بلوچستان کا ’گلو بٹ‘
اس گلوبٹ کی نہ تو بڑی بڑی مونچھیں ہیں، نہ ہی بظاہر اس کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا ہے۔لیکن یہ حقیقی طاقت کا منبع ہے۔
KARACHI:
میڈیا نے اورکئی کارناموں کے ساتھ ہمارے لیے ایک کارنامہ یہ انجام دیا ہے کہ ایک طرف کئی اصطلاحوں کے نئی مفاہیم متعین کیے تو دوسری طرف کئی ایسی نئی اصطلاحات بھی متعارف کروائیں جو بعد ازاں سماج کے معمول کا حصہ بن گئیں۔اب انقلاب ہی کی اصطلاح لے لیجیے، جو حشر اس کے ساتھ ہوا ہے، اگر اس لفظ کے ہاتھ پاؤں ہوتے تو یہ کب کا اس سماج سے ہاتھ باندھ کر رفو چکر ہو چکا ہوتا۔روشن خیالی اور ترقی پسندی تو خیر پرویز مشرف کے زمانے میں ہی 'کماڈیٹی' بن چکی تھی۔
میڈیا کی وضع کردہ تازہ ترین اصطلاح 'گلو بٹ' ہے۔گلو بٹ نامی حقیقی کردارکا ایک عکس تو ہم نے قادری سیاست کی ایک قسط میں لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں ڈنڈہ برداری کی صورت میں دیکھا۔ اپنی لمبی چوڑی مونچھوں کو تاؤدیتا، اور بے مہار طاقت کا مظاہرہ کرتا ایک ایسا کردار جسے سیاسی ایوانوں کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔گلوبٹ سرکار کی اصل طاقت کا ایک مظہر ہے۔ وہی طاقت جو ایوان کی غلام گردشوں میں تو مختلف انداز سے برسرپیکار رہتی ہے لیکن جب اپنے ننگے اظہار پہ اتر آئے تو اس کا بہت کچھ 'ننگا' ہو جاتا ہے۔
بلوچستان میں بھی طاقت کا یہ گلوبٹ نامی مظہر اپنا بھرپور وجود رکھتا ہے، اور مختلف اوقات میں مختلف صورتوں میں اپنا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔یہ ہمارا گلو بٹ ہی ہے جو طے کرتا ہے کہ کس کو کہاں ،کون سی نوکری دینی ہے، کسے سزا کے بطور کہاں بھجوانا ہے، کس مخالف سے طاقت کے کس مظہر کے ساتھ نمٹنا ہے۔ کون سی خبر کہاں اچھی لگے گی اور کون سی خبر کا 'خاتمہ' بہتر ہے۔ سی ایم ہاؤس میں کس کی کتنی تواضع ہونی ہے اور کس کا داخلہ ممنوع رکھنا ہے۔ کون سی کتابوں پہ پابندی لگانی ہے، کن اداروں پہ چھاپے ڈالنے ہیں، کن تعلیمی اداروں کو نوازنا ہے اورکن کو بند کروانا ہے۔یہ سب ہمارا گلوبٹ طے کرتا ہے۔
اس گلوبٹ کی نہ تو بڑی بڑی مونچھیں ہیں، نہ ہی بظاہر اس کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا ہے۔لیکن یہ حقیقی طاقت کا منبع ہے۔ اس کا کوئی چہرہ نہیں، لیکن اس کے کئی چہرے ہیں۔ یہ کسی جگہ نہیں ہوتا، لیکن بیک وقت کئی جگہوں پہ ہوتا ہے۔ بلوچستان کا گلو بٹ، حقیقی معنوں میں ایک 'گورکھ دھندا' ہے۔ بلوچستان حکومت کے لیے جگ ہنسائی اور سر عام رسوائی کا باعث بننے والی ارسلان افتخار کی تقرری دراصل اسی گلو بٹ کی 'طاقت' کا شاخسانہ تھی۔جس کا خمیازہ بلوچستان کے مدبر وزیراعلیٰ کو بھگتنا پڑا۔
کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کے بعد بلوچستان حکومت کی یہ دوسری بڑی سیاسی ناکامی تھی، جسے محض غلطی نہیں بلکہ 'بلنڈر' کہتے ہیں۔ حکمرانوں نے کمال اعتماد کے ساتھ اسمبلی فلور پہ اعلان کیا کہ یہ تقرری انھوں نے ذاتی ایما پہ کی ہے، اور وہ ایسا کرنے کے مجاز ہیں، جنھیں اس پہ تکلیف ہے، وہ ان سے آکر بات کریں۔ اور پھر ہم نے دیکھا محض چار روز بعد وہی حکمران اسلام آباد میں پریس کے سامنے اس فیصلے کو برسرعام اپنی غلطی تسلیم کر رہے تھے۔