کراچی کے لیے میگا ترقیاتی منصوبے
وزیراعظم نوازشریف نے کراچی میں تیزرفتار میٹرو بس سروس شروع کرنے کا اعلان کیا ہے
وزیراعظم نوازشریف نے کراچی میں تیزرفتار میٹرو بس سروس شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ، اس منصوبے کانام ''گرین لائن ان کراچی'' ہو گا جسکی مجموعی لاگت15 ارب روپے ہو گی اس کے تمام اخراجات وفاق برداشت کرے گا، اس منصوبے کا ٹریک24.5 کلومیٹر طویل ہو گا جو سرجانی ٹاؤن سے شروع ہو کر سٹی سینٹر کراچی (ٹاور) پر مشتمل ہو گا، اس ریپڈ بس سروس کے ٹریک پر جدید ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلائی جائیں گی، منصوبے پر لاہور اور راولپنڈی کی طرح کراچی میں بھی تیزرفتاری سے کام کیا جائے گا جب کہ کراچی لاہور موٹر وے کے لیے اراضی کے حصول کے لیے 55 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔
وزیر اعظم کی صدارت میں جمعرات کو گورنر ہائوس میں کراچی کے میگا پروجیکٹس کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا یہ اہم اجلاس جس میں گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق و دیگر نے شرکت کی ایک خوش آیند پیش رفت ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منی پاکستان کا ہمہ جہت اور برق رفتار ترقیاتی روڈ میپ حکومتی اولین ترجیحات کا حصہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ کراچی گرین بس منصوبہ عوام کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک تحفہ ہے۔
اس منصوبے سے عوام کوٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں میسر آئیں گی، تاہم وزیر اعظم نے کراچی سرکلر ریلوے، لیاری ایکسپریس وے سمیت بعض میگاپروجیکٹس میں حائل رکاوٹوں کو لاپرواہی کا بجا طور پر شاخسانہ قرار دیتے ہوئے چیف سیکریٹری سندھ کو فوری اقدامات کی جو ہدایت کی ہے اس کے تحت قائم کی جانے والی اعلیٰ سطح کی کوآرڈینیشن کمیٹی کو اپنی ذمے داری پوری کرنا ہو گی۔ حکمرانوں نے ملکی ترقی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے بیشتر کاموں کی مقررہ وقت میں تکمیل پر توجہ دی ہوتی تو کراچی سمیت پنجاب، سندھ، بلوچستان اور پختونخوا کے غربت زدہ و دور افتادہ دیہات اور شہر بھی ثمرات سے مستفید ہوتے۔
چنانچہ سرکلر ریلوے سے تجاوزات کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم کو تخمینہ و تجاویز پیش کرتے ہوئے جب ریلوے حکام نے کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کی راہ میں تجاوزات کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا اورتجاوزات کے خاتمے جب کہ متاثرین کی متبادل مقام پر آباد کاری کے لیے15ارب روپے مطالبہ کیا تو وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لاہور اور دیگر شہروں میں تجاوزات کے خاتمے پر اتنی رقم خرچ نہیں ہوئی جتنی سرکلر ریلوے روٹ سے تجاوزات ہٹانے کے لیے مانگی جا رہی ہے۔ یاد رہے اسی ایم اے جناح روڈ پر کبھی ٹرامیں چلا کرتی تھیں اور غیر ممالک سے ڈبل ڈیکر لگژری بسیں بھی مختلف روٹس پر چلتی تھیں مگر سب کا بیڑا غرق کیا گیا اور آج منی پاکستان ٹرانسپورٹ مافیا کا یرغمال شدہ شہر ناپرساں بن چکا ہے اور امن و امان اور بجلی کی مخدوش صورتحال نے شہریوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔
اجلاس میں کراچی میں فراہمی آب کے لیے ایک بڑے منصوبے کا اعلان ہوا جس کے تحت کراچی کو کینجھرجھیل سے پانی کی فراہمی کی جائے گی، اس منصوبے پر 13 ارب روپے لاگت آئے گی، جس میں 50 فیصد رقم وفاق ادا کرے گا، وزیر اعظم سے متحدہ کے ایک وفد نے بھی ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے شہر کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی تجویز پر ملیر موٹر وے کے لیے42 ارب روپے کی اصولی منظوری دیدی، یہ نیا منصوبہ M9 کا حصہ ہو گا جو دونوں بندرگاہوں کو ملائے گا۔
