بے نظیر چارٹر
پیپلزپارٹی کا نئے میثاق جمہوریت کا مطالبہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں اہم معاملہ ہے۔
پیپلزپارٹی کا نئے میثاق جمہوریت کا مطالبہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں اہم معاملہ ہے۔ پیپلزپارٹی کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل رضاربانی کا کہنا ہے کہ 2006میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کی طرح اب بھی ایک نئے میثاق کی ضرورت ہے یوں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر کے عزائم کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔
انھوں نے بے نظیر ماڈل متعارف کرتے ہوئے مجوزہ چارٹر کے 14نکات بیان کیے ان نکات میں (1) لندن کے میثاق جمہوریت پر نظر ثانی کرکے جمہوری قوتوں کے درمیان معاہدہ کیا جائے (2) 1973کے آئین کے تحت شروع ہونیوالے وفاقیت اور اختیارات کے عمل کو مکمل کرنے کا اعادہ کیا جائے (3) پارلیمنٹ کی بالادستی کی ضمانت دی جائے قومی سلامتی قومی تحفظات سیاسی اور آئینی اصلاحات آئین کے دائرے میں کی جائیں۔ (4) سول و ملٹری تعلقات کو از سر نو تشریحی و توضیحی کی جائے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ اور انتظامیہ کی سطح پر مسلسل مکالمے کے ذریعے نظام وضح کیا جائے(5) ایڈہاک ازم ختم کیا جائے گڈ گورننس بشمو ل سروسز اصلاحات کا نفاذ کیا جائے۔
(6) عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے (7) عدم برداشت ، شدت پسندی اور دہشت گردی کی تمام اشکال کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے(8) آئین کے تحت اقلیتوں ، خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے (9) ورکنگ کلاس اور متوسط طبقے کے حقوق کا تحفظ کیا جائے(10) ملازمتوں کی فراہمی میں کوٹہ سسٹم اورمیرٹ کے درمیان فرق برقرار رکھنے کے لیے آئین کی آرٹیکل 38کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ (11) جامعات کی خود مختاری کے ساتھ صوبوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف نصاب میں تبدیلی کرسکیں (12) قومی ثقافت کے قیام کی خاطر علاقائی ثقافتوں کو فروغ دیا جائے۔
(13) عامل صحافیوں کے حقوق اور آزادی صحافت سے متعلق آرٹیکل 19پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ (14) معدنیات، تیل ، گیس کے مساوی حقوق دینے کے لیے آرٹیکل (3)172پر بھی عمل درآمد یقینی بنایا جائے ۔ رضاربانی کے تیار کردہ ان نکات کا جائزہ لیا جائے تو واضح طو رپر آئین پرعمل درآمد کا معاملہ سامنے آتا ہے۔ ان نکات کی دفعہ 2کا تعلق صوبائی خود مختاری سے ہے ۔ گزشتہ پارلیمنٹ آئین میں 18ویں ترمیم کے خلاف صوبو ں کو وہ تمام حقوق دے چکے ہیں ،جن کا گذشتہ 60 سال سے مطالبہ ہورہا تھا مگر 18ویں ترمیم کے باوجود وہ تمام حقوق صوبوں کو نہیں ملے اور اس کے ساتھ ہی وفاق کے اختیارات بڑھانے کی باتیں شروع ہوگئیں۔
صوبے اب بھی قومی مالیاتی ایوارڈ کی رقم بڑھانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔بعض ادارے صوبوں کی مرضی کے خلاف اپنی حاکمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں، اس کی سب سے زیادہ شکایت صوبہ بلوچستان کو ہے ۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت کا صوبے پر مکمل اختیار نہیں ہے ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کو یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ان کی حکومت لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کررہی۔ یہ انتہائی اہم بات ہے کہ اگر جمہوری دور میں تمام اداروں پر پارلیمنٹ کی بالادستی نہیں ہوگی ، انتظامیہ پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے اپنی آمریت قائم کرے گی ، آئین کی روح کو پامال کرتے ہوئے آئینی اصلاحات کی جائیں تو پارلیمنٹ کی بالادستی کمزور ہوگی جس کا فائدہ طالع آزما قوتوں کو ہوا ۔
میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں آئین کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور بلوچستان میں اختر مینگل کی حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا ۔اس کا سارا نقصان جمہوری نظام کو ہوا تھا یوں اب ایسی کوئی کوشش جمہوری نظام کو مزیدکمزورکردے گی ۔رضا ربانی کے ان احکامات میں سول اور قومی تعلقات پر از سر نو تشریحی و توضیحی نکتہ قابل غور ہے۔ پیپلزپارٹی کے اہم ترین رہنما کی جانب سے بے نظیر ماڈل میں سول اور قومی تعلقات کی تشریحی و توضیحی کا مطالبہ ان کے اس چارٹر میں تضاد کی نشاندہی کرتا ہے۔
1973کے آئین کے تحت پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی جمہوری نظام کی نفاذ کے لیے ضروری ہے ۔ رضاربانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ قائد اعظم نے 1948میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ مسلح افواج کا بنیادی فریضہ قانونی حکومت کی پاسداری کرنا ہے ، اس طرح پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1973کے آئین کی تیاری میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوشش کی تھی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے سیاسی زندگی میں اس فلسفہ کا پرچار کرتی رہی ، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان 2006میں ہونے والے میثاق جمہوریت میں پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی کا اعادہ کیا گیا۔
اب پیپلزپارٹی کی جانب سے سول اور فوج تعلقات پر از سر نو بحث کا سوال پاکستان میں جمہوری اداروں کے ارتقاء کے طالب علموں کے لیے حیرت انگیز ہے ، اس چارٹر میں گو ڈ گورننس بشمول سروسز اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ رضا ربانی کی اپنی جماعت کے ایجنڈا بھی گڈ گورننس شامل نہیں ہے ، گزشتہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے جس طرح گڈ گورننس کی روح کو پامال کیا اور اب جس طرح صوبہ سندھ کے نظام کو چلایا جارہا ہے۔
قیاس کیا جاسکتا ہے کہ گڈ گورننس اور سروس اصلاحات انھوں نے اپنی پارٹی کی قیادت کی توجہ کے لیے رکھا ہے، اس طرح عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کی ہر شخص تائید کرے گا ، اس چارٹر کی یہ بات بھی اہم ہے کہ عدم برداشت ، شدت پسندی اور دہشت گردی کی تمام اشکال کے خلاف قومی اتفاقی رائے پیدا کیا جائے یہ اتفاقی رائے ریاست کی اعلیٰ ترین سطح یعنی پارلیمنٹ سے لے کر خاندان کے ادارے میں ہونا چاہیے اس مقصد کے لیے ذرایع ابلاغ کو ایک نکتے پر متفق ہونا چاہیے۔
نصاب میں تبدیلی سے لے کر ادب، شاعری ، فنون لطیفہ کی ہر صف میں اس نکتے کو شامل ہونا چاہیے اس چارٹر میںورکنگ کلاس اور متوسط طبقے، اقلیتوں خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اقلیتیں آئینی اور قانونی طور پر حقوق سے محروم ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں معرکتہ الآراء فیصلہ دیا ہے۔ تمام جماعتوں کو آئین کی ان شقوں کو ختم کرنا چاہیے جو غیر مسلم شہریوں کو حقوق سے محروم کرتی ہیں ۔ حکومتوں کی پالیسیوں کی بناء پر ورکنگ کلاس کے حالات کار انتہائی خراب ہیں۔ متوسط طبقہ گھل رہا ہے خواتین کے خلاف بھی جرائم بڑھ رہے ہیں۔ملک کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس چارٹر کا ایک نکتہ جامعات آزادی کا تحفظ اور آئین کے آرٹیکل 25Aپر عمل درآمد کا مطالبہ ہے ۔ رضا ربانی صاحب اگر باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں علم ہونا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سندھ کی جامعات کو حاصل اس خود مختاری کو ختم کردیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے تیارکردہ یونیورسٹی آرڈیننس 1973کے تحت حاصل ہوئی تھی مگر باقی شعبوں میں جامعات بھٹو صاحب کے دور کی خودمختاری سے استفادہ کررہی ہے ۔ اسطرح صوبوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ بھی انتہائی اہم ہے۔18ویں ترمیم کے تحت تعلیم صوبائی معاملہ ہے اس طرح نصاب کی تیاری صوبوں کی ذمے داری ہے۔
