ٹیکس دہنگان کے گرد پھندا مزید تنگ کرنے کی تیاری

حکومتی ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے ان نئے سخت قانونی اقدامات کو یکم اکتوبر سے نافذ کرنے کی تجویز دی ہے

(فوٹو: فائل)

آئی ایم ایف کے ساتھ مسائل کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کا اعلان کرنے والی حکومت نے تاجروں کے خلاف پسپائی اختیار کرنے کے بعد موجودہ ٹیکس دہندگان کی گردنوں کے گرد پھندا مزید تنگ کرنے کے لیے تیاری کرلی۔

 

حکومت نے انکم ٹیکس ریٹرن کے موجودہ فائلرز کے لیے اثاثے خریدنے سے حق سے انکار کرنے کے لیے قانونی ترامیم تیار کرلی ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوگا کہ اگر ان کا اعلان کردہ نقد بیلنس اور آمدنی نئے اثاثوں کی لاگت سے کم ہوگی۔

تجزیہ کے بعد معلوم ہوا کہ 60 لاکھ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں میں سے بمشکل 45 ہزار پاکستانی 10 ملین روپے سے زائد کی سالانہ آمدنی ظاہر کر رہے تھے۔ ٹیکس حکام نے کہا ہے کہ حکومت کا خیال ہے کہ موجودہ تقریباً 60 لاکھ فائلرز میں سے زیادہ تر نے ایف بی آر کے پاس جمع کرائے گئے سالانہ گوشواروں میں اپنے اثاثوں اور آمدنیوں کو کم ظاہر کیا ہے۔

یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان لوگوں اور فرموں کو جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں ہیں کو مزید ریونیو کے لیے ٹارگٹ کیا جائے گا۔ اس کے لیے یا تو صدارتی آرڈیننس جاری کر کے یا قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جائے گا۔ حکومت کا نان فائلرز کی جانب سے اثاثوں کی خریداری پر زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ ٹیکس کی تنگ بنیاد اور فائلرز کی جانب سے کم ٹیکس دینے کی وجہ سے ہے۔


فائلرز کو بینکوں سے اپنا کیش بیلنس نکالنے سے بھی اس صورت میں روکا جا سکتا اگر ان کی مجموعی نقد رقم ان کے ٹیکس گوشواروں میں دکھائی گئی رقم سے کم ہوگی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے ان نئے سخت قانونی اقدامات کو یکم اکتوبر سے نافذ کرنے کی تجویز دی ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ ایف بی آر موجودہ ٹیکس دہندگان کی معلومات تک سرکاری محکموں اور کمرشل بینکوں تک رسائی دے گا تاکہ وہ ان اثاثوں کی خریداری کے حق سے انکار کر سکیں۔

پاکستان کے صنعت کاروں نے پہلے ہی بیرون ملک اپنے کاروبار شروع کر دیے ہیں اور لوگ بھاری ٹیکسوں سے دور رہنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ اس صورت حال نے تنخواہ دار اور کاروباری افراد کی کمر توڑ دی ہے۔ تنخواہ دار افراد اپنی مجموعی تنخواہ کا 39فیصد تک ٹیکس ادا کرتے ہیں اور کاروباری افراد کے لیے یہ تناسب ان کی خالص آمدنی کا تقریباً 50 فیصد تک ہے۔

ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو میوچل فنڈز اور سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے حق سے انکار کرنے کی تجویز بھی دے رہی ہے۔ ایک اور تجویز کے مطابق نان فائلرز کو جائیداد خریدنے کے حق سے بھی محروم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت مضبوط لابیوں کے دباؤ کے باعث اس سفارش پر عمل درآمد کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں تقریباً 20 لاکھ وفاقی، صوبائی اور سرکاری اداروں کے ملازمین کے انکم ٹیکس گوشوارے پہلے سے جمع کیے جائیں گے جس کا مقصد انہیں اپنے واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ ایف بی آر ان کاروباری افراد کا پیچھا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو پہلے سے فائلرز ہیں لیکن مفروضے کے مطابق وہ واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں۔

فائلر کاروباری افراد کی تعداد 3.7 ملین ہے اور ان میں سے 2.4 ملین نے گزشتہ سال انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ صرف 20ہزار نے سالانہ آمدنی 10 ملین روپے سے زیادہ ظاہر کی ۔ دیگر 9 لاکھ 21ہزار نے سالانہ آمدنی 10 ملین روپے سے کم ظاہر کی۔ ایف بی آر حکام کے مطابق 20 لاکھ تنخواہ دار طبقے کے فائلرز میں سے تقریباً 6 لاکھ 30ہزار سالانہ 6 لاکھ آمدنی کی حد سے نیچے تھے ۔
Load Next Story