مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن سے جواب طلب
مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل کے لیے دائر درخواست پر عدالت نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن سے جواب طلب کرلیا
شہری منیر احمد کی ایڈووکیٹ اظہر صدیق کی وساطت سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کی سماعت جسٹس راحیل کامران شیخ نے کی۔ دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ترمیمی ایکٹ غیر آئینی ہوگیا تو بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگا۔
جسٹس راحیل کامران شیخ نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن 15 دنوں میں جواب جمع نہیں کرواتے تو میں آپ کا حق دفاع ختم کروا دوں گا۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی میٹنگ جاری ہے، اٹارنی جنرل وہاں مصروف ہیں، سپریم کورٹ میں بیرسٹر گوہر کی جانب سے پہلے ہی درخواست دائر کی جا چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی جو کہ اس کیس میں اصل فریق ہے اس نے درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی ہے۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ کیس کیسے قابل سماعت ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ایسی درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اگر سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی ہے تو اس کا کوئی نمبر ہوگا، کوئی نوٹس جاری ہوئے ہوں گے؟ گزشتہ سماعت پر عدالت نے آرڈر کیا تھا کہ اٹارنی جنرل بذات خود میں پیش ہوں۔ سپریم کورٹ بارہا کہہ چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 ( 3) کے تحت براہ راست درخواست دائر نہیں ہو سکتی۔
جسٹس راحیل کامران نے استفسار کیا کہ نیب ایکٹ کی شقیں سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئی ہیں، تو پھر وہ کیسے چیلنج ہو سکتی ہے ؟، جس پر وکیل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد ایسی درخواستیں دائر نہیں ہوئیں۔ نیب ایکٹ کے خلاف درخواست پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے پہلے دائر ہوئی تھی۔ 90 دن میں الیکشن نہیں ہو رہے تھے تو ہم نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ سپریم کورٹ میں ایسی درخواست گئی تو سپریم کورٹ نے کہا کہ پہلے ہائیکورٹ اس کیس کو دیکھے۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ قانون کے مطابق تو یہ کیس کہیں بھی دائر ہو سکتا ہے ؟۔ استدعا کا دوسرا حصہ پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے حوالے سے ہے، اس میں پی ٹی آئی کو فوقیت دی جائے گی۔
بعد ازاں عدالت نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے دائر درخواست پر وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن سے 27 ستمبر کو جواب طلب کر لیا ۔