مسلم لیگ کی حکومت نصاب کو وفاق کے حوالے کرنا چاہتی ہے ۔یہ 18ویں ترمیم کی روح کے خلاف ورزی ہے اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ، اس کے ساتھ صوبوں کی ثقافت کی ترویج کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہے ۔ صوبوں کی ثقافت کی ترویج سے ایک قوم کی تشکیل ہوتی ہے ۔پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے تجویز پیش کی ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت 4سال کی جائے اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کے لیے جج کی شرط ختم کی جائے ۔ اس طرح الیکشن کمیشن کے کردار کو مزید موثر کرنے کا معاملہ بھی اس چارٹر میں شامل ہونا چاہیے۔ رضا ربانی کے چارٹر میں تضادات کے باوجود سیاسی جماعتوں کو اس چارٹر پر بحث کرنی چاہیے۔ بحث ومباحثے سے ہی جمہوری نظام کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے بے نظیر ماڈل متعارف کرتے ہوئے مجوزہ چارٹر کے 14نکات بیان کیے ان نکات میں (1) لندن کے میثاق جمہوریت پر نظر ثانی کرکے جمہوری قوتوں کے درمیان معاہدہ کیا جائے (2) 1973کے آئین کے تحت شروع ہونیوالے وفاقیت اور اختیارات کے عمل کو مکمل کرنے کا اعادہ کیا جائے (3) پارلیمنٹ کی بالادستی کی ضمانت دی جائے قومی سلامتی قومی تحفظات سیاسی اور آئینی اصلاحات آئین کے دائرے میں کی جائیں۔ (4) سول و ملٹری تعلقات کو از سر نو تشریحی و توضیحی کی جائے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ اور انتظامیہ کی سطح پر مسلسل مکالمے کے ذریعے نظام وضح کیا جائے(5) ایڈہاک ازم ختم کیا جائے گڈ گورننس بشمو ل سروسز اصلاحات کا نفاذ کیا جائے۔
(6) عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے (7) عدم برداشت ، شدت پسندی اور دہشت گردی کی تمام اشکال کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے(8) آئین کے تحت اقلیتوں ، خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے (9) ورکنگ کلاس اور متوسط طبقے کے حقوق کا تحفظ کیا جائے(10) ملازمتوں کی فراہمی میں کوٹہ سسٹم اورمیرٹ کے درمیان فرق برقرار رکھنے کے لیے آئین کی آرٹیکل 38کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ (11) جامعات کی خود مختاری کے ساتھ صوبوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف نصاب میں تبدیلی کرسکیں (12) قومی ثقافت کے قیام کی خاطر علاقائی ثقافتوں کو فروغ دیا جائے۔
(13) عامل صحافیوں کے حقوق اور آزادی صحافت سے متعلق آرٹیکل 19پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ (14) معدنیات، تیل ، گیس کے مساوی حقوق دینے کے لیے آرٹیکل (3)172پر بھی عمل درآمد یقینی بنایا جائے ۔ رضاربانی کے تیار کردہ ان نکات کا جائزہ لیا جائے تو واضح طو رپر آئین پرعمل درآمد کا معاملہ سامنے آتا ہے۔ ان نکات کی دفعہ 2کا تعلق صوبائی خود مختاری سے ہے ۔ گزشتہ پارلیمنٹ آئین میں 18ویں ترمیم کے خلاف صوبو ں کو وہ تمام حقوق دے چکے ہیں ،جن کا گذشتہ 60 سال سے مطالبہ ہورہا تھا مگر 18ویں ترمیم کے باوجود وہ تمام حقوق صوبوں کو نہیں ملے اور اس کے ساتھ ہی وفاق کے اختیارات بڑھانے کی باتیں شروع ہوگئیں۔
صوبے اب بھی قومی مالیاتی ایوارڈ کی رقم بڑھانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔بعض ادارے صوبوں کی مرضی کے خلاف اپنی حاکمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں، اس کی سب سے زیادہ شکایت صوبہ بلوچستان کو ہے ۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت کا صوبے پر مکمل اختیار نہیں ہے ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کو یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ان کی حکومت لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کررہی۔ یہ انتہائی اہم بات ہے کہ اگر جمہوری دور میں تمام اداروں پر پارلیمنٹ کی بالادستی نہیں ہوگی ، انتظامیہ پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے اپنی آمریت قائم کرے گی ، آئین کی روح کو پامال کرتے ہوئے آئینی اصلاحات کی جائیں تو پارلیمنٹ کی بالادستی کمزور ہوگی جس کا فائدہ طالع آزما قوتوں کو ہوا ۔
میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں آئین کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور بلوچستان میں اختر مینگل کی حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا ۔اس کا سارا نقصان جمہوری نظام کو ہوا تھا یوں اب ایسی کوئی کوشش جمہوری نظام کو مزیدکمزورکردے گی ۔رضا ربانی کے ان احکامات میں سول اور قومی تعلقات پر از سر نو تشریحی و توضیحی نکتہ قابل غور ہے۔ پیپلزپارٹی کے اہم ترین رہنما کی جانب سے بے نظیر ماڈل میں سول اور قومی تعلقات کی تشریحی و توضیحی کا مطالبہ ان کے اس چارٹر میں تضاد کی نشاندہی کرتا ہے۔
