ناکارہ ہتھیار کی بارِ دِگر آزمائش
انسانوں کی زندگی ’’چند روز‘‘ کے لیے ہوتی ہے تو میری عاجزانہ رائے میں اخبار کے لیے لکھے کالم کی عمر یک روزہ
انسانوں کی زندگی ''چند روز'' کے لیے ہوتی ہے تو میری عاجزانہ رائے میں اخبار کے لیے لکھے کالم کی عمر یک روزہ۔ اسی لیے اپنا کالم لکھ کر دفتر کو بھجوا دینے کے بعد بھول جاتا ہوں۔ جب یہ اخبار میں چھپ جاتا ہے تو اس پر طائرانہ نظر ڈال لیتا ہوں جس کا مقصد گرائمر اور پروف کی غلطیوں کو دریافت کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ آج مگر اپنی اس عادت پر ندامت محسوس ہو رہی ہے۔
وجہ اس کی صرف اتنی ہے کہ کسی بھی اہم واقعہ کا دن، وقت اور مقام اس واقعے سے متعلقہ کرداروں کے ادا کیے فقروں اور بدن بولی سمیت پوری طرح یاد ہوا کرتا تھا۔ جب بھی اس واقعہ کا ذکر کرنا مقصود ہوتا تو ذہن کے کسی گوشے کو کرید کر وہاں جمع تمام تر تفصیلات کو سرعت سے بیان کر دیتا۔ یاد داشت جو میری کبھی حیران کن حد تک توانا ہوا کرتی تھی' اب کبھی کبھار دغا دینا شروع ہو گئی ہے۔ ''بڈھا ہویوں شاہ حسینا'' والا معاملہ کافی تواتر سے پیش آنا شروع ہو گیا ہے۔
یہ کالم لکھنے سے پہلے مجھے تلاش تھی 1985ء کے اس دن اور تاریخ کی جب قومی اسمبلی کا اجلاس کورم کے ضابطے کے لیے ضروری سمجھے جانے والی تعداد سے کہیں زیادہ اراکین کی موجودگی کے باوجود شروع ہو کر ہی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اسمبلی، یاد رہے، جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے منتخب کروائی تھی۔ ایم آر ڈی میں شامل سیاسی جماعتوں نے اس کے لیے ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حقیقت مگر یہ بھی تھی کہ ان انتخابات میں شہروں میں اگرچہ کم مگر قصبات اور دیہاتوں پر مشتمل حلقوں میں ووٹروں کا متاثر کن ٹرن آئوٹ ہوا تھا۔ اپنے ''زورِ بازو'' سے 1985ء کی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والوں نے حلف اٹھاتے ہی جنرل ضیاء کے مقابلے پر اپنی خود مختاری کا اعلان خواجہ صفدر کے بجائے سید فخر امام کو اسپیکر منتخب کرنے کے ذریعے کیا۔
ضیاء کے ''نامزد کردہ'' وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھانے اور قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپنی تقریر میں یہ اعلان کر دیا کہ ''مارشل لاء اور جمہوری نظام'' ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جنرل ضیاء کو فوراً سمجھ آ گئی کہ اب وہ مختارِ کل نہیں ہے۔ دل ہی دل میں کافی دنوں تک تلملاتے رہے اور پھر اپنا غصہ بالآخر مئی 1988ء میں جونیجو کی حکومت اور تمام قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو فارغ کر کے نکالا۔
فی الوقت میرا فوکس مگر 1985ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی کے ابتدائی ایام پر ہے۔ ان دنوں قومی اسمبلی کی اپنی عمارت بھی نہیں تھی۔ اس کے اجلاس اسلام آباد میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک کانفرنس ہال میں ہوا کرتے تھے۔ وزیر اعظم جونیجو چونکہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بے تحاشہ ذاتی دلچسپی لیا کرتے تھے اس لیے یہ اجلاس عمواً وقت پر شروع ہو جاتے۔ 1985ء کے اس دن جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں آ رہی مگر یہ اجلاس شروع ہی نہ ہو رہا تھا۔
نوجوان رپورٹر والے تجسس کی بدولت بالآخر مجھے معلوم ہو گیا کہ اعلیٰ عدالت سے کسی حکم امتناعی کا انتظار ہو رہا ہے۔ اس حکم کے مل جانے کے بعد ہی اجلاس کا آغاز ہو گا۔ حکم امتناعی کے انتظار کے تناظر میں میں نے جہلم کے چوہدری الطاف حسین کو بھی دریافت کیا۔ میری ان سے اس وقت تک کوئی شناسائی نہ تھی۔ مگر کیفے ٹیریا میں سینئر صحافیوں کا ایک بڑا گروپ ان کی میز پر موجود تھا۔ میں اس گروپ میں جا گھسا۔ ایک مہربان نے میرا چوہدری صاحب سے تعارف کروایا۔ وہ بڑی شفقت سے پیش آئے اور تاحیات میرے لیے وہی شفقت ہمیشہ برقرار رکھی۔
