امریکا اور یورپ کی نئی حکمت عملی

مشرقِ وسطیٰ میں بھی ماضی میں ہونے والے ملٹری آپریشن کے دوران امریکی اور نیٹو افواج کو روس کی رکاوٹوں کا سامنا رہا

(فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ روس کا ایران سے بیلسٹک میزائل حاصل کرنا اور ان میزائلوں کو یوکرین کے خلاف استعمال کرنا یورپی یونین کے لیے سخت خطرے کی گھنٹی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران پر نئی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے اس پر روس کو بیلسٹک میزائل بھیجنے کا پہلی بار باضابطہ الزام لگایا ہے۔ ایران نے ان الزامات کو جھوٹی اور گمراہ کن خبروں پر مبنی ''بدصورت پروپیگنڈہ'' قرار دیا۔

موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں ایران، چین، روس کے محاذ نے امریکا کو چیلنج کردیا ہے۔ ٹرمپ اور بائیڈن کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟ JCPOA کی پابندیوں سے قطع نظر، ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو بڑے پیمانے پر آگے بڑھایا ہے۔

امریکا اور یورپی یونین کا یوکرین کو نیٹو کا حصہ بنانے کا مقصد روس اور چین کو نیچا دکھانا تھا جو روس کے لیے ناقابلِ قبول تھا، روس نے یوکرین کو نیٹو میں شمولیت سے باز رکھنے کے لیے متعدد اقدامات کیے، افغانستان سے نیٹو کے انخلا کے بعد ایشیائی خطے پرگرفت مضبوط رکھنے کے لیے دنیا کی موجودہ سپر طاقت امریکا اور یورپی ممالک کے لیے یوکرین کو فوری طور پر نیٹو میں شامل کرنا مجبوری بن چکا تھا۔ دوسری اہم بات یہ کہ دنیا کے دیگر اہم ممالک کا چین اور روس کی طرف جھکاؤ امریکا اور یورپی ممالک کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔

مشرقِ وسطیٰ میں بھی ماضی میں ہونے والے ملٹری آپریشن کے دوران امریکی اور نیٹو افواج کو روس کی رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ اس دوران امریکا سمیت یورپی ممالک میں ہونے والے انتخابات میں روسی مداخلت کے چرچوں کے بعد اُن ممالک تشویش پائی جاتی ہے ۔ درحقیقت پچھلے سو برس کے دوران یورپی ممالک خصوصا برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اپنی نوآبادیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ایران کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق ایران کی افزودہ یورینیم اب جوہری معاہدے سے 30 گنا زیادہ ہے۔ اس وقت، ایران نے مزاحمتی محورگروپوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرکے بیرونی دباؤ کا جواب دیا ہے، حالیہ دہائیوں میں اسرائیل سب سے طویل اور خطرناک ترین جنگ میں ملوث ہوا ہے، جس سے بحیرہ احمر سے بحری جہازوں کی آمدورفت میں تقریباً 70 فیصد کمی آئی ہے اور ایران نے عراق اور شام کو اپنے اتحادی ممالک بنا لیا ہے۔

دوسری جانب مغربی میڈیا کے برسوں کے پروپیگنڈے اس بات کا سبب بنے کہ عالمی رائے عامہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ایران کے غیر سویلین ایٹمی پروگرام کے پھیلاؤ اور ممکنہ طور پر اس ملک کی ایٹمی اسلحہ جاتی سرگرمیوں کی وجہ سے اس پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اگرچہ ان برسوں میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی کی متعدد رپورٹوں میں یہ دکھا گیا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے لیکن مغرب خاص طور پر امریکا کی پابندیوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کا ایٹمی مسئلہ، اگرچہ اس کے خلاف پابندیوں کا ایک سبب رہا ہے لیکن وہ اصل اور بنیادی وجہ نہیں ہے۔

امریکا کی مسلسل غلطیوں اور ایران، چین، روس کی طرف سے نئے اور طاقتور اتحاد کی وجہ سے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ کے تزویری خطے میں امریکا کا اثر و رسوخ تیزی سے زوال پذیر ہوچکا ہے۔ '' نیوز ویک'' کی رپورٹ کے مطابق روس اس وقت لیبیا، یمن اور مصر میں اپنی موجودگی کو تقویت پہنچانے میں مصروف ہے۔ روس ایسے علاقے میں پلٹ کر آنے کے لیے کوشاں ہے جو عرصہ دراز سے امریکا کے زیر تسلط رہا ہے۔