غلطی کے اعتراف سے ان کا قد بڑا ہوا۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر میر حاصل خان بزنجو نے تو یہ کہہ کر کمال ہی کر دیا کہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کو اس تقرری سے پیدا ہونے والے تنازع کا اندازہ ہی نہ تھا۔ انھوں نے یہ 'چشم کشا' اعتراف بھی کیا ارسلان افتخار کی تقرری ان کے والد سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ذاتی خواہش پر کی گئی جس کا بلواسطہ اظہار انھوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے کیا۔ گویا اب بلوچستان میں اعلیٰ سطح کی تقرریاں محض کسی کی ذاتی خواہش کی بنیاد پر ہوں گی؟ بلوچستان کے وسائل کسی کی ذاتی ملکیت نہیں کہ جس کی رکھوالی کے تقرر کا فیصلہ ذاتی بنیادوں پرکیا جائے۔ اعلیٰ سطح کے فیصلوں میں پارلیمنٹ کو ،ارکانِ اسمبلی کو نظر انداز کرنا غیر جمہوری رویہ ہوگا، جو نیشنل پارٹی جیسی جمہوری سیاسی جماعت کے اکابرین کو زیب نہیں دیتا۔
ارسلان افتخار سے جڑی لگ بھگ سبھی کہانیاں اب تک مختلف حوالوں سے بیان ہو چکیں۔ ان میں اہم ترین بنیادی اور مرکزی نقطہ یہ رہا کہ بلوچستان میں اعلیٰ پیمانے پر ہونے والی کسی بھی سرگرمی کو عالمی سیاسی تناظر سے ہٹ کر دیکھنا ممکن ہی نہیں رہا۔ سو بہتر ہوتا کہ کہانیاں بیان کرنے کی بجائے اصل کہانی بیان کر دی جائے، اس سے حکمرانوں کی بڑائی میں کمی نہیں ہو گی۔ بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ کو پانچ برس تک سدابہارلطیفوں کی زد میں رکھنے والے نواب رئیسانی کی ایک خوبی کے سبھی معترف تھے کہ بعض معاملات میں وہ اپنی بے بسی کا واضح اظہار کرتے تھے۔ مثلاً سیکیورٹی کے معاملے پہ انھوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ ایف سی ان کے کنٹرول میں نہیں ہے، اور سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے میں ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔
واقفِ حال احباب بخوبی جانتے ہیں کہ عملاً صورت حال آج بھی یہی ہے لیکن ہمارے وزیراعلیٰ اپنے 'بااختیار' ہونے کا دعویٰ جس اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں، اس کی عملی صورت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے دعوؤں کے ساتھ زمامِ اقتدار ہاتھ میں لینے والے حکمران آج لاپتہ افراد کا تذکرہ زباں پہ نہیں لاتے، مسخ شدہ لاش آج بھی کہیں گر جائے تو ان کی زباں سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔ تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز سے لے کر کتابوں کی دکانوں پہ چھاپوں اور بعض کتابوں پہ پابندی ، اسی دور میں ہی لگی۔مکران کے تعلیمی ادارے دو ماہ سے بند پڑے ہیں، حکمران انھیں کھولنے کی گارنٹی دینے سے قاصر ہیں۔
اور ان سب کے پیچھے پوشیدہ ہے گلوبٹ کی قوت۔ ہمارا گلوبٹ ہی اصل قوت کا مرکز و منبع ہے۔ حقیقی فیصلے اسی کی مرضی و منشا سے ہوتے ہیں۔حکمران اس گلوبٹ کی قوت کو چیلنج کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے تو کم از کم اس قوت کی موجودگی کو ہی تسلیم کر لیں۔ اس سے ان کی اخلاقی پوزیشن کمزور ہونے کی بجائے مستحکم ہو گی۔ یہ اور بات کہ اس غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوت کے خلاف صف آرا ہونا سیاسی و جمہوری قوتوں کا فریضہ ہے۔ بلوچستان میں سیاسی قوتیں اب تک اپنے وجود کی بقا سے دوچار ہیں، یہ اس مرحلے سے باہر آئیں گی تو طاقت کے گلوبٹ سے نمٹیں گی۔