اس کے علاوہ گرین لائن کے لیے 14 ارب روپے فراہم کر دیے گئے ہیں، جس کے ذریعے تیز رفتار بس سروس بی آر ٹی کا فوری آغاز کیا جائے گا جب کہ ریڈ لائن کے لیے حکومت سندھ فنڈز فراہم کرے گی اور یلولائن پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔ امید کی جانی چاہیے کہ ان سمیت دیگر آب رسانی و ٹرانسپورٹ منصوبوں کی منظوری کے بعد ان پر عملدرآمد کے ضمن میں قومی جذبے سے ان تمام کاموں کی نگرانی کی جائے گی تا کہ ناقدین کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ ایک طرف دہشتگردی اور امن و امان کی سوالیہ صورتحال ہے۔
داخلی خطرات کے علاوہ حکومت کو سیاسی سطح پر مختلف ایجی ٹیشنز اور انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے محاذ آرائی کے اندیشوں میں گھری ہوئی ہے، بجلی کا بحران ہے، اور دوسری طرف ناگزیر ملکی ضروریات کے پیش نظر اربوں کے منصوبے پیش کیے جا رہے ہیں تا کہ خوشحالی اور سہولتوں کا نیٹ ورک عام ہو سکے۔ بہر کیف اس تاثر کو صرف حکومت ''ان ایکشن'' ہو کر اور درست سمت میں اقتصادی پیش قدمی کرتے ہوئے ہی زائل کر سکتی ہے۔ اور اس کے لیے ارباب اختیار کو معاشی بریک تھرو کرنا ہو گا چونکہ ایک طرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے معیشت کی کیفیت پرتیسری سہ ماہی رپورٹ برائے مالی سال 14جاری کر دی جس کے مطابق تیسری سہ ماہی کے دوران پاکستانی معیشت نے بظاہرنیا موڑ لیا ہے۔
معاشی سرگرمیوںکی بحالی مالی سال 14 میں اہم پیش رفت ہے۔ حقیقی جی ڈی پی نمو4.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو 5 سال کی بلندترین نمو ہے۔ اس کی عکاسی حقیقی جی ڈی پی نموکی دوبارہ افزائش، نجی شعبے کوقرضے میں اضافے، مالیاتی خسارے پر قابو، گرانی کے امکانات میں کمی، زرِمبادلہ کے ذخائر کے تیزی سے بڑھنے اورشرح مبادلہ کے بڑھنے اور بعدازاں مستحکم ہونے سے ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائربھی تیزی سے بڑھ گئے۔ ادھر آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کو نئے مالی سال کے دوران مجموعی بیرونی سرمائے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 10.8 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ یہ تخمینہ آئی ایم ایف اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مل کر بنایا ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان کو سب سے زیادہ رقم قرضوں کی ادائیگی کے لیے مطلوب ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں لا اینڈ آرڈر کے حوالہ سے جمعرات کو گورنر ہاؤس میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سندھ حکومت اور سیکیورٹی اداروںکوہدایت کی ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی آپریشن کی حکمت عملی تبدیل کی جائے اور آپریشن کونئی حکمت عملی کے تحت مؤثر انداز میں وسعت دی جائے، کراچی میں بھتہ خوری کرنے والوں کا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت یا اس کے عسکری ونگ یا کالعدم تنظیم یا گروپ سے ہو ان کے اوران کی سرپرستی کرنیوالوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔
وزیر اعظم کی اس حوالے سے سندھ حکومت سے ناراضی کا اظہار اور یہ کہنا کہ کراچی آپریشن کے حوالے سے اہم فیصلے ہوا میں نہ اڑائے جائیں، ان پر سختی سے عمل کیاجائے بے معنیٰ نہیں اور بلاوجہ نہیں کیونکہ کراچی کے تاجروں نے کراچی کو 3 سے4 ماہ کے لیے فوج کے حوالے کرنے کے اپنے مطالبے پر اصرار کیا ہے ۔یہ اضطراب بھتہ خوری کے عدم خاتمہ کے باعث پیدا ہوئی ہے جب کہ قتل و غارت گری کم ضرور ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی ۔ اس لیے آپریشن کی حکمت عملی بدلنے کی سخت ضرورت ہے،اس کے رول بیک کرنے کے منفی پروپیگنڈے کا خاتمہ بھی ضروری ہے ۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ملک موجودہ حالات میں سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا، انقلاب یا مارچ سے مسائل حل نہیں ہوتے جس کو بات کرنی ہے وہ آئین کے مطابق بات کرے ، مسائل سڑکوں پر حل نہیں ہوتے، اس کے لیے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے ۔ ان معروضات سے کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ملکی ترقی اور عوام کو زندگی کی بنیادی اور دور جدید کی سہولتیں مہیا کرنا ہر جمہوری حکومت کا ٹارگٹ ہوتا ہے ۔ امن سب کے مفاد میں ہے ۔ دہشت گردی ختم ہوگی ، امن ہوگا توکراچی سمیت بلوچستان ، پنجاب، پختونخوا اور سندھ کے درجنوں شہروں اور دیہات کو بھی جدید ترین سہولتوں سے استفادے کا موقع ملے گا، تب ہی اہل وطن یکساں خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکیں گے ۔
