پر تم ہمارے دینی مدارس پر دباؤڈال رہے ہو، تم میرے مدرسے کی ایک اینٹ گراؤگے، میں تمہارے اقتدار کی پوری عمارت کو زمین بوس کر دوں گا"۔ مولانا کا جرات مندانہ موقف ان لاکھوں مضطرب علماء وطلبا کے جذبات و احساسات کا ترجمان ہے۔

مولانا نے خبردار کیا کہ کوئی اسلام کو مت چھیڑے، عقیدہ ختم نبوت پر امت مسلمہ کا اجماع اور سود کے خاتمے پر پوری قوم متفق ہے۔ وفاقی شریعت عدالت نے سود کے خاتمے کا فیصلہ کیا، اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک نے اس کے خلاف اپیلیں واپس لیں لیکن کچھ بینکوں نے اپیل دائر کی اور اس پر اسٹے لیا نظر ثانی کے لیے درخواست دی۔ میں نے چیف جسٹس صاحب سے درخواست کی ہے کہ جن لوگوں نے سود کی حرمت کے حوالے سے جو عدالت نے فیصلے دیے ہیں اور اس کے خلاف اپیلیں دائر ہوئی ہیں ان اپیلوں کو فوراً نمٹایا جائے، عدالت نے تمام اداروں کو یہ ہدایت کی تھی کہ پانچ سال کے اندر اندر اپنے مالیاتی نظام کو سود کی آلائش سے پاک کر دیں پھر کسی بینک کے اسٹے کے اوپر کیسے آپ نے اتنا بڑا فیصلہ روکا ہوا ہے! ان شااللہ اس کے لیے بھی تحریک چلائیں گے، سود کا نظام اللہ اور اس کے رسول سے براہ راست جنگ کا نام ہے، کوئی مسلمان یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرے؟"

یوم الفتح کی گولڈن جوبلی کے موقع پر مولانا فضل الرحمن کا خطاب ملک بھر کی دینی جماعتوں، علما و مشائخ اور اسلام پسند عوام کیلیے مشعل راہ ہے، انھوں نے ایک گائیڈ لائن دی، نصب العین کا تعین کرکے بتا دیا ہے کہ اگر ہم اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں اسلام کا تحفظ چاہتے ہیں تو اسی نصب العین کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ جہاں جاؤ گے بھٹک جاؤگے اور داستاں بھی نہ ہوگی تمہاری داستانوں میں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں