شرح سود میں نمایاں کمی اور مانیٹری پالیسی
پاکستان کے مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے ملک میں شرح سود میں مزید 2 فی صد کی کمی کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ملک میں نئی شرح سود 17.50 فی صد ہوگئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بینک دولت پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں 2 فیصد کمی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ملکی معیشت کے لیے خوش آیند قرار دیا۔
بلاشبہ شرح سود میں کمی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے بعض انتظامی اقدامات کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار میں بہتری کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے، یعنی معاشی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی کے دباؤ میں مسلسل کمی اور پالیسی ریٹ میں حالیہ کٹوتیوں کے ظاہر ہوتے ہوئے اثرات سے صنعت اور خدمات کے شعبوں میں نمو کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ گو ماہرین معیشت شرح سود کو اب بھی زیادہ قرار دیتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی سطح میں کمی آنے کے ساتھ امید ہے کہ اس میں مزید کمی آئے گی۔
ایک سال قبل پاکستان کو ایک انتہائی چیلنجنگ میکرو اکنامک ماحول کا سامنا تھا، مہنگائی 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی، زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے تھے اور زر مبادلہ کی شرح بہت دباؤ میں تھی۔ آج مہنگائی تیزی سے نیچے آرہی ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کافی حد تک کم ہوگیا ہے، روپیہ مستحکم ہے اور بے یقینی بھی کم ہوئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے دوطرفہ اورکثیر الجہتی شراکت دار اپنی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ بھی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے، درحقیقت حکومت نے غیر ضروری موجودہ اخراجات کو روک کر مالیاتی استحکام کا کام بھی کیا۔ اب یہ مربوط پالیسی اب مطلوبہ نتائج دے رہی ہے۔
معیشت کو درپیش دیرینہ مسائل سے نمٹنے کے لیے نئے تناظر اور اختراعی حل کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، تکنیکی ترقی، سائبر سیکیورٹی کے خطرات اور مالیاتی ایجادات اقتصادی اور مالیاتی استحکام کے خطرات میں نئی جہتیں شامل کر رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہورہا ہے کہ شرح سود میں کمی سے کیا معیشت میں بہتری اور سب سے بڑھ کر عام آدمی کی معاشی بہتری کی کوئی امید ہے یا نہیں۔ گو عام آدمی کو اس سے کوئی براہ راست فائدہ تو نہیں ہوگا، لیکن یہ ضرور ہے کہ جب شرح سودکم ہوتی ہے تو تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر کو حکومت سے قرض لینے میں کسی قدر آسانی ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں بڑے بڑے سرمایہ دار اس بات کو ترجیح دے رہے ہیں کہ بہتر منافع کے حصول کے لیے وہ اپنی رقوم کسی بڑے منصوبے پر خرچ کرنے کے بجائے بینکوں میں رکھیں، تاکہ اس سے بہتر منافع کا حصول ممکن ہو سکے، لیکن شرح سود میں کمی لانے سے یہ پیسہ پھر سے مارکیٹ میں آئے گا اورکاروبار میں لگنے سے اس سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہمیں اس حقیقت سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان میں شرح سود میں بڑی کمی آسان نہیں ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کے لیے سخت شرائط کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تاجروں اور صنعتکاروں کی جانب سے بھی شرح سود میں کمی کی درخواستیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک بڑا حصہ دوست ممالک کے تعاون سے فراہم کردہ مالیات پر مبنی ہے۔ ایسی صورت میں اگر شرح سود میں بڑی کمی کی گئی تو بینکوں سے پیسہ نکلنے کا بھی امکان ہوسکتا ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق پاکستان کی معیشت میں شرح سود میں کمی کا مطالبہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے حکومت اور مرکزی بینک کو کئی چیلنجزکا سامنا ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ مذاکرات، زرمبادلہ کے ذخائرکی صورتحال اور مارکیٹ کے موجودہ حالات سب ایسے عوامل ہیں جو اس مسئلے کی پیچیدگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ دراصل ملک میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے اور اسی کمی کی بدولت مانیٹری پالیسی کمیٹی کو شرح سود کم کرنے کا موقع مل سکا ہے۔ پاکستان میں اگست کے اختتام پر سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 34 ماہ کی کم ترین سطح پر آئی ہے اور یہ سنگل ڈیجٹ پر پہنچی ہے۔ دوسری جانب روپے کی قدر میں استحکام بھی مہنگائی کو کم کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے کیوں کہ در حقیقت پاکستان میں بھاری مقدار میں اجناس باقاعدگی سے درآمد کی جاتی ہیں، اس لیے روپے کی قدر میں استحکام براہ راست مہنگائی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
موجودہ حالات میں پاکستانی معیشت منفی خبروں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔ مانیٹری پالیسی کے تحت جب پالیسی ریٹ کم کیا جاتا ہے تو بینکوں کے لیے قرض لینا سستا ہوجاتا ہے، نتیجتاً کمرشل بینک بھی اپنے قرضوں کی شرح سود کم کردیتے ہیں۔ اس سے لوگ اور کاروباری ادارے زیادہ قرض لیتے ہیں، جس کی وجہ سے معیشت میں پیسوں کی گردش بڑھ جاتی ہے اور معاشی سرگرمیاں تیز ہو جاتی ہیں۔ پالیسی ریٹ کم ہونے سے سرمایہ کاروں کو سستے قرضے ملتے ہیں، جس سے کاروباری سرمایہ کاری اور ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔ تیل کی عالمی قیمتیں تیزی سے کم ہونے کے ساتھ زرِمبادلہ رقوم کی کم آمد اور مسلسل قرضے کی واپسی کے باوجود اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 9.5 ارب ڈالرز پر مستحکم ہیں۔
عالمی معاشی ماحول بھی سازگار نظر آیا جو خام تیل کی قیمتوں میں خاصی کمی اور عالمی مالی حالات میں قدرے بہتری سے ظاہر ہوتا ہے۔ حکومت کا پانچ سالہ پلان کے تحت جی ڈی پی گروتھ 6 فیصد اور مہنگائی کو 7 سے 8 فیصد تک محدود کرنے کا ارادہ ہے جب کہ مالیاتی خسارہ رواں مالی سال جی ڈی پی کا 6 فیصد، آیندہ سال 4.7 فیصد تک محدود کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح، مالیاتی خسارہ سال 2026-27میں 3.6 فیصد اور مالی سال 2028میں مزید کم کرنے کا پلان ہے اور برآمدات کو پانچ برسوں میں دگنی کر کے 60 ارب ڈالر سے زائد بڑھانے کا پلان تیارکیا گیا ہے۔ برآمدات میں ہر سال تقریباً 5 سے 6 ارب ڈالر اضافے کے لیے پلان تیارکیا گیا ہے، جب کہ وزیراعظم نے فارمرز کریڈٹ لینڈنگ بڑھانے کے لیے کمرشل بینکوں کے ساتھ مل کر پلان مرتب کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح بڑھانا، برآمدات، ایف بی آر اہداف، نجکاری پلان، مالیاتی خسارہ کنٹرول، پرائمری بیلنس سرپلس، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)، سرمایہ کاری اور اوورسیز اور زراعت پلان اہداف میں شامل ہیں جب کہ انرجی ریفارمز، اخراجات میں کٹوتی، فارمرز کریڈٹ لینڈنگ، ایف بی آر ڈیجیٹائزیشن بھی پلان کا حصہ ہے۔گزشتہ برسوں میں میاں شہباز شریف بار بار میثاقِ معیشت کی تجویز دیتے رہے ہیں جو پاکستان تحریک انصاف کے عدم اتفاق کی وجہ سے عمل کے سانچے میں نہیں ڈھل سکا۔ پانچ سالہ معاشی منصوبہ ہو یا میثاقِ معیشت، ان دونوں کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے کہ پاکستانی معیشت کی منجدھار میں پھنسی ہوئی ناؤ کی ان مسائل سے جان چھڑائی جائے۔
ان دونوں منصوبوں کی تجاویز میاں شہباز شریف کی طرف سے سامنے آنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ معیشت کے بارے میں واقعی بہت سنجیدہ ہیں اور اس معاملے کی حساسیت سے پوری طرح آگاہ ہیں۔پاکستان نے اپنے ابتدائی برسوں میں پانچ سالہ اقتصادی منصوبوں کی مدد سے جو معاشی فوائد حاصل کیے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمارے یہ منصوبے کس حد تک فائدہ مند تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ ملکوں نے انھیں رہنما بنا کر اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے کام شروع کیا اور آج وہ دنیا میں مستحکم معیشت شمار کیے جاتے ہیں۔
ہمارا پہلا پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ 1955میں نافذ کