ریاستی اداروں کو کمزور مت کیجیے
جس دم' قومی اسمبلی میں پولیس' تحریک انصاف کے منتخب نمایندوں کو گرفتار کر رہی تھی۔ ایم این اے اپنے طور پر گرفتاری سے بچنے کے لیے کوشش کر رہے تھے۔ اس وقت تو قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ایک عشائیہ میں شرکت شاید' ایوان کے تقدس سے بالاتر تھی۔ شاید اپوزیشن کے ان ''شرپسندوں'' کے کوئی آئینی' قانونی اور اخلاقی حقوق نہیں تھے۔ چنانچہ وہی ہوا' جو ماضی سے ہوتا آ رہا ہے۔
محض طاقت کے زور پر ایوان کا تقدس پامال کیا گیا۔ اس واقعہ کی عالمی سطح پر بھی کوریج ہوئی۔ پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے احتجاج کے بعد اسپیکر نے پروڈکشن آرڈرجاری کیے۔ مقید سیاست دان جیل سے باہر آ گئے۔ ویسے کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ جس وقت جمہوریت کے اس بلند و بالا ایوان کی بے حرمتی ہو رہی تھی۔ اس لمحہ میں اسپیکر کیوں خاموش تھے؟ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ یہ کام' ان کو وقت سے پہلے بتا کر کیا جا رہا تھا۔ انھوں نے مصلحت کا مظاہرہ کرتے ہوئے' ایوان کے تقدس کو بروقت یقینی نہیں بنایا اور خاموشی اختیار کر لی۔ وزیراعظم بھی مکمل طور پر خاموش رہے۔
کوئی مذمتی بیان نہیںدے پائے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں لا تعلق رہنے کا عندیہ دے دیا گیا تھا۔ بہر حال' یہ واقعہ صرف ابتدا ہے۔ آج ایک سیاسی جماعت نشانہ پر ہے۔ کل ' آج کے عمائدین' اس تیر کی زد میں ہوں گے۔ یہ وہ دروازہ ہے جو اب کھل چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں' مجھے ' اس ایوان میں ہر طرح کے حادثے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ کتاب کا ابتدائیہ ہے۔ آنے والا وقت' اپنے دامن میں ہر فریق کے لیے مزید چنگاریاں اور آگ لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ مگر ہمارے ادارے' سیاسی فریقین اور عدلیہ کے چند مخصوص لوگ' اپنے اپنے کھیل میں مصروف ہیں۔ ہر طرح افراتفری اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔ انجام کا سب کو علم ہے۔ مگر اس تلخ حقیقت کو بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے قائد' اپنے دور میں طاقت اور ریاستی اداروں کے بل بوتے پر ظلم روا رکھتے رہے ہیں۔ لہٰذا' موجودہ حالات میں ان کے وعظ فرمانے سے معروضی صورتحال تبدیل نہیں ہو گی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری کسی سیاسی جماعت کے خمیر میں جمہوریت نہیں ہے۔ ہر فریق اپنے اپنے داؤ پر ہے۔ جب ریاستی اداروں کو اپنے سیاسی مخالفین کی گردن زنی کے لیے استعمال کریں گے ۔ تو یاد رکھیے۔ وہی ادارے آپ کے سر کو بھی محفوظ نہیں رہنے دینگے ۔ مکافات عمل سے کوئی بھی بشر مبرا نہیں۔ ماضی کی پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا کیا ظلم روا نہیں رکھا گیا۔ مگر اس سے پہلے' اس نقطے پر بھی غور فرما لیجیے۔ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عتاب سے کون سا اپوزیشن رکن محفوظ رہا ؟ کیا' ایف ایس ایف' امریکی حکومت نے بنائی تھی؟ بھٹو صاحب بھی' عام سیاسی مخالفین کی بے حرمتی کرتے تھے۔
چنانچہ وہ بھی قانون قدرت کا شکار ہو گئے' تو پھر رونا پیٹنا کیسا؟ شکوہ اور گلہ کیسا؟ یہ سیاسی کارما ہے جس سے کوئی بھی مبرا نہیں ہے۔ اگر ضیاء الحق' بھٹو کے لیے عفریت تھا' تو بھٹو' اپنے مخالفین کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہرگز ہرگز نہیں تھا۔ ملک کے سیاسی معاملات' سیاست دان حل کرنے کی صلاحیت اور استطاعت ہی نہیں رکھتے ۔ ریاستی ادارے' ان کی کمزوری کو بھانپ کر سانپ اور سیڑھی کا وہ کھیل شروع کر دیتے ہیں جس کے آغاز کا تو پتہ ہے۔ مگر انجام سے سب لا علم ہیں۔ جہاں تک سبق سیکھنے کی بات ہے' تو مجھے یقین ہے کہ ہر کوئی اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ دوسرے کو سبق سکھانے کے درپے ہے۔ مگر خود کچھ بھی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔
مگر یہاں' بحیثیت طالب علم' یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ بالآخر ہم چاہتے کیا ہیں؟ ہم اپنے ملک کو کیا بنانا چاہتے ہیں؟اس سوال کو حد درجہ جید افراد سے پوچھا' کسی کے پاس کوئی صائب جواب نہیں ہے۔ ہمارے زوال کی کوئی حد نظر نہیں آ رہی۔ بحیثیت قوم جو تلخ فیصلے کرنے چاہیں۔ وہ ہم کر ہی نہیں سکتے۔ عوام کی نظر کہیں اور ہے، اور خواص کسی اور طرف متوجہ ہیں۔ کیا ہونا چاہے۔
اس کا ذکر تک نہیں ہو سکتا۔ تاہم جنونی نعرے لگا کر سب کی توجہ' فروعی مسائل کی طرف مبذول کروا دی گئی ہے۔ ایسے مسائل جن کا نہ کوئی حل ہے اور نہ کوئی انھیں حل کرنے میں سنجیدہ ہے۔ برا نہ منائیے گا۔ ہمارے سیاسی عمائدین کیا ' اس فکری صلاحیت کے حامل ہیں کہ ان کی واقعی عزت کی جائے؟ لالچ اور دولت کمانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور منصوبہ نہیں ہے۔ لہٰذا ادارے اگر سیاست دانوں کو جکڑ لیتے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے۔ ہمیشہ طاقتورفریق ہی دوسروں پر حاوی رہتا ہے۔ موجودہ بدحالی سے کیسے نکلا جائے' اس بے توقیری کی دلدل سے کیونکر باہر آیا جائے۔
یہ وہ سنجیدہ سوالات ہیں جس پر بحث لازم ہے۔ سیاست اور شخصیات کا ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے حوالے سے یہ عرض کرونگا۔ کہ کوئی بیرونی طاقت ہمارے معاملے درست نہیں کر سکتی۔ سب کچھ ہم نے خود ہی کرنا ہے۔ مگر کون کرے گا یہ مشکل کام؟ سب سے پہلے تو ہمیں اپنے نظام سے خوف اور جذباتیت کو کم کرنا چاہیے۔ متعدد افراد' ریاستی اداروں کے متعلق منفی باتیں کرتے ہیں۔ مگر کیا اس بات کا جواب ہے کہ اگر ریاستی ادارے کمزور پڑ گئے۔ تو کیا پاکستان کی وحدت کو برقرار رکھا جا سکے گا؟ ریاست کی قوت ' مضبوط فوج' ہمارے اندرونی استحکام اور سالمیت کی بھی ضامن ہے۔ آپ فرما دیجیے۔ کہ اگر فوج کمزور ہو گی ' تو کیا ملک مضبوط ہو جائے گا؟ ہمارے دائمی دشمن' بغلیں بجا رہے ہیں۔کہ آج کے لمحہ میں ' ہمارے چند ناخلف سیاست دان' اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے میں جزوی طور پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ مگر وحدت کو برقرار رکھنے کے سوال پر' وہ ریاستی اداروں کے علاوہ ' کسی اور طرف نظر نہیں دوڑاتے ۔ سیاسی قائدین کو سب سے پہلے' اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالنی چاہیے۔ فیصلہ سازی کے عمل میں جدت پیدا کرنی چاہیے۔ اپنے خاندان کی دولت بڑھانے کے علاوہ کسی قومی مسئلہ پربھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مگر نہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اندازہ لگائیے کہ سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستان کے ایک سیاسی خاندان کے چشم چراغ کی تمام مشینری سرکار نے ضبط کر لی ہے۔ سعودی کسٹم والے ' ششدر رہ گئے۔ جب اسرائیل سے منگوایا جانے والا Shredder' سعودی عرب لایاگیا تو' اس مشینری پر جعلی مہریں لگی ہوئی تھیں۔ تمام سازو سامان ' خیر اب تو سعودی حکومت ضبط کر چکی ہے۔ مگر جو لوگ ' آج بھی طاقت اور دولت کے پہاڑ پر بیٹھے ہیں' اور آج بھی ادنیٰ درجے کی جعل سازی میں مصروف کار ہیں۔ وہ قومی خزانے سے کیا کھلواڑ کریں گے۔ بلکہ کر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ کو قوم کی بدحالی دیکھ کر بہر حال ہو ہی جاتا ہے۔ آگے کیا لکھوں۔ دل دکھتا ہے۔ پورا سچ لکھا نہیں جا سکتا۔ اور جھوٹ سے تحریر بے اثر ہو جاتی ہے۔ خاموشی شاید زبان بن جائے۔
جس وقت ہم بحیثیت ملک' عدم استحکام کے سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تو عین اسی وقت ہندوستان کا وزیراعظم ' جسے یہاں طنزاً چائے والا کہا جاتا ہے۔ اپنے ملک کے لیے Semi Conductors اور Micro chipsکی فیکٹریوں کا جال بچھانے کی منصوبہ سازی کر رہا ہے۔ ہم چائے والا' کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کو خوش تو کر لیتے ہیں۔ مگر ذرا غور فرمایئے کہ مودی اپنے ملک کو اقتصادی طور پر کتنا اوپر لے گیا ہے۔ ہندوستان کی بات ذرارہنے دیجیے ۔ ذرا بنگلہ دیش پر غور فرمائیے ۔ حسینہ واجد کی برطرفی اور ملک چھوڑنے کے عمل پر پورے پاکستان میں شادیانے بجائے گئے۔ درست ہے کہ بطور وزیراعظم حسینہ واجد نے بہت مظالم کیے ۔ جن کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مگر شدت پسندی اور دہشت گردی کے جن کو جس طرح اس نے بوتل میں بند کر کے رکھا تھا۔ وہ دیو'اب باہر آ چکا ہے۔ لکھ لیجیے۔ کہ اب بنگلہ دیش وہی بنے گا ' جو آج ہم ہیں۔
ان کی ترقی کا راستہ تقریباً بند ہو چکاہے۔ اب مذہبی قوتیں ' اس ملک کو اس نہج پر لے جا رہی ہیں' جہاں سے بدقسمتی اور بدانتظامی کا دروازہ کھلتا ہے۔ کسی ملک سے غرض نہیں ۔ صرف اپنے ملک سے عشق ہے۔ مگر مجھے دور دور تک کوئی ایسا سیاست دان نظر نہیں آ رہا ۔ جو اپنی انا کے حصار سے باہر ہو۔ ہر قائد' جو کہ دراصل حادثاتی قائد ہے۔ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی قوت نہیں رکھتا۔ تو جناب پھر ریاستی اداروں کی قوت کو کیوں کم کیا جائے؟ ان کے علاوہ آپ کے پاس رہ کیاگیا ہے؟ جواب سوچ کر دیجیے۔ کچھ عرصے کے لیے ادارے' معاشی ایمر جنسی لگائیں۔ سیاست سیاست کے کھیل کو موقوف کریں ۔ اور اہل ترین لوگوں کو اقتدار سونپ کر ' ملک کو اقتصادی طور پر مضبوط کریں۔ آج کے دور میں ملک صرف معاشی استحکام سے آگے بڑھتے ہیں۔ یقین نہیں آتا ۔ تو دوبئی وغیرہ سے ہی سبق سیکھ لیں۔ شاید تھوڑی سی عقل آ جائے؟