دکھی بلوچستان کے ذمے دار

بلوچستان کے سردار اور بااثر افراد عوام کے بجائے اپنی مالی ترقی پر توجہ دیتے رہے

m_saeedarain@hotmail.com

گزشتہ ماہ بلوچستان میں دہشت گردی اور پنجاب کے بے گناہ محنت کشوں کے بہیمانہ قتل کے بعد بلوچستان میڈیا میں ایک بار پھر نمایاں ہے اور بلوچ عوام کی غربت، بلوچستان کی پس ماندگی، بلوچوں کے مسائل پر میڈیا میں مسلسل لکھا جا رہا ہے اور حکومت مخالف سیاسی حلقے اور ملک دشمن عناصر اس کا ذمے دار ریاستی اور حکومتی اداروں کو قرار دے رہے ہیں مگر انھی عناصر کے ہاتھوں بلوچستان کی موجودہ صورت حال کی ذمے داری حقیقی ذمے داروں پر عائد کی جا رہی ہے نہ بلوچستان میں بے گناہوں کے قتل کی مذمت کی گئی، جس کے نتیجے میں بلوچستان ایک بار پھر آپریشن کی زد میں آ چکا ہے اور دہشت گردی کا شکار بلوچستان میں اب پہلی بار زنانہ قیادت نمودار کی گئی ہے جس میں ڈاکٹر ماہ رنگ کا نام نمایاں ہے جن کے بلوچ ہونے یا نہ ہونے کا تنازعہ بھی اٹھا ہوا ہے۔


راقم کو محمد خان جونیجو دور میں ایک بار سرکاری طور پر اور اپنے آبائی شہر شکارپور سے صحافیوں کے ہمراہ بلوچستان کے متعدد بار دوروں اور کراچی آنے کے بعد بھی دو بارکوئٹہ، پشین و دیگر علاقوں میں جانے کا موقعہ ملا تھا۔ تقریباً چالیس سال کے دوران بلوچستان کے معلوماتی دوروں کے دوران بلوچستان سے متعلق معلومات تو ہوئیں جس پر راقم پہلے بھی لکھ چکا ہے۔ ضیا دور میں کوئٹہ کے سادہ لوح میئر سردار محمد ایوب وردگ کی مہمان نوازی اور ذاتی تعلقات کے باعث ان سے کافی معلومات ملتی تھیں اور سردار ایوب سخت سردیوں میں اکثر شکار پور آتے تھے اور بطور میئر انھیں صدر جنرل ضیا الحق کی قربت کا موقعہ بھی ملا اور صدر ضیا الحق انھیں اپنے ساتھ امریکا کے دورے پر بھی لے گئے تھے۔


جہاں سردار ایوب وردگ کی طرح دار سفید پگڑی کا امریکا میں بڑا چرچا ہوا تھا جس کا ذکر خود انھوں نے راقم سے کیا تھا اور سردار صاحب، صدر جنرل ضیا الحق کو بلوچستان کے حقیقی مسائل بھی تفصیل سے بتاتے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل ضیا کے دور میں بلوچستان میں متعدد ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے۔



کوئٹہ کو سوئی گیس جنرل ضیا کے دور میں فراہم ہوئی تھی مگر نام نہاد جمہوری ادوار میں بلوچستان کو ترقی دلوانے کے وعدے بہت ہوئے مگر عمل کم ہوا اور جنرل ضیا کے دور میں بلوچستان کی ترقی کا کریڈٹ انھیں سیاسی حلقوں نے کم ہی دیا۔ جونیجو دور میں راقم کو بطور صدر شکار پور پریس کلب سرکاری طور پر سندھ کے دیگر صحافیوں کے ہمراہ بلوچستان کا دورہ کرایا گیا تھا جو معلوماتی سے زیادہ دعوتوں پر زیادہ مشتمل تھا اور روزانہ ہی وزیروں کی دعوتوں میں مصروف رکھا جاتا تھا اور راقم نے سیکریٹری اطلاعات بلوچستان عطا شاد سے کہہ کر کوئٹہ میونسپل کارپوریشن اور پی ٹی وی کوئٹہ کا دورہ کرایا تھا۔ ریڈیو پاکستان کوئٹہ کے دورے میں راقم نے جنرل ضیا دور کے بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کیا تو وہ باتیں سنسر کر دی گئی تھیں اور کہا گیا تھا کہ جنرل ضیا کے بجائے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دورکا ذکر کیا جائے جب کہ جونیجو حکومت میں بلوچستان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تھی۔


ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں علیحدگی پسندوں کے خلاف جو آپریشن ہوا تھا وہ سیاسی تھا اور بلوچ رہنما پہاڑوں پر یا افغانستان جا کر مزاحمت کرتے تھے۔ بھٹو دور کے بعد جنرل ضیا کے دور میں آپریشن میں کمی آئی تھی جو بعد میں جنرل پرویز کے دور میں انتہا پر پہنچائی گئی اور بلوچستان میں بیس پچیس سالوں میں مجوزہ آپریشن کے نتائج حکومتی توقعات کے مطابق کیوں برآمد نہیں ہوئے اس پر سوچا جانا چاہیے کہ بلوچستان کی صورت حال پھر بھی کیوں ابتر ہے؟ بلوچستان پر اکثر سرداروں کی ہی حکومتیں رہی ہیں۔غیر جمہوری دور ہو یا نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی سردار ہی وزیر اعلیٰ رہے۔


گورنر پشتون اور وزیر اعلیٰ بلوچ کا فارمولا چلتا رہا۔ جنرل ضیا کے دور میں جنرل رحیم بااختیار گورنر تھے جن کے دور میں بلوچستان میں بے پناہ ترقیاتی کام ہوئے اور ان کی بیگم ثاقبہ رحیم نے بھی بلوچستان کی خواتین کی سیاسی و سماجی ترقی میں ذاتی طور پر خصوصی دلچسپی لی تھی اور خواتین کے لیے کئی ادارے قائم ہوئے تھے۔ جونیجو دور میں گورنر بلوچستان جنرل (ر) موسیٰ خان سے گورنر ہاؤس میں اور وزیر اعلیٰ جام غلام قادر سے صوبے کے مسائل پر دیگر صحافیوں سمیت ملاقات میں تفصیلی ملاقات ہوئی تھی مگر بلوچستان کے حقیقی مسائل کے ذمے داروں کی نشان دہی کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو ہی ذمے دار قرار دیا جاتا تھا اور اپنے دور کو ہی ترقی کا دور گردانا جاتا تھا۔


نواز شریف کی تینوں حکومتوں میں بلوچستان کو ضرور اہمیت ملی اور صوبے میں سڑکوں کا جال بھی بچھا مگر صوبے کے عوام کی بہتری کہیں نظر نہیں آئی۔ بلوچستان کو وفاقی امداد بھی بہت ملی مگر وہ ترقی پر کم اورکرپشن پر زیادہ خرچ ہوئی اور ہر سردار نے اپنا اپنا حصہ وصول کیا۔ عوامی حلقوں کے مطابق بلوچستان کے سردار اور بااثر افراد عوام کے بجائے اپنی مالی ترقی پر توجہ دیتے رہے اور تعلیم کبھی ان کی ترجیح رہی ہی نہیں۔

Load Next Story