وزیر اعظم کی صدارت میں جمعرات کو گورنر ہائوس میں کراچی کے میگا پروجیکٹس کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا یہ اہم اجلاس جس میں گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق و دیگر نے شرکت کی ایک خوش آیند پیش رفت ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منی پاکستان کا ہمہ جہت اور برق رفتار ترقیاتی روڈ میپ حکومتی اولین ترجیحات کا حصہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ کراچی گرین بس منصوبہ عوام کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک تحفہ ہے۔
اس منصوبے سے عوام کوٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں میسر آئیں گی، تاہم وزیر اعظم نے کراچی سرکلر ریلوے، لیاری ایکسپریس وے سمیت بعض میگاپروجیکٹس میں حائل رکاوٹوں کو لاپرواہی کا بجا طور پر شاخسانہ قرار دیتے ہوئے چیف سیکریٹری سندھ کو فوری اقدامات کی جو ہدایت کی ہے اس کے تحت قائم کی جانے والی اعلیٰ سطح کی کوآرڈینیشن کمیٹی کو اپنی ذمے داری پوری کرنا ہو گی۔ حکمرانوں نے ملکی ترقی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے بیشتر کاموں کی مقررہ وقت میں تکمیل پر توجہ دی ہوتی تو کراچی سمیت پنجاب، سندھ، بلوچستان اور پختونخوا کے غربت زدہ و دور افتادہ دیہات اور شہر بھی ثمرات سے مستفید ہوتے۔
چنانچہ سرکلر ریلوے سے تجاوزات کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم کو تخمینہ و تجاویز پیش کرتے ہوئے جب ریلوے حکام نے کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کی راہ میں تجاوزات کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا اورتجاوزات کے خاتمے جب کہ متاثرین کی متبادل مقام پر آباد کاری کے لیے15ارب روپے مطالبہ کیا تو وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لاہور اور دیگر شہروں میں تجاوزات کے خاتمے پر اتنی رقم خرچ نہیں ہوئی جتنی سرکلر ریلوے روٹ سے تجاوزات ہٹانے کے لیے مانگی جا رہی ہے۔ یاد رہے اسی ایم اے جناح روڈ پر کبھی ٹرامیں چلا کرتی تھیں اور غیر ممالک سے ڈبل ڈیکر لگژری بسیں بھی مختلف روٹس پر چلتی تھیں مگر سب کا بیڑا غرق کیا گیا اور آج منی پاکستان ٹرانسپورٹ مافیا کا یرغمال شدہ شہر ناپرساں بن چکا ہے اور امن و امان اور بجلی کی مخدوش صورتحال نے شہریوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔
اجلاس میں کراچی میں فراہمی آب کے لیے ایک بڑے منصوبے کا اعلان ہوا جس کے تحت کراچی کو کینجھرجھیل سے پانی کی فراہمی کی جائے گی، اس منصوبے پر 13 ارب روپے لاگت آئے گی، جس میں 50 فیصد رقم وفاق ادا کرے گا، وزیر اعظم سے متحدہ کے ایک وفد نے بھی ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے شہر کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی تجویز پر ملیر موٹر وے کے لیے42 ارب روپے کی اصولی منظوری دیدی، یہ نیا منصوبہ M9 کا حصہ ہو گا جو دونوں بندرگاہوں کو ملائے گا۔
اس کے علاوہ گرین لائن کے لیے 14 ارب روپے فراہم کر دیے گئے ہیں، جس کے ذریعے تیز رفتار بس سروس بی آر ٹی کا فوری آغاز کیا جائے گا جب کہ ریڈ لائن کے لیے حکومت سندھ فنڈز فراہم کرے گی اور یلولائن پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔ امید کی جانی چاہیے کہ ان سمیت دیگر آب رسانی و ٹرانسپورٹ منصوبوں کی منظوری کے بعد ان پر عملدرآمد کے ضمن میں قومی جذبے سے ان تمام کاموں کی نگرانی کی جائے گی تا کہ ناقدین کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ ایک طرف دہشتگردی اور امن و امان کی سوالیہ صورتحال ہے۔