میڈیا نے اورکئی کارناموں کے ساتھ ہمارے لیے ایک کارنامہ یہ انجام دیا ہے کہ ایک طرف کئی اصطلاحوں کے نئی مفاہیم متعین کیے تو دوسری طرف کئی ایسی نئی اصطلاحات بھی متعارف کروائیں جو بعد ازاں سماج کے معمول کا حصہ بن گئیں۔اب انقلاب ہی کی اصطلاح لے لیجیے، جو حشر اس کے ساتھ ہوا ہے، اگر اس لفظ کے ہاتھ پاؤں ہوتے تو یہ کب کا اس سماج سے ہاتھ باندھ کر رفو چکر ہو چکا ہوتا۔روشن خیالی اور ترقی پسندی تو خیر پرویز مشرف کے زمانے میں ہی 'کماڈیٹی' بن چکی تھی۔
میڈیا کی وضع کردہ تازہ ترین اصطلاح 'گلو بٹ' ہے۔گلو بٹ نامی حقیقی کردارکا ایک عکس تو ہم نے قادری سیاست کی ایک قسط میں لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں ڈنڈہ برداری کی صورت میں دیکھا۔ اپنی لمبی چوڑی مونچھوں کو تاؤدیتا، اور بے مہار طاقت کا مظاہرہ کرتا ایک ایسا کردار جسے سیاسی ایوانوں کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔گلوبٹ سرکار کی اصل طاقت کا ایک مظہر ہے۔ وہی طاقت جو ایوان کی غلام گردشوں میں تو مختلف انداز سے برسرپیکار رہتی ہے لیکن جب اپنے ننگے اظہار پہ اتر آئے تو اس کا بہت کچھ 'ننگا' ہو جاتا ہے۔
بلوچستان میں بھی طاقت کا یہ گلوبٹ نامی مظہر اپنا بھرپور وجود رکھتا ہے، اور مختلف اوقات میں مختلف صورتوں میں اپنا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔یہ ہمارا گلو بٹ ہی ہے جو طے کرتا ہے کہ کس کو کہاں ،کون سی نوکری دینی ہے، کسے سزا کے بطور کہاں بھجوانا ہے، کس مخالف سے طاقت کے کس مظہر کے ساتھ نمٹنا ہے۔ کون سی خبر کہاں اچھی لگے گی اور کون سی خبر کا 'خاتمہ' بہتر ہے۔ سی ایم ہاؤس میں کس کی کتنی تواضع ہونی ہے اور کس کا داخلہ ممنوع رکھنا ہے۔ کون سی کتابوں پہ پابندی لگانی ہے، کن اداروں پہ چھاپے ڈالنے ہیں، کن تعلیمی اداروں کو نوازنا ہے اورکن کو بند کروانا ہے۔یہ سب ہمارا گلوبٹ طے کرتا ہے۔
اس گلوبٹ کی نہ تو بڑی بڑی مونچھیں ہیں، نہ ہی بظاہر اس کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا ہے۔لیکن یہ حقیقی طاقت کا منبع ہے۔ اس کا کوئی چہرہ نہیں، لیکن اس کے کئی چہرے ہیں۔ یہ کسی جگہ نہیں ہوتا، لیکن بیک وقت کئی جگہوں پہ ہوتا ہے۔ بلوچستان کا گلو بٹ، حقیقی معنوں میں ایک 'گورکھ دھندا' ہے۔ بلوچستان حکومت کے لیے جگ ہنسائی اور سر عام رسوائی کا باعث بننے والی ارسلان افتخار کی تقرری دراصل اسی گلو بٹ کی 'طاقت' کا شاخسانہ تھی۔جس کا خمیازہ بلوچستان کے مدبر وزیراعلیٰ کو بھگتنا پڑا۔
کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کے بعد بلوچستان حکومت کی یہ دوسری بڑی سیاسی ناکامی تھی، جسے محض غلطی نہیں بلکہ 'بلنڈر' کہتے ہیں۔ حکمرانوں نے کمال اعتماد کے ساتھ اسمبلی فلور پہ اعلان کیا کہ یہ تقرری انھوں نے ذاتی ایما پہ کی ہے، اور وہ ایسا کرنے کے مجاز ہیں، جنھیں اس پہ تکلیف ہے، وہ ان سے آکر بات کریں۔ اور پھر ہم نے دیکھا محض چار روز بعد وہی حکمران اسلام آباد میں پریس کے سامنے اس فیصلے کو برسرعام اپنی غلطی تسلیم کر رہے تھے۔