اس میز کے گرد بیٹھ جانے کے تھوڑی دیر کے بعد عقدہ کھلا کہ چوہدری الطاف حسین نے 1985ء کے انتخابات میں راجہ افضل کے مقابلے پر قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے انتخاب لڑا اور وہ ہار گئے تھے۔ ہارنے کے باوجود مگر وہ آئین کے معاملات کے حوالے سے جادوگر کہلانے والے شریف الدین پیرزادہ کی معاونت سے الیکشن ٹریبونل میں چلے گئے۔ اس کے روبرو چوہدری صاحب نے ثابت کر دیا کہ راجہ افضل آئین میں موجود آرٹیکل 62 اور 63 کی شرائط پر پورا نہیں اُترتے۔ اب راجہ افضل کو ٹریبونل نے De-Seat کر دیا اور حکم صادر فرمایا کہ ان کی جگہ انتخاب ہارے ہوئے چوہدری الطاف حسین جہلم سے قومی اسمبلی کے رکن کا حلف اٹھائیں۔ حلف اٹھانے کے لیے مگر ضروری تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو اور اب وہ اجلاس شروع ہو کر ہی نہیں دے رہا تھا۔
چوہدری صاحب کی میز سے اُٹھ کر میں نے ''دوسری پارٹی'' کی کہانی ڈھونڈنا شروع کر دی۔ تھوڑی کوشش کے بعد معلوم یہ ہوا کہ جیسے ہی چوہدری الطاف حسین حلف اٹھانے قومی اسمبلی کی عمارت میں نمودار ہوئے تو جونیجو صاحب کے تازہ وفاداروں میں ہل چل مچ گئی۔ ان سب نے باہم مل کر وزیر اعظم کو اس بات پر قائل کر دیا کہ جنرل ضیاء 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی اسمبلی کی ''باغیانہ'' حرکات سے ناراض ہو گئے ہیں۔ اپنی پریشانی کو رفع کرنے کے لیے جب انھوں نے شریف الدین پیرزادہ سے رجوع کیا تو نسخہ یہ نکالا گیا کہ 62/63 کے سادہ مگر پرکار اطلاق کے ذریعے بتدریج ''ناپسندیدہ اراکین'' سے نجات حاصل کر لی جائے۔ چوہدری الطاف حسین اس حوالے سے گویا ایک Test Case کے طور پر سامنے آئے تھے۔
چند گھنٹوں کے انتظار کے بعد بالآخر اعلیٰ عدالت سے حکم امتناعی آ ہی گیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو گیا اور چوہدری الطاف حسین اس کے رکن کے طور پر حلف اٹھانے کی لذت سے محروم رہے۔ آج جب ارسلان بنام عمران خان کے شور شرابے میں ایک بار پھر اس ملک میں 62/63 کی گردان شروع ہو گئی ہے تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ آئین میں موجود ان شقوں کو بے اثر تو چوہدری الطاف حسین کے Test Case نے ہی کر دیا تھا اور یہ بے اثری اس وقت عمل میں آئی تھی جب نیک اور صالح غازی ضیاء الحق شہید اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایوان صدر میں پر اجمان تھے۔ ان ہی کی ہدایت پر 62/63 کے ذریعے اس ملک میں ''صادق و امین'' سیاستدان پیدا کرنے کا دھندا شروع کیا گیا تھا مگر چوہدری الطاف حسین کے ذریعے کیے جانے والے پہلے وار کے بعد ہی یہ عزم چاروں شانے چت ہو گیا۔
62/63 کی صادق و امین والی شقیں اپنے نیک اور صالح خالق یعنی جنرل ضیاء کے ہوتے ہوئے بھی کسی کام نہ آ پائیں۔ مگر ہمارے آئین میں اب بھی موجود ہیں۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اکثر ان ہی کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً اس ملک میں انقلاب برپا کرنے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مئی 2013ء کے انتخاب کے دوران بھی چند ریٹرنگ افسران نے ان ہی شقوں کے حوالے سے ہمارے 24/7 والوں کو بے تحاشہ Infotainment والے Segments مہیا کیے تھے۔ ''صادق اور امین'' سیاست دان مگر اس ملک میں پھر بھی دریافت نہ ہو پائے۔
وہ دریافت ہو گئے ہوتے تو چند ماہ پہلے جمشید دستی خالی بوتلوں کی بوری بھر کر ٹی وی چینلوں کے چکر نہ لگا رہے ہوتے۔ 62/63 بس 62/63 ہی رہے گا۔ آئین میں موجود مگر عملی زندگی میں بے اثر۔ ارسلان کے ابو پتہ نہیں اپنے ہونہار بروا کو یہ باریک بات کیوں نہ سمجھا پائے اور اب مراد سعید اور علی محمد خان جیسے عمران خان کے نوجوان متوالے بھی اسی ہتھیار کو نواز شریف کے خلاف آزمانے چل نکلے ہیں جو 1985ء کے اس دن جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں آ رہی ہمیشہ کے لیے ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