حکومتی بے حسی کب تک
لاہور کے پی ٹی آئی رہنما احمد اویس نے الزام لگایا کہ آئی پی پیز میں 28 فیصد شیئرز خود شریف فیملی کے ہیں
ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہے جس کا عام آدمی کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکمران اور ان کے وزرا جس طرح عام آدمی کے مسائل سے صرف نظر کرتے ہیں تو ان سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔
حکومت کہتی ہے کہ ہمارے پاس اختیار نہیں کسی اورکے پاس ہے۔ ایک اور تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ کچھ چیزیں آپ کو بھگتنا پڑتی ہیں، اسی کو شاید مکافات عمل کہتے ہیں، ماضی کا ریکارڈ تو یہی ہے کہ تاجر اپنے مطالبات منوا لیتے ہیں یہ پیچھے نہیں ہٹا کرتے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ امیر لوگ ٹیکس ہی نہیں دیتے، حکومت بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی، جب تک یہ سب ٹیکس نیٹ میں نہیں آئیں گے اور اسی لیے ان سے مذاکرات کیے جائیں گے اور انھیں ٹیکس نیٹ میں آنا پڑے گا۔ انھوں نے حکومتی الللوں تللوں کے متعلق کہا کہ ہمیں بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے سب کو قربانی دینی پڑے گی۔
جس دن ملک میں مہنگی بجلی اور حکومتی ٹیکسوں کی جبری وصولی کے خلاف تاجروں نے ہڑتال کی اسی روز لاہور کے علاقے شاہدرہ میں غربت کے ستائے ایک شخص نے اپنی بیوی، پانچ بچوں کو زہر دے دیا مگر پولیس کے فوری رسپانس نے سات قیمتی جانیں ضایع ہونے سے بچا لیں جس پر پولیس کے ذمے داروں کو تعریفی اسناد ضرور دیں مگر اشرافیہ نے اس چیز کا قطعی خیال نہیں کیا کہ زہر کھا کر جان دینے والوں کے گھر راشن پہنچایا جائے۔ متاثرہ فیملی کے سربراہ نے کسی امید پر ہی پولیس کو فون کیا کہ میرے گھر میں اناج کا دانہ نہیں اس لیے اپنے بچوں کو بھوک سے مرتا نہیں دیکھ سکتا اس لیے سب زہر کھا رہے ہیں تاکہ زندگی سے نجات پا سکیں۔
ہمارے اوپر تو مالک مکان کا سات ماہ کا کرایہ بھی چڑھ چکا ہے بھوکے مر رہے ہیں۔ بروقت اسپتال پہنچا کر سات افراد کو پولیس نے بچا لیا ورنہ ملک میں بھوک و افلاس، غربت اور بجلی کے مہنگے بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث جو خودکشیاں ہو رہی ہیں ان میں بیک وقت سات افراد کی ہلاکت کا ریکارڈ ضرور بن جاتا مگر صوبائی حکومت پرکیا اثر پڑنا تھا، جن پر لاہور کے پی ٹی آئی رہنما احمد اویس نے الزام لگایا کہ آئی پی پیز میں 28 فیصد شیئرز خود شریف فیملی کے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں 55 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما کو یہ باتیں بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ پونے چار سالہ پی ٹی آئی کی وفاقی اور پنجاب و کے پی کی حکومتوں میں غربت کس سطح پر تھی کیا اس وقت لوگ جانوروں جیسی زندگی نہیں گزار رہے تھے اور پی ٹی آئی کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے وزیر اعظم نے ملک میں غربت ختم کی تھی یا بڑھائی تھی۔ پونے چار سالوں میں پی ٹی آئی حکومتوں میں جو تباہی ہوئی، ملک میں غربت کیوں بڑھی تھی۔
موجودہ حکمران تو ملک کی موجودہ بدترین صورت حال کا ذمے دار پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو قرار دیتے ہیں کہ جن کے دور میں حکمران طبقے کی کرپشن بھی سامنے آئی،اس دور میں غریبوں کے لیے کیا کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ختم ہوئے سوا دو سال سے زیادہ ہوگئے مگر اب بھی ذمے داری سابق حکمرانوں پر ہی ڈالی جا رہی ہے اور بعد کی حکومتوں نے سوا دو سال میں ملک کے غریبوں کی بہتری کے لیے کون سے اقدامات کیے؟
سوا دو سال بھی کم نہیں ہوتے اگر پاکستان کے حکمرانوں میں بھی کوئی دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال جیسا عوام سے مخلص، ہمدرد اور سادگی سے حکمرانی کرنے والا ہوتا تو ملک میں غربت ختم نہیں تو کم ہی کی جاسکتی تھی۔ وزیر اعلیٰ کیجریوال نے تو سو دن میں اپنے وعدوں پر عمل کرکے دکھا دیا تھا اور عوام کو سہولتیں دی تھیں جس کے نتیجے میں ان کی پارٹی کو عوام نے دہلی کے بعد بھارتی پنجاب کی حکمرانی کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ دیے تھے۔
موجودہ حکومت صرف اس پر خوش ہے کہ عالمی ادارے موڈیز نے سوا دو سال بعد پاکستان کی ریٹنگ بہتر کردی ہے اور حکومت کی معاشی پالیسیاں درست ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ملک کی معیشت میں اگر بہتری آئی ہے تو ملک کے غریبوں کی حالت میں تو کوئی بہتری نظر نہیں آئی بلکہ مزید بدتر ہوئی ہے۔ حکومت خود ملک میں مہنگائی بڑھا رہی ہے۔ ملک بھر میں بجلی مہنگی ہونے پر احتجاج ہو رہا ہے مگر بے حس حکومت باز نہیں آ رہی اور مسلسل بجلی مزید مہنگی کر رہی ہے اور وزرا عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں کہ آئے دن مہنگی ہونے والی بجلی آیندہ مہینوں میں سستی ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم نے بجلی کے سلسلے میں جس خوشخبری کا اعلان کیا تھا وہ تین ہفتے میں بھی نہیں ملی بلکہ اگست میں ملک بھر میں بجلی مہنگی کی گئی جسے فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام دیا جاتا ہے جس کے تحت اگست میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی 1.89 روپے فی یونٹ مہنگی اور ماہانہ ایڈجسٹمنٹ میں بجلی صرف 31 پیسے سستی کی گئی ہے۔
سوا دو سال کی موجودہ حکومت کی بے حسی کی انتہا ہے کہ حکومت سادگی اختیار کر رہی ہے نہ اپنے اخراجات کم کر رہی ہے اور بعض سرکاری ادارے ختم یا ضم کرنے کے دعوے ہی سننے میں آ رہے ہیں جس سے بے روزگاری بڑھے گی اور ایسا پیپلز پارٹی نہیں ہونے دے گی۔ دونوں حکمران پارٹیوں میں اگر عوام کا احساس ہوتا تو صدر اور وزیر اعظم ہاؤسز کے اخراجات نہ بڑھتے بلکہ سادگی اختیار کرکے کم کیے جاسکتے تھے مگر اصل بات احساس کی ہے جو سابق حکومت کی طرح موجودہ حکومت میں بھی نہیں کیا جا رہا اور حکومتی بے حسی کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی صرف دعوے ہو رہے ہیں۔