عراق اور شام کے درمیان اسلامی ریاست

امریکا اس نئی ریاست کی تشکیل پر خاموش ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے گہرے مضمرات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے،


Zaheer Akhter Bedari July 11, 2014
[email protected]

جب عراق کے ایک بڑے شہر موصل پرانتہا پسندوں کا قبضہ ہوا اور وہ بغداد کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تو ہم نے اپنے ایک کالم ''مذہبی انتہا پسندی اور دنیا کا مستقبل'' میں اس کے خطرناک مضمرات کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اب یہ مذہبی انتہا پسندی جو فقہی چادر اوڑھے ہوئے ہے ایک باضابطہ ریاستی شکل اختیار کر رہی ہے، القاعدہ سے اختلافات کی وجہ سے الگ ہونے والے گروہ نے داعش یعنی (ISIS) کے نام سے جو اپنی علیحدہ تنظیم قائم کر لی ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ عراق اور شام کے درمیان اس کے مفتوحہ علاقوں پر مشتمل ایک حکومت قائم کر دی گئی ہے جس کا نام ''دولت اسلامی عراق و شام'' ہو گا جس کا ایک خلیفہ بھی منتخب کر لیا گیا ہے جس کا نام ابو بکر البغدادی ہے۔

امریکا اس نئی ریاست کی تشکیل پر خاموش ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے گہرے مضمرات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، امریکا اور اس کے اتحادی ایک طرف تو مذہبی انتہا پسندی کے خلاف دنیا بھر میں جنگ لڑ رہے ہیں دوسری طرف جہاں ان کے مفادات کا تقاضا ہوتا ہے وہ مذہبی انتہا پسندوں کو استعمال بھی کر رہے ہیں۔ شام میں جو فرقہ ورانہ جنگ جاری ہے امریکا اور اس کے مسلم اور غیر مسلم اتحادی شام کی اس فرقہ ورانہ جنگ میں اس فرقے کے انتہا پسندوں کو استعمال کر رہے ہیں جس فرقے نے عراق اور شام کے درمیان ایک نئی حکومت قائم کر لی ہے اور اپنی حکومت کو عرب ملکوں پاکستان، افغانستان، ایران اور یورپ تک توسیع دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔

ہم اس فرقہ ورانہ جنگ سے مسلمانوں اور مسلم ملکوں کو ہونے والے نقصان کا جائزہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو صرف نظر کر کے نہیں لے سکتے۔ امریکا کے منصوبہ سازوں کی نظر صرف مال پر نہیں ہوتی بلکہ آنے والی صدیوں تک ان کی نظر ہوتی ہے، امریکا سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا محافظ ہے۔سوویت روس کی جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کے بعد عالمی سطح پر یہ زبردست پروپیگنڈا کیا گیا کہ سوشلسٹ نظریے کو شکست ہو گئی اب سوشلسٹ نظریے کا مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔

اس پروپیگنڈے کا مقصد دنیا کی رائے عامہ کو یہ باور کرانا تھا کہ دنیا کے لیے نجات کا واحد ذریعہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی ڈھلتی ہوئی عمر اور بڑھتے ہوئے مظالم نے دنیا کے عوام میں جو بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے وہ سوشلسٹ بلاک سے زیادہ خطرناک بنتی جا رہی ہے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کے اتحاد کو مضبوط ہونے سے روکنا اور عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم کرنا ضروری ہے، مسلمان دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ ہیں اگر یہ کمیونٹی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحد ہوتی ہے تو اس نظام کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ۔

مشرق وسطیٰ کی بہار یا انقلابات نے سامراجی ملکوں کو چوکنا کر دیا ہے کہ یہ جنگجو قوم کا رخ اگر معاشی سماجی اور سیاسی نا انصافیوں کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کی طرف ہو گیا تو اس کے بڑے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ غالباً اس خطرے کے پیش نظر سامراجی ملکوں نے مذہبی انتہا پسندوں کو دو طریقوں سے استعمال کرنا شروع کیا ایک طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ مذہبی انتہا پسندوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا جس کی سب سے بڑی مثال افغانستان سے روس کو نکالنے میں مذہبی انتہا پسندوں کا بے دریغ استعمال ہے تو دوسری طرف فقہ کے حوالے سے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔

شام میں ایک فقہ کے حامیوں کے خلاف دوسرے فقہے کے انتہا پسندوں کو استعمال کیا جا رہا ہے اور عراق میں یہ استعمال اب ایک باضابطہ ریاستی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس دوغلی پالیسی کا واحد مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو لاحق عوام کی اجتماعی طاقت، بے چینی اور اضطراب کا رخ موڑنا ہے جس میں سامراجی ملک کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔سامراجی ملکوں کی تو یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ اپنے مفادات اور اپنے نظام کے تحفظ کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک قوم کہنے والے اور انھیں تابہ خاک کاشغر متحد دیکھنے والے مذہبی اکابرین کہاں ہیں؟

کیا انھیں عراق میں دس سال سے مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام نہیں دکھائی دے رہا ہے؟ کیا انھیں شام میں اپنے ہی خون میں نہائے ہوئے مسلمان نظر نہیں آ رہے ہیں؟ کیا انھیں وہ لاکھوں مسلمان نظر نہیں آ رہے ہیں جو شام اور عراق کے قتل عام سے گھبرا کر بے وطن ہو رہے ہیں؟ کیا انھیں پاکستان میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے پچاس ہزار مسلمان نظر نہیں آ رہے ہیں جو مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی کے شکار ہو گئے ہیں؟ کیا انھیں افریقی ملکوں میں فرقہ پرستوں کے ہاتھوں مارے جانے والے ہزاروں مسلمانوں اور بے گھر ہونے والے لاکھوں مسلمان نظر نہیں آ رہے ہیں جو مذہبی جنون اور فرقہ پرستی کا شکار ہو رہے ہیں؟

امریکا جن سے کام لیتا ہے انھیں دل کھول کر معاوضہ بھی دیتا ہے۔ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے جہاد کرنے والوں اور ان کی قیادت کے دامن ڈالر اور ہتھیاروں سے بھر دیے گئے یہی ڈالر یہی ہتھیار اب مذہبی جنون اور فرقہ پرستی کی جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں اور اس کی انتہا یہ ہے کہ اب شام اور عراق کے بفرزون میں ایک ایسی مسلکی حکومت قائم ہو گئی ہے جو پاکستان افغانستان ایران اور پرے مشرق وسطیٰ تک توسیع کا اعلان کر رہی ہے دنیا کے تمام مسلم ملکوں میں دونوں متحارب فقہوں کے ماننے والے کروڑوں کی تعداد میں رہتے ہیں۔

کیا کسی ایک فقہ کی حکومت کے قیام اور تمام مسلم ملکوں تک اس کی توسیع کی کوششوں سے مسلمان خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوں گے؟۔یہ بڑا خطرناک سوال ہے اور اس کے خطرناک مضمرات کا اندازہ کرنا ان جید اکابرین کا کام ہے جو اقبال کی اس خواہش کے پیروکار ہیں جس کے مطابق ''مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا'' اس کے بر خلاف حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مذہبی جنون ہماری فرقہ ورانہ جنگوں ہماری و حشت و بربریت ہمارے خودکش بمباروں، ہماری بارودی گاڑیوں، ہماری بارودی جیکٹوں اور اس سے ہونے والی تباہی نے ساری دنیا کو ہمارے خلاف کر دیا ہے دنیا ہمیں پتھر کے دور اور ماضی بعید کے وحشی انسان کے خطاب سے سرفراز کر رہی ہے۔

ایک امیر المومنین ملا عمر پہلے سے موجود ہیں اب دوسرے امیر المومنین ابو بکر البغدادی کی خلافت کے اعلان کے بعد کیا ایک ہی فقہ کے درمیان جنگ اور خون خرابے کے امکانات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں