ملکی صورت حال اور ہوش و حواس
آپ اس کے ایک ڈرامے Wasps کا آغاز دیکھیے وہ کس اندازسے ایتھنز کے شہریوں کو ان کی کمزوریوں اور خامیوں سے آگا ہ کرتاہے
والٹیر نے کہا تھا'' میں جب ارسٹو فینیز کے طربیہ ڈرامے پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں ڈرامے نہیں اس زمانے کا اخبار پڑھ رہا ہوں جس میں ایتھنز کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں ۔'' والٹیر کی ارسٹو فینیز کے بارے میں یہ رائے بالکل درست تھی آپ اس کے ڈرامے اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو ایسا آئینہ دکھائی دے گا، جس میں اس عہد کا ایتھنز چلتا پھرتا نظر آئے گا اس دور کے سیاست دان ، ٹیکس کے بوجھ تلے دکان دار آسمانی فلسفے پر یقین رکھنے والے لوگ، سقراط ، اس کے شاگرد، جنس زدہ لوگ ، عورتوں کا احتجاج ، مذہب کے خلاف احتجاج کرنے والے ان کا راستہ روکنے والے عورتوں کے رسیا،یہ ہی وہ سب کردار ہیں جو ارسٹو فینیز کے ڈراموں کو اپنے افعال اور مکالموں سے سنوارتے ہیں۔
آج آپ بھی جب ان ڈراموں کو پڑھیں گے تو آپ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ میں ارسٹو فینیزکے ڈرامے نہیں بلکہ آج کا پاکستان کاکوئی اخبار پڑھ رہا ہوں جس میں پاکستان کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں ۔ آپ کو ان ڈراموں میں آج پاکستان چلتا پھرتا دکھائی دے گا۔
آپ اس کے ایک ڈرامے Wasps کا آغاز دیکھیے وہ کس اندازسے ایتھنز کے شہریوں کو ان کی کمزوریوں اور خامیوں سے آگا ہ کرتاہے۔ ارسٹو فینیز کے زمانے میں فنکار ڈراما دیکھنے والے لوگوں سے آگاہ ہوتے تھے۔ آبادی کم ہونے کے سبب وہ لوگوں کے ناموں اور ان کے شجرہ نسب سے بھی واقف ہوتے تھے Wasps کاآغاز دونوکروں کی بات چیت سے ہوتا ہے دونوں اپنے آقاکی خا میوں اور کمزوریوں کے بارے میں بات چیت کررہے ہیں ۔
نوکر1۔ہمارے آقا کو ایک عجیب و غریب بیماری لگ گئی ہے نوکر2 -کونسی بیماری ہے وہ نوکر1 ۔ اس کا کسی کونہیں پتہ تم ہی بتائو ۔ نوکر 2 -تماشائیوں کی طرف دیکھ کر کہتاہے سامنے Pronapes کابیٹا بیٹھا ہے، کہہ رہا ہے اسے جوا کھیلنے کی بیماری لگ گئی ہے۔ نوکر2 وہ دیکھو Sosias بیٹھا ہے اس کا خیال ہے ہمارا مالک شراب پینے کا عادی ہوگیاہے۔ نوکر 1 ۔ وہ یہ اپنی بیماری اور عادت بتلا رہاہے ۔ اور پھر اسی طرح وہ لوگوں کو ان کی عادات و حضائل بتلاتے ہیں جب ڈرامہ ختم ہوتاہے۔ دوسرے شو کے تماشائی آتے ہیں تو ڈرامے کے کردار انھیں دیکھ کر نام بدلتے رہتے ہیں اور ان کی کمزوریاں بتلا تے رہتے ہیں اور اس طرح پورے ایتھنز کے لوگوں کی کمزوریاں سامنے آجاتی ہے ۔