1973کے آئین کے تحت پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی جمہوری نظام کی نفاذ کے لیے ضروری ہے ۔ رضاربانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ قائد اعظم نے 1948میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ مسلح افواج کا بنیادی فریضہ قانونی حکومت کی پاسداری کرنا ہے ، اس طرح پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1973کے آئین کی تیاری میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوشش کی تھی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے سیاسی زندگی میں اس فلسفہ کا پرچار کرتی رہی ، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان 2006میں ہونے والے میثاق جمہوریت میں پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی کا اعادہ کیا گیا۔
اب پیپلزپارٹی کی جانب سے سول اور فوج تعلقات پر از سر نو بحث کا سوال پاکستان میں جمہوری اداروں کے ارتقاء کے طالب علموں کے لیے حیرت انگیز ہے ، اس چارٹر میں گو ڈ گورننس بشمول سروسز اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ رضا ربانی کی اپنی جماعت کے ایجنڈا بھی گڈ گورننس شامل نہیں ہے ، گزشتہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے جس طرح گڈ گورننس کی روح کو پامال کیا اور اب جس طرح صوبہ سندھ کے نظام کو چلایا جارہا ہے۔
قیاس کیا جاسکتا ہے کہ گڈ گورننس اور سروس اصلاحات انھوں نے اپنی پارٹی کی قیادت کی توجہ کے لیے رکھا ہے، اس طرح عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کی ہر شخص تائید کرے گا ، اس چارٹر کی یہ بات بھی اہم ہے کہ عدم برداشت ، شدت پسندی اور دہشت گردی کی تمام اشکال کے خلاف قومی اتفاقی رائے پیدا کیا جائے یہ اتفاقی رائے ریاست کی اعلیٰ ترین سطح یعنی پارلیمنٹ سے لے کر خاندان کے ادارے میں ہونا چاہیے اس مقصد کے لیے ذرایع ابلاغ کو ایک نکتے پر متفق ہونا چاہیے۔
نصاب میں تبدیلی سے لے کر ادب، شاعری ، فنون لطیفہ کی ہر صف میں اس نکتے کو شامل ہونا چاہیے اس چارٹر میںورکنگ کلاس اور متوسط طبقے، اقلیتوں خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اقلیتیں آئینی اور قانونی طور پر حقوق سے محروم ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں معرکتہ الآراء فیصلہ دیا ہے۔ تمام جماعتوں کو آئین کی ان شقوں کو ختم کرنا چاہیے جو غیر مسلم شہریوں کو حقوق سے محروم کرتی ہیں ۔ حکومتوں کی پالیسیوں کی بناء پر ورکنگ کلاس کے حالات کار انتہائی خراب ہیں۔ متوسط طبقہ گھل رہا ہے خواتین کے خلاف بھی جرائم بڑھ رہے ہیں۔ملک کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس چارٹر کا ایک نکتہ جامعات آزادی کا تحفظ اور آئین کے آرٹیکل 25Aپر عمل درآمد کا مطالبہ ہے ۔ رضا ربانی صاحب اگر باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں علم ہونا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سندھ کی جامعات کو حاصل اس خود مختاری کو ختم کردیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے تیارکردہ یونیورسٹی آرڈیننس 1973کے تحت حاصل ہوئی تھی مگر باقی شعبوں میں جامعات بھٹو صاحب کے دور کی خودمختاری سے استفادہ کررہی ہے ۔ اسطرح صوبوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ بھی انتہائی اہم ہے۔18ویں ترمیم کے تحت تعلیم صوبائی معاملہ ہے اس طرح نصاب کی تیاری صوبوں کی ذمے داری ہے۔
مسلم لیگ کی حکومت نصاب کو وفاق کے حوالے کرنا چاہتی ہے ۔یہ 18ویں ترمیم کی روح کے خلاف ورزی ہے اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ، اس کے ساتھ صوبوں کی ثقافت کی ترویج کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہے ۔ صوبوں کی ثقافت کی ترویج سے ایک قوم کی تشکیل ہوتی ہے ۔پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے تجویز پیش کی ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت 4سال کی جائے اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کے لیے جج کی شرط ختم کی جائے ۔ اس طرح الیکشن کمیشن کے کردار کو مزید موثر کرنے کا معاملہ بھی اس چارٹر میں شامل ہونا چاہیے۔ رضا ربانی کے چارٹر میں تضادات کے باوجود سیاسی جماعتوں کو اس چارٹر پر بحث کرنی چاہیے۔ بحث ومباحثے سے ہی جمہوری نظام کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