غلطی کے اعتراف سے ان کا قد بڑا ہوا۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر میر حاصل خان بزنجو نے تو یہ کہہ کر کمال ہی کر دیا کہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کو اس تقرری سے پیدا ہونے والے تنازع کا اندازہ ہی نہ تھا۔ انھوں نے یہ 'چشم کشا' اعتراف بھی کیا ارسلان افتخار کی تقرری ان کے والد سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ذاتی خواہش پر کی گئی جس کا بلواسطہ اظہار انھوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے کیا۔ گویا اب بلوچستان میں اعلیٰ سطح کی تقرریاں محض کسی کی ذاتی خواہش کی بنیاد پر ہوں گی؟ بلوچستان کے وسائل کسی کی ذاتی ملکیت نہیں کہ جس کی رکھوالی کے تقرر کا فیصلہ ذاتی بنیادوں پرکیا جائے۔ اعلیٰ سطح کے فیصلوں میں پارلیمنٹ کو ،ارکانِ اسمبلی کو نظر انداز کرنا غیر جمہوری رویہ ہوگا، جو نیشنل پارٹی جیسی جمہوری سیاسی جماعت کے اکابرین کو زیب نہیں دیتا۔
ارسلان افتخار سے جڑی لگ بھگ سبھی کہانیاں اب تک مختلف حوالوں سے بیان ہو چکیں۔ ان میں اہم ترین بنیادی اور مرکزی نقطہ یہ رہا کہ بلوچستان میں اعلیٰ پیمانے پر ہونے والی کسی بھی سرگرمی کو عالمی سیاسی تناظر سے ہٹ کر دیکھنا ممکن ہی نہیں رہا۔ سو بہتر ہوتا کہ کہانیاں بیان کرنے کی بجائے اصل کہانی بیان کر دی جائے، اس سے حکمرانوں کی بڑائی میں کمی نہیں ہو گی۔ بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ کو پانچ برس تک سدابہارلطیفوں کی زد میں رکھنے والے نواب رئیسانی کی ایک خوبی کے سبھی معترف تھے کہ بعض معاملات میں وہ اپنی بے بسی کا واضح اظہار کرتے تھے۔ مثلاً سیکیورٹی کے معاملے پہ انھوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ ایف سی ان کے کنٹرول میں نہیں ہے، اور سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے میں ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔
واقفِ حال احباب بخوبی جانتے ہیں کہ عملاً صورت حال آج بھی یہی ہے لیکن ہمارے وزیراعلیٰ اپنے 'بااختیار' ہونے کا دعویٰ جس اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں، اس کی عملی صورت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے دعوؤں کے ساتھ زمامِ اقتدار ہاتھ میں لینے والے حکمران آج لاپتہ افراد کا تذکرہ زباں پہ نہیں لاتے، مسخ شدہ لاش آج بھی کہیں گر جائے تو ان کی زباں سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔ تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز سے لے کر کتابوں کی دکانوں پہ چھاپوں اور بعض کتابوں پہ پابندی ، اسی دور میں ہی لگی۔مکران کے تعلیمی ادارے دو ماہ سے بند پڑے ہیں، حکمران انھیں کھولنے کی گارنٹی دینے سے قاصر ہیں۔
اور ان سب کے پیچھے پوشیدہ ہے گلوبٹ کی قوت۔ ہمارا گلوبٹ ہی اصل قوت کا مرکز و منبع ہے۔ حقیقی فیصلے اسی کی مرضی و منشا سے ہوتے ہیں۔حکمران اس گلوبٹ کی قوت کو چیلنج کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے تو کم از کم اس قوت کی موجودگی کو ہی تسلیم کر لیں۔ اس سے ان کی اخلاقی پوزیشن کمزور ہونے کی بجائے مستحکم ہو گی۔ یہ اور بات کہ اس غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوت کے خلاف صف آرا ہونا سیاسی و جمہوری قوتوں کا فریضہ ہے۔ بلوچستان میں سیاسی قوتیں اب تک اپنے وجود کی بقا سے دوچار ہیں، یہ اس مرحلے سے باہر آئیں گی تو طاقت کے گلوبٹ سے نمٹیں گی۔