سیاسی شخصیتوں اور عبادت گاہوں کے مجاوروں پر ذرا اس کا طنز دیکھیں ڈرامے کا نام Plutus ہے۔ ڈرامے میں دکھایاگیاہے کہ ایک نا بینا آدمی جارہاہے ایک ادھیڑ آدمی اوراس کا نوکر اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں نوکر اپنے آقا سے پوچھتا ہے کہ ہم ایک اندھے آدمی کا پیچھا کیوں کررہے ہیں آقا۔ تم میرے غلاموں میں سب سے ذہین ہو اور سب سے اچھے چور بھی ہو میں ہمیشہ سے ایک مذہبی آدمی رہا ہوں اور ہمیشہ سے مفلس اور غریب ہوں ۔ غلام، ہاں ایسا ہی ہے ۔ آقا،جب کہ عبادت گاہوں کے پجاری ، ڈاکو اور سیاست میں شامل چورہمیشہ دولت مند اور امیر رہے ہیں۔ یہ ہی غلام ڈرامے میں آگے چل کر ایک سیاست دان سے ملتا ہے اوراس سے پوچھتا ہے۔
غلام، تم اچھے آدمی ہو کیا تم محب وطن ہو۔ سیاست دان ، ہاں اگر اس کاکوئی وجود ہے۔ غلام، تو پھرتم کسان ہو کھیتی باڑی کرتے ہو۔ سیاست دان،۔میں پاگل نہیں ہوں کہ یہ کام کروں ۔ غلام ،تو پھر تم ضرور تجارت کرتے ہو تاجر ہو۔ سیاست دان ، کبھی تجارت کرتا تھا ۔ مگر اب نہیں غلام ،تو پھر تم کیا کاروبار کرتے ہو۔ سیاست دان ، کوئی کام نہیں کرتا غلام تو پھر گذارا کیسے ہوتا ہے ۔ سیاست دان اس کا جواب یہ ہے کہ میں حکومت میں سپر وائز جنرل ہوں، میں نجی اور عوامی اداروں کی دیکھ بھال کرتاہوں غلام۔ واہ واہ بڑا عہدہ ہے اس عہدے کو حاصل کرنے کے تم اہل ہو؟ سیاست دان ،بالکل نہیں میں نے چاہا اور یہ مجھے مل گیا ۔
پاکستان دنیاکا وہ واحد ملک ہے جہاں مقتول کا فیصلہ قاتل عورت کا فیصلہ مرد بچے کا فیصلہ بڑا محکوم کا فیصلہ حاکم مظلوم کا فیصلہ ظالم اور 18 کروڑ عوام کا فیصلہ نااہل اور کرپٹ حکمران کرتے ہیں ۔ آپ کو پاکستان میں چند کو چھوڑ کر باقی سب کے سب حادثاتی یا اتفاقی طور پر اعلیٰ عہدوں اور رتبوں پر بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے وہ حضرات فیصلے بھی کر رہے ہونگے ملک و قوم کے بارے میں سو چ و بچار کا کام بھی کررہے ہونگے قانون سازی کے عمل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہونگے ۔
اگر ان تمام حضرات کی قابلیت ، اہلیت اور شرافت کا کسی بھی بین الاقوامی ماہرین سے ٹیسٹ کروا لیاجائے تو ٹیسٹ لینے والے غیر ملکی ماہرین اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے اور پھر کسی بھی کام کے لائق نہیں رہیں گے اور ساری زندگی ان کے گھر والے آپ کو کوستے رہیں گے جتنی بھی بددعائیں دے سکتے ہیں دیتے رہیں گے۔ ایک چھوٹا سا تجربہ آپ بھی کرکے دیکھ سکتے ہیں کسی روز آپ اپنے آپ کو ایک کمرہ میں بند کرلیں اور تمام گھر والوں کو ہدایات جاری کر دیں کہ کوئی بھی انھیں ڈسٹرب نہ کرے ۔ پھر آپ تمام ملک کی اعلیٰ شخصیات کا ایک ایک کرکے احتساب کرنا شروع کر دیں ۔ اور پھر گھنٹوں بعد آپ کا بھی وہ ہی حشر نشر ہو جائے گا جو غیر ملکی ماہرین کا ہوگا۔
