ترقی کا الٹا سفر دوسرا اور آخری حصہ
ایک حیرت انگیز چیز پر آپ نے غور نہیں کیا ہوگا کہ قدرت کی تمام پیداواروں میں گولائی ہوتی ہے
بتانا یہ ہے کہ جب خود کائنات ہی بیج اوردرخت کی طرح دائرے میں چل رہی ہے تو اس کا سب کچھ اسی بنیاد پر دائروی اصول کے مطابق چل رہا ہے چنانچہ اس کائنات میں نہ تو کہیں ابتداہے اورنہ ہی انتہا ، بلکہ یوں کہیے کہ ابتدا ہی انتہا ہے اورانتہا ہی ابتدا ہے جو چیز جہاں سے چلتی ہے ، دائروی سفر کر کے وہی پر پہنچ جاتی ہے ، دائرے کی جہاں ابتدا ہوتی ہے وہیں پر انتہا بھی ہوتی ہے اس سلسلے میں غالب کابے مثل شعر ہے
نظر میں ہے ہماری جادہ راہ فناغالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
غورکیجیے تو کائنات میں فنا نام کی کوئی چیز بھی نہیں ہے جسے ہم فنا کہتے ہیں اورسمجھتے ہیں وہیں سے شیرازہ بندی ہوکر ابتدا ہوجاتی ہے جیسے پانی کاقطرہ بیج کادانہ یابگ بینگ کاذرہ انتشار کے بعد ارتکاز کی صورت میں وہیں سے پھر ایک نئے دائرے کی ابتداء ہوتی ہے یا دائرے کانیاسفر شروع ہوجاتا ہے ، بیج پر آپ نے غور کیا ہے ایک بہت ہی چھوٹا سا دانہ ، لیکن اس میں پورے درخت کی پروگرامنگ ہوتی ہے جو دانے سے چل کر پھر دانے میں مرتکز ہوجاتا ہے ۔
ایک حیرت انگیز چیز پر آپ نے غور نہیں کیا ہوگا کہ قدرت کی تمام پیداواروں میں گولائی ہوتی ہے سورج چاند ستارے سیارے کہکشائیں ، ،پانی کے قطرے ہمہ اقسام کی بیجوں اوردرختوں پتوں پھولوں بیج سب میں گولائی ہوتی ہے اگر کچھ صورتوں میں لمبوترا پن دکھائی دیتا ہے تو ان میں بھی ایک گولائی سی ضرور ہوتی ہے۔
گوشہ دار لمبی اورعمودی چیزیں صرف انسان بناتا ہے ، مربع مستطیل اورتکون یا نوک دار چیزیں کارخانہ قدرت میں نہیں ہوتیں کیونکہ یہ کائنات خود گول ہے اوراس کی ہرچیز گولائی میں یادائروی ہوتی ہے ، کہا جاتا ہے کہ اس کائنات کافاصلہ یا وسعت پندرہ کھرب نوری سال ہے اوریہ فاصلہ بھی عمودی نہیں دائروی ہے یعنی جہاں سے دائرے کی ابتداہوتی ہے آخر کار وہیں پر انتہا بھی ہوجاتی ہے جو پھر ابتدا ہوتی ہے لیکن اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ گولائی اوردائروی بحث میں نے محض بحث برائے بحث کے لیے شروع کی ہے تو آپ ہمیشہ کی طرح غلطی پر ہیں یہ بحث میں نے اس گولائی کو واضح کرنے کے لیے چھیڑی ہے جس میں انسان نے روزاول سے لے کر آج تک کادائروی سفر کیا ہے اوراپنے زعم میں اس نے بے انتہا ترقی کرلی ہے جب کہ حقیقت میں انسان ایک مرتبہ پھر اسی مقام پر پہنچاہے جہاں سے چلاتھا یا اس نے حیوانی منزل سے انسانی منزل میں قدم رکھا تھا گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ
لے آئی ہے کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
یایوں کہیے کہ ۔۔۔ جہاں ابتدا ہوئی تھی وہیں ختم ہے فسانہ
انسان جب حیوان کے زمرے سے نکل کر بشر کے زمرے میں آیا تو اس کی ساری دوڑ دھوپ پیٹ تک محدود تھی اورصرف ایک فرد تھا جہاں تک کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اولاد پیدا کرتے ہیں مرد کا بھی کوئیحصہ ہوتا ہے اوروہ اسے خالص عورت کاکارنامہ سمجھتا تھا چنانچہ وہ عورت کی برتری کا زمانہ کہلاتا ہے ۔
پھر جب یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی تو اس فرد کے زمرے سے نکل کر خاندان کی بنیاد ڈال دی، خاندان بڑھے تو قبیلے وجود میں آگئے ، قبیلوں سے پھر اتحادیے یاجرگے یاکئی قبیلوںپر مشتمل یونین بننے لگے ، کسی مشترکہ دشمن کے خلاف یاکسی خاص مشترکہ مفاد کے لیے اکٹھے ہونے والے ان گروہوں ہی سے پھر بادشاہت قوموں اورملکوں کاسلسلہ شروع ہوگیا جس کے آگے آج گلوبل ویلج کامرحلہ ہے ۔
اس طویل عرصے میں کیا کیا نظرئیے عقیدے اورفلسفے وضع کیے گئے ، مذہبی اورطبیعاتی اخلاقیات وضع ہوئے، قوانین بنے دساتیر، رائج ہوئیں ایجادات واختراعات ہوئیں اورانسان نے اپنے زعم میں بے پناہ ترقی کی یہاںتک کہ
عروج آدم خاکی سے انجم لرزے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے
غار سے گھر، گھر سے بستی بڑے بڑے شہر فلک بوس عمارتیں لیکن اس تمام تر ترقی کے باوجود انسان ایک مرتبہ پھر تنہا ہوچکا ہے ، فرد اورنفسی نفسی اورصرف اپنی ذات کی حد تک پہنچ چکا ہے ۔ ملک،وطن، قوم اور قبیلے ختم ہوچکے ہیں اوراب آخری یعنی خاندان کو بھی ختم کرکے فرد تک محدود ہوچکا ہے ، جتنا جتناجسمانی طورپر ایک دوسرے کے قریب بلکہ ذہنی طور پر دور ہوتا جا رہا ہے جو لباس بڑی محنت سے اس نے ایجاد کیے تھے انھیں پھینک رہا ہے ، بال بڑھا رہا ہے گویاجتنی بڑی آبادی اتنی زیادہ تنہائی ، جتنا مالامال اتنا ہی مفلس ، یہاں تک کہ وہ تمام رشتے بھی توڑ چکا ہے جو اس نے بنائے تھے جتنامحفوظ اتنا ہی غیر محفوظ
ہرطرف ہرجگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا
اتنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
مطلب یہ کہ جہاں سے چلاتھا پھروہی یہ پہنچاتھا تمام ترقیوں کو بھول کر ایک مرتبہ پھر صرف ایک پیٹ ایک خرد اورایک جسم وہ بھی پہلے سے زیادہ غیر محفوظ اورغیریقینی۔بڑے شہروں اورملکوں میں تو انسانوں کے درمیان صرف ہائے ہائے یا ہاتھ اٹھانے کارشتہ رہ گیا ہے ؎
آئینے کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی تنہا ہیں سو میں بھی اکیلے ہیں