داخلی خطرات کے علاوہ حکومت کو سیاسی سطح پر مختلف ایجی ٹیشنز اور انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے محاذ آرائی کے اندیشوں میں گھری ہوئی ہے، بجلی کا بحران ہے، اور دوسری طرف ناگزیر ملکی ضروریات کے پیش نظر اربوں کے منصوبے پیش کیے جا رہے ہیں تا کہ خوشحالی اور سہولتوں کا نیٹ ورک عام ہو سکے۔ بہر کیف اس تاثر کو صرف حکومت ''ان ایکشن'' ہو کر اور درست سمت میں اقتصادی پیش قدمی کرتے ہوئے ہی زائل کر سکتی ہے۔ اور اس کے لیے ارباب اختیار کو معاشی بریک تھرو کرنا ہو گا چونکہ ایک طرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے معیشت کی کیفیت پرتیسری سہ ماہی رپورٹ برائے مالی سال 14جاری کر دی جس کے مطابق تیسری سہ ماہی کے دوران پاکستانی معیشت نے بظاہرنیا موڑ لیا ہے۔
معاشی سرگرمیوںکی بحالی مالی سال 14 میں اہم پیش رفت ہے۔ حقیقی جی ڈی پی نمو4.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو 5 سال کی بلندترین نمو ہے۔ اس کی عکاسی حقیقی جی ڈی پی نموکی دوبارہ افزائش، نجی شعبے کوقرضے میں اضافے، مالیاتی خسارے پر قابو، گرانی کے امکانات میں کمی، زرِمبادلہ کے ذخائر کے تیزی سے بڑھنے اورشرح مبادلہ کے بڑھنے اور بعدازاں مستحکم ہونے سے ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائربھی تیزی سے بڑھ گئے۔ ادھر آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کو نئے مالی سال کے دوران مجموعی بیرونی سرمائے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 10.8 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ یہ تخمینہ آئی ایم ایف اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مل کر بنایا ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان کو سب سے زیادہ رقم قرضوں کی ادائیگی کے لیے مطلوب ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں لا اینڈ آرڈر کے حوالہ سے جمعرات کو گورنر ہاؤس میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سندھ حکومت اور سیکیورٹی اداروںکوہدایت کی ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی آپریشن کی حکمت عملی تبدیل کی جائے اور آپریشن کونئی حکمت عملی کے تحت مؤثر انداز میں وسعت دی جائے، کراچی میں بھتہ خوری کرنے والوں کا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت یا اس کے عسکری ونگ یا کالعدم تنظیم یا گروپ سے ہو ان کے اوران کی سرپرستی کرنیوالوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔
وزیر اعظم کی اس حوالے سے سندھ حکومت سے ناراضی کا اظہار اور یہ کہنا کہ کراچی آپریشن کے حوالے سے اہم فیصلے ہوا میں نہ اڑائے جائیں، ان پر سختی سے عمل کیاجائے بے معنیٰ نہیں اور بلاوجہ نہیں کیونکہ کراچی کے تاجروں نے کراچی کو 3 سے4 ماہ کے لیے فوج کے حوالے کرنے کے اپنے مطالبے پر اصرار کیا ہے ۔یہ اضطراب بھتہ خوری کے عدم خاتمہ کے باعث پیدا ہوئی ہے جب کہ قتل و غارت گری کم ضرور ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی ۔ اس لیے آپریشن کی حکمت عملی بدلنے کی سخت ضرورت ہے،اس کے رول بیک کرنے کے منفی پروپیگنڈے کا خاتمہ بھی ضروری ہے ۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ملک موجودہ حالات میں سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا، انقلاب یا مارچ سے مسائل حل نہیں ہوتے جس کو بات کرنی ہے وہ آئین کے مطابق بات کرے ، مسائل سڑکوں پر حل نہیں ہوتے، اس کے لیے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے ۔ ان معروضات سے کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ملکی ترقی اور عوام کو زندگی کی بنیادی اور دور جدید کی سہولتیں مہیا کرنا ہر جمہوری حکومت کا ٹارگٹ ہوتا ہے ۔ امن سب کے مفاد میں ہے ۔ دہشت گردی ختم ہوگی ، امن ہوگا توکراچی سمیت بلوچستان ، پنجاب، پختونخوا اور سندھ کے درجنوں شہروں اور دیہات کو بھی جدید ترین سہولتوں سے استفادے کا موقع ملے گا، تب ہی اہل وطن یکساں خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکیں گے ۔