واشنگٹن پوسٹ کے تجزیہ نگار نے ایران کے بارے میں امریکا کے موجودہ رویہ پر تنقید کرتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بھڑکنے کو روکنے کے لیے تہران کے حوالے سے بہتر حکمت عملی بنائیں۔ CNN ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے پروڈیوسر اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جو ڈیموکریٹس کے قریب ہیں، نے لکھا کہ ایران اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ خطے میں واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنانے کا فائدے سے زیادہ نقصان ہے اور یہ نئی حقیقت کسی بھی چیز سے زیادہ ایک عنصر کی وجہ سے ہے، تہران کے بارے میں واشنگٹن کی کسی بھی مربوط پالیسی کا خاتمہ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں JCPOA سے امریکا کے انخلاء کے بعد سے، ایران کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسی '' زیادہ سے زیادہ دباؤ'' کی رہی ہے۔ ایران کے خلاف پابندیوں کی تعداد باراک اوباما کے دور میں 370 کیسز سے بڑھ کر ٹرمپ انتظامیہ میں 1500 سے زائد کیسز تک پہنچ گئی تھی، جس سے ایران دنیا میں پابندیوں والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ جوہری معاہدے کے دوسرے دستخط کنندگان کی مخالفت کے باوجود، امریکا نے تہران کے ساتھ مزید کاروبار کرنے سے مؤثر طریقے سے روکنے کے لیے ثانوی پابندیوں کا استعمال کیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھی بڑے پیمانے پر ٹرمپ کی پالیسی کو کچھ تبدیلیوں اور چھوٹ کے ساتھ جاری رکھا ہے۔ ایران کا ایٹمی معاملہ پہلی بار 2003 اور اس کے بعد سرخیوں میں آیا۔

2003ء کے بعد ایران پر لگائی گئی پابندیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ پابندیوں کا اصل سبب ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر 13224، جو 2001 میں منظور ہوا اور ایران کے بہت سے افراد اور ادارے 2007تک اس کی زد میں آ گئے، دہشت گردی کی مالی اعانت سے مقابلے کے نام پر نافذ کیا گیا تھا۔ یہ پابندی 2006 میں دو اہم واقعات کے رونما ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد لگا دی گئی۔ پہلا واقعہ تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی شکست تھی جس میں وہ لبنان کی سرحد میں گھس گئی تھی اور اس نے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ لبنانیوں کو شہید کر دیا تھا۔ دوسرا واقعہ فلسطین کے پارلیمانی انتخابات میں حماس کی فتح تھی۔ یہ الیکشن صیہونی حکومت اور امریکا نیز فلسطین کے اندر موجود غداروں کی سازشوں کی وجہ سے بے نتیجہ رہ گئے اور بڑے پیمانے پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد حماس تنظیم، غاصب صیہونی فوجیوں کو غزہ سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

ایک دوسرا آرڈر، ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13382 تھا جو 2005ء میں جاری ہوا اور اس کا ہدف عام تباہی کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا تھا اور اس پابندی کا بنیادی ٹارگٹ ایران تھا۔ اس پابندی کے متن اور نتیجے کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی فوجی اور میزائل صنعت، اس پابندی کا اصل ہدف تھی۔رچرڈ نیفیو نے اپنی کتاب ''The Art of Sanctions'' میں لکھا ہے کہ ایرانی عوام کے خلاف پابندیاں اور دباؤ اس بات کا سبب بنیں گے کہ حکمران طبقہ عوام کے دباؤ کے تحت اپنے رویے کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ مغربی سیاستدانوں کے درمیان حکمران طبقے کے رویے میں تبدیلی کی اصطلاح سے مراد ایران کی جانب سے مزاحمتی محاذ کی مدد بند کرنا اور خطے میں ان کی ثقافتی اور معاشی پالیسیوں کے سامنے سر جھکا دینا ہے۔

اسلامی جمہوری نظام، اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی سامراج، غاصبانہ قبضے اور آمریت کے ظلم کا شکار پوری دنیا کی تمام حریت پسند تحریکوں کی مدد کا خود کو پابند سمجھتا رہا ہے اور اب بھی سمجھتا ہے۔ غاصب صیہونی دشمن سے لڑنے کے لیے لبنانی مجاہدین کی ٹریننگ کے لیے سپاہ پاسداران کے مشیروں کی موجودگی، اپارتھائیڈ حکومت کو تیل کی برآمد روک کر جنوبی افریقا کے لوگوں کی تحریک آزادی کی حمایت، انیس سو نوے کے عشرے میں بوسنیا کے مظلوم مسلمان مجاہدین کی مدد کے لیے ایرانی جوانوں اور مشیروں کی موجودگی، عراق اور شام میں داعش سے لڑائی میں ایرانی مشیروں اور مجاہدین کی موجودگی اور سب سے زیادہ اہم اور بنیادی چیز اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن سے لے کر اب تک فلسطینی کاز کی حمایت، وہ اہم رویہ ہے جسے کنٹرول کرنے کے لیے پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ اکتوبر 2023 میں FATF کی نشست میں اور طوفان الاقصی آپریشن کے بعد ایران سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسلح مزاحمتی گروہوں کی مالی اعانت، جو وہ اپنے آئین کی دفعہ 154 کے تحت کرتا ہے، بند کر دے۔ دراصل پابندیوں کا ہدف ایران کو دباؤ میں لانا ہے، وہ ایران کو پابندیوں کے ذریعے مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان کی استعماری اور سامراجی پالیسیوں پر چلے، ان کی زور زبردستی کے مطالبات کے سامنے جھک جائے اور ان کی زور زبردستی کی توقعات پوری کرے، اپنی پالیسیوں کو ان کی پالیسیوں کا تابع بنا دے۔ مغربی ممالک کو منطقی اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے بحران سے نمٹنا چاہیے۔ انھیں جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کی بجائے امن کے لیے کام کرنا چاہیے جس کے اثرات میدان جنگ سے کہیں زیادہ خود یورپی ممالک اور وہاں کی برادریوں تک پھیل رہے ہیں جس سے شہریوں کے تحفظ اور سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
Load Next Story