اب اس صورتحال پر اپنا سر نہ پیٹا جائے تو کیا کیاجائے ۔ ہمارے نااہل اورکرپٹ سیاست دانوں ، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، نام نہاد ملائوں ، راشی اعلیٰ افسران نے اس ملک کو مال غنیمت سمجھ رکھا ہے لوٹ مار کا مال سمجھ رکھا ہے جس کی جب مرضی آتی ہے اور دل چاہتاہے لوٹتا ہے برباد کرتا ہے اور مزے سے ساری زندگی عیش و عشرت سے گذارتا ہے ۔ ان تمام حضرات کے ابتدائی معاشی حالات کو ٹٹول لیں اور ان کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھ لیں زمین اور آسمان سے زیادہ فرق آپ کو ملے گا ۔ حلال کی آمدنی سے محلات ، ملیں ، جاگیریں ، کبھی نہیں بنتی ہیں ۔ ملک سے باہر ممالک میں گھر اور بینک بیلنس نہیں بنتے ہیں ۔
مشتاق احمد یوسفی نے کیاخو ب کہا ہے '' میرا خیال ہے کہ حالت حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈ پر یشر اورگالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دار ہے '' مزے کی بات یہ ہے کہ ان حضرات کا یہ کہنا یہ سب ہمارے آبائو اجداد اور بزرگوں کی چھوڑی ہوئی نشانیاں ہیں ۔معاف کیجیے گا جناب عالیٰ یہ راگ بہت پرانا ہے جو ہم ہر راشی اور کرپٹ سے برسوں سے سنتے آرہے ہیں ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انگریزوں نے جائیدادیں ،سر اور خان بہادر کے خطابات اپنوں کی مخبری پر، ان کی خوشامد،خدمات اور جی حضوری پر خیرات میں بانٹی تھیں اور رہی بات نو دولتیوں کی تو ان کے کرتوت اور حرکات پر تو بات کرنا ہی شرم ناک ہے۔
اس ساری صورتحال کو بغور دیکھنے والے اور اس پر غورو فکر کرنے والے اگر اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھتے ہیں تو اس پر حیران و پریشان ہونے کی کیابات ہے، لہذا جو حضرات اس کے باوجود ابھی تک اپنا ذہنی توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان کا شعور اور ضمیر ابھی تک زندہ ہے تو وہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتے رہیں ۔ ہماری دعا ہے خدا باقیوں کو اپنی امان و حفاظت میں رکھے ذہنی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی ۔
آج آپ بھی جب ان ڈراموں کو پڑھیں گے تو آپ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ میں ارسٹو فینیزکے ڈرامے نہیں بلکہ آج کا پاکستان کاکوئی اخبار پڑھ رہا ہوں جس میں پاکستان کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں ۔ آپ کو ان ڈراموں میں آج پاکستان چلتا پھرتا دکھائی دے گا۔
آپ اس کے ایک ڈرامے Wasps کا آغاز دیکھیے وہ کس اندازسے ایتھنز کے شہریوں کو ان کی کمزوریوں اور خامیوں سے آگا ہ کرتاہے۔ ارسٹو فینیز کے زمانے میں فنکار ڈراما دیکھنے والے لوگوں سے آگاہ ہوتے تھے۔ آبادی کم ہونے کے سبب وہ لوگوں کے ناموں اور ان کے شجرہ نسب سے بھی واقف ہوتے تھے Wasps کاآغاز دونوکروں کی بات چیت سے ہوتا ہے دونوں اپنے آقاکی خا میوں اور کمزوریوں کے بارے میں بات چیت کررہے ہیں ۔
نوکر1۔ہمارے آقا کو ایک عجیب و غریب بیماری لگ گئی ہے نوکر2 -کونسی بیماری ہے وہ نوکر1 ۔ اس کا کسی کونہیں پتہ تم ہی بتائو ۔ نوکر 2 -تماشائیوں کی طرف دیکھ کر کہتاہے سامنے Pronapes کابیٹا بیٹھا ہے، کہہ رہا ہے اسے جوا کھیلنے کی بیماری لگ گئی ہے۔ نوکر2 وہ دیکھو Sosias بیٹھا ہے اس کا خیال ہے ہمارا مالک شراب پینے کا عادی ہوگیاہے۔ نوکر 1 ۔ وہ یہ اپنی بیماری اور عادت بتلا رہاہے ۔ اور پھر اسی طرح وہ لوگوں کو ان کی عادات و حضائل بتلاتے ہیں جب ڈرامہ ختم ہوتاہے۔ دوسرے شو کے تماشائی آتے ہیں تو ڈرامے کے کردار انھیں دیکھ کر نام بدلتے رہتے ہیں اور ان کی کمزوریاں بتلا تے رہتے ہیں اور اس طرح پورے ایتھنز کے لوگوں کی کمزوریاں سامنے آجاتی ہے ۔
سیاسی شخصیتوں اور عبادت گاہوں کے مجاوروں پر ذرا اس کا طنز دیکھیں ڈرامے کا نام Plutus ہے۔ ڈرامے میں دکھایاگیاہے کہ ایک نا بینا آدمی جارہاہے ایک ادھیڑ آدمی اوراس کا نوکر اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں نوکر اپنے آقا سے پوچھتا ہے کہ ہم ایک اندھے آدمی کا پیچھا کیوں کررہے ہیں آقا۔ تم میرے غلاموں میں سب سے ذہین ہو اور سب سے اچھے چور بھی ہو میں ہمیشہ سے ایک مذہبی آدمی رہا ہوں اور ہمیشہ سے مفلس اور غریب ہوں ۔ غلام، ہاں ایسا ہی ہے ۔ آقا،جب کہ عبادت گاہوں کے پجاری ، ڈاکو اور سیاست میں شامل چورہمیشہ دولت مند اور امیر رہے ہیں۔ یہ ہی غلام ڈرامے میں آگے چل کر ایک سیاست دان سے ملتا ہے اوراس سے پوچھتا ہے۔
غلام، تم اچھے آدمی ہو کیا تم محب وطن ہو۔ سیاست دان ، ہاں اگر اس کاکوئی وجود ہے۔ غلام، تو پھرتم کسان ہو کھیتی باڑی کرتے ہو۔ سیاست دان،۔میں پاگل نہیں ہوں کہ یہ کام کروں ۔ غلام ،تو پھر تم ضرور تجارت کرتے ہو تاجر ہو۔ سیاست دان ، کبھی تجارت کرتا تھا ۔ مگر اب نہیں غلام ،تو پھر تم کیا کاروبار کرتے ہو۔ سیاست دان ، کوئی کام نہیں کرتا غلام تو پھر گذارا کیسے ہوتا ہے ۔ سیاست دان اس کا جواب یہ ہے کہ میں حکومت میں سپر وائز جنرل ہوں، میں نجی اور عوامی اداروں کی دیکھ بھال کرتاہوں غلام۔ واہ واہ بڑا عہدہ ہے اس عہدے کو حاصل کرنے کے تم اہل ہو؟ سیاست دان ،بالکل نہیں میں نے چاہا اور یہ مجھے مل گیا ۔
پاکستان دنیاکا وہ واحد ملک ہے جہاں مقتول کا فیصلہ قاتل عورت کا فیصلہ مرد بچے کا فیصلہ بڑا محکوم کا فیصلہ حاکم مظلوم کا فیصلہ ظالم اور 18 کروڑ عوام کا فیصلہ نااہل اور کرپٹ حکمران کرتے ہیں ۔ آپ کو پاکستان میں چند کو چھوڑ کر باقی سب کے سب حادثاتی یا اتفاقی طور پر اعلیٰ عہدوں اور رتبوں پر بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے وہ حضرات فیصلے بھی کر رہے ہونگے ملک و قوم کے بارے میں سو چ و بچار کا کام بھی کررہے ہونگے قانون سازی کے عمل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہونگے ۔
اگر ان تمام حضرات کی قابلیت ، اہلیت اور شرافت کا کسی بھی بین الاقوامی ماہرین سے ٹیسٹ کروا لیاجائے تو ٹیسٹ لینے والے غیر ملکی ماہرین اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے اور پھر کسی بھی کام کے لائق نہیں رہیں گے اور ساری زندگی ان کے گھر والے آپ کو کوستے رہیں گے جتنی بھی بددعائیں دے سکتے ہیں دیتے رہیں گے۔ ایک چھوٹا سا تجربہ آپ بھی کرکے دیکھ سکتے ہیں کسی روز آپ اپنے آپ کو ایک کمرہ میں بند کرلیں اور تمام گھر والوں کو ہدایات جاری کر دیں کہ کوئی بھی انھیں ڈسٹرب نہ کرے ۔ پھر آپ تمام ملک کی اعلیٰ شخصیات کا ایک ایک کرکے احتساب کرنا شروع کر دیں ۔ اور پھر گھنٹوں بعد آپ کا بھی وہ ہی حشر نشر ہو جائے گا جو غیر ملکی ماہرین کا ہوگا۔
اب اس صورتحال پر اپنا سر نہ پیٹا جائے تو کیا کیاجائے ۔ ہمارے نااہل اورکرپٹ سیاست دانوں ، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، نام نہاد ملائوں ، راشی اعلیٰ افسران نے اس ملک کو مال غنیمت سمجھ رکھا ہے لوٹ مار کا مال سمجھ رکھا ہے جس کی جب مرضی آتی ہے اور دل چاہتاہے لوٹتا ہے برباد کرتا ہے اور مزے سے ساری زندگی عیش و عشرت سے گذارتا ہے ۔ ان تمام حضرات کے ابتدائی معاشی حالات کو ٹٹول لیں اور ان کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھ لیں زمین اور آسمان سے زیادہ فرق آپ کو ملے گا ۔ حلال کی آمدنی سے محلات ، ملیں ، جاگیریں ، کبھی نہیں بنتی ہیں ۔ ملک سے باہر ممالک میں گھر اور بینک بیلنس نہیں بنتے ہیں ۔
مشتاق احمد یوسفی نے کیاخو ب کہا ہے '' میرا خیال ہے کہ حالت حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈ پر یشر اورگالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دار ہے '' مزے کی بات یہ ہے کہ ان حضرات کا یہ کہنا یہ سب ہمارے آبائو اجداد اور بزرگوں کی چھوڑی ہوئی نشانیاں ہیں ۔معاف کیجیے گا جناب عالیٰ یہ راگ بہت پرانا ہے جو ہم ہر راشی اور کرپٹ سے برسوں سے سنتے آرہے ہیں ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انگریزوں نے جائیدادیں ،سر اور خان بہادر کے خطابات اپنوں کی مخبری پر، ان کی خوشامد،خدمات اور جی حضوری پر خیرات میں بانٹی تھیں اور رہی بات نو دولتیوں کی تو ان کے کرتوت اور حرکات پر تو بات کرنا ہی شرم ناک ہے۔
اس ساری صورتحال کو بغور دیکھنے والے اور اس پر غورو فکر کرنے والے اگر اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھتے ہیں تو اس پر حیران و پریشان ہونے کی کیابات ہے، لہذا جو حضرات اس کے باوجود ابھی تک اپنا ذہنی توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان کا شعور اور ضمیر ابھی تک زندہ ہے تو وہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتے رہیں ۔ ہماری دعا ہے خدا باقیوں کو اپنی امان و حفاظت میں رکھے ذہنی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی ۔