آج سکستھ وار میں علاقے نہیں چھینے جاتے بلکہ معاشی حملے کیے جاتے ہیں اسپیکر پنجاب اسمبلی
ہماری قوم بہت بڑے چیلنجز سے نبرد آزما رہی ہے، عدالتوں میں سیاست ہوئی تو اس کے اثرات ہم تک بھی پہنچے، ملک احمد خان
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما ملک احمد خان نے سوشل میڈیا پر ہونے والے پروپیگنڈے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے دور میں علاقے نہیں چھینے جاتے بلکہ سکستھ وار کے ذریعے معاشی حملے کیے جاتے ہیں۔
لاہور کے مقامی ہوٹل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے کہا کہ آج کے انفارمیشن سسٹم میں بڑی تبدیلی آئی ہے، آج کے نوجوان ایک سورس بھی ہیں اور چیلنج بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، آج کے دور میں علاقے نہیں چھینے جاتے بلکہ سسکتھ وار میں معاشی حملے کیے جاتے ہیں، بڑی جفاکش اور ڈسپلن جنگ لڑ رہے ہیں، شاید اس جرم میں ہم بھی شریک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جن سماجی ویب سائٹس سے دنیا نے ترقی کی ہے، اس سے ہم پر حملے ہوئے، آئی ٹی کے شعبے میں دنیا نے بڑی ترقی کی لیکن ہماری آئی ٹی ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ منفی رویہ کیوں۔
ملک احمد خان نے کہا کہ یہ ایک دن کی کہانی نہیں ہے، یہ مسئلہ پہلے بھی درپیش رہا اور یہ منفی پروپیگنڈہ میرے گھر میں گھسا، یہ منفی رویہ ہمیں نوجوانوں کے جواب کی اجازت نہیں دیتا، بڑا مشکل ہے کہ کسی نوجوان کو شکست دیں کیونکہ وہ اپنی بات منوانے کے لیے بضد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری قوم بہت بڑے چیلنجز سے نبرد آزما رہی ہے، عدالتوں میں سیاست ہوئی تو اس کے اثرات ہم تک بھی پہنچے، پارلیمنٹ تو سیاست کی جگہ تھی اس کی سیاست سمجھ میں آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو فوج اپنے کارناموں پر زندہ ہوتی ہے، وہ اپنی اقدار پر فخر کرتی ہے اور وہی افواج اپنے ملک کی خدمت پر فخر کرتی ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ مغرب میں دیکھا کہ خصوصی عدالتوں سے خدمات لی گئیں، ایسا جرم جس کی نوعیت جنگی ہو، کسی ملک میں 29 چھاونیوں پر اکٹھا حملہ نہیں ہو سکتا، حملہ کرنے کی نوعیت ایک جیسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی پارٹی کی بات نہیں کر رہا، کیا یہ ایک سیاسی یا انتظامی مسئلہ ہے، کیا کسی ملک میں اپنے اثاثوں اور املاک کو نشانہ بنانا جرم نہیں، کیا عدالتوں نے اس کو ڈیفائن کیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ اسی سپریم کورٹ نے آئین کی شکل بگاڑ کر فیصلہ کر دیا، ایک جج اپنے طور پر مکمل جج ہے۔
اسپیکر صوبائی اسمبلی نے کہا کہ میں یہ سوال آپ پر چھوڑ رہا ہوں کہ فکری طور پر ہمیں کیا کرنا چاہییے، ہم بطور پاکستانی اپنے مسائل جو دہشت گردی سے جڑے ہیں، کیا ایک وزیر اعلیٰ ایسی اسٹیٹمنٹ دے سکتا ہے کہ میں خود کسی ملک سے رابطہ کرلوں گا۔
لاہور کے مقامی ہوٹل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے کہا کہ آج کے انفارمیشن سسٹم میں بڑی تبدیلی آئی ہے، آج کے نوجوان ایک سورس بھی ہیں اور چیلنج بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، آج کے دور میں علاقے نہیں چھینے جاتے بلکہ سسکتھ وار میں معاشی حملے کیے جاتے ہیں، بڑی جفاکش اور ڈسپلن جنگ لڑ رہے ہیں، شاید اس جرم میں ہم بھی شریک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جن سماجی ویب سائٹس سے دنیا نے ترقی کی ہے، اس سے ہم پر حملے ہوئے، آئی ٹی کے شعبے میں دنیا نے بڑی ترقی کی لیکن ہماری آئی ٹی ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ منفی رویہ کیوں۔
ملک احمد خان نے کہا کہ یہ ایک دن کی کہانی نہیں ہے، یہ مسئلہ پہلے بھی درپیش رہا اور یہ منفی پروپیگنڈہ میرے گھر میں گھسا، یہ منفی رویہ ہمیں نوجوانوں کے جواب کی اجازت نہیں دیتا، بڑا مشکل ہے کہ کسی نوجوان کو شکست دیں کیونکہ وہ اپنی بات منوانے کے لیے بضد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری قوم بہت بڑے چیلنجز سے نبرد آزما رہی ہے، عدالتوں میں سیاست ہوئی تو اس کے اثرات ہم تک بھی پہنچے، پارلیمنٹ تو سیاست کی جگہ تھی اس کی سیاست سمجھ میں آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو فوج اپنے کارناموں پر زندہ ہوتی ہے، وہ اپنی اقدار پر فخر کرتی ہے اور وہی افواج اپنے ملک کی خدمت پر فخر کرتی ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ مغرب میں دیکھا کہ خصوصی عدالتوں سے خدمات لی گئیں، ایسا جرم جس کی نوعیت جنگی ہو، کسی ملک میں 29 چھاونیوں پر اکٹھا حملہ نہیں ہو سکتا، حملہ کرنے کی نوعیت ایک جیسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی پارٹی کی بات نہیں کر رہا، کیا یہ ایک سیاسی یا انتظامی مسئلہ ہے، کیا کسی ملک میں اپنے اثاثوں اور املاک کو نشانہ بنانا جرم نہیں، کیا عدالتوں نے اس کو ڈیفائن کیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ اسی سپریم کورٹ نے آئین کی شکل بگاڑ کر فیصلہ کر دیا، ایک جج اپنے طور پر مکمل جج ہے۔
اسپیکر صوبائی اسمبلی نے کہا کہ میں یہ سوال آپ پر چھوڑ رہا ہوں کہ فکری طور پر ہمیں کیا کرنا چاہییے، ہم بطور پاکستانی اپنے مسائل جو دہشت گردی سے جڑے ہیں، کیا ایک وزیر اعلیٰ ایسی اسٹیٹمنٹ دے سکتا ہے کہ میں خود کسی ملک سے رابطہ کرلوں گا۔