سابق حکومت کی نااہلی سے دیامیربھاشا ڈیم کی لاگت 479 سے بڑھکر 1400 ارب جاپہنچی احسن اقبال

منصوبے میں تساہل اور غیر ضروری التوا کی وجہ سے اس کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا، وزیر منصوبہ بندی


ویب ڈیسک September 13, 2024
(فوٹو: اسکرین گریب)

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ سابق حکومت کی نااہلی کے سبب دیامیر بھاشا ڈیم منصوبے کی لاگت 479 سے بڑھ کر 1400 ارب تک جا پہنچی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت دیامیر بھاشا ڈیم منصوبے کی پیش رفت کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں سیکرٹری منصوبہ بندی، چیئرمین واپڈا اور متعلقہ ادروں کے اعلی افسران نے شرکت کی۔

احسن اقبال نے کہا کہ دیا میر بھاشا ڈیم پاکستان کی آبی اور خواراک کی سیکیورٹی کے لیے کلیدی منصوبہ ہے ، 2018ء تک دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیری لاگت کا تخمینہ 479 ارب روپے تھا، 2018 تک زمین کی خریداری پہ 120 ارب روپے خرچ کئے جا چکے تھے، منصوبے میں تساہل اور غیر ضروری التوا کی وجہ سے اس کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا۔

انہوں ںے کہا کہ دسمبر 2020ء میں فناسنگ حاصل کیے بغیر جلد بازی میں تعمیر شروع کر دی گئی، گزشتہ دور میں اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے اجلاس کے دوران بتایا جاتا تھا کہ منصوبے کی لاگت 600 ارب ہو چکی، ایک اور موقع پر بتایا گیا کہ اب 750 ارب ہو چکی، آج تک کاغذوں میں 480 ارب کا تخمینہ ظاہر کیا جا رہا ہے، دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیری لاگت میں اس ہوش ربا اضافے کی ذمہ داری سابقہ نااہل حکومت پر عائد ہوتی ہے، فنڈنگ کی کمی اور التواء سے اس منصوبے کی لاگت 479 سے بڑھ کر 1400 ارب تک جا پہنچی۔

احسن اقبال نے کہا کہ سابق حکومت کی نااہلی کا خمیازہ ہر شعبہ میں بھگت رہے ہیں، افسوس کا مقام ہے کہ اج بھی اس منصوبے کا فائنانسنگ پلان مکمل نہیں، ڈیم اور بجلی کے منصوبوں کو علیحدہ کیا جائے، بجلی منصوبے کی فنانسنگ نجی اداروں سے کروائیں،
6 سال گزرنے کے باوجود منصوبے کا نظر ثانی شدہ پی سی ون تک نہیں بن سکا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں نے گزشتہ دور میں اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں تجویز پیش کی کہ جس منصوبے کا پی سی ون دو سال پرانا ہو جائے اس پر کام نہ شروع کیا جائے، مستقبل پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا ہے، دیا میر بھاشا ڈیم سے 6.4 ملین ایکٹر فٹ پانی کا ذخیرہ فراہم ہو گا ، بادشاہ ڈیم منصوبے کی تعمیر میں پاکستانی یونیورسٹیوں، انجینیئرنگ اور ہائڈرولوجی کے طلبہ و طالبات کو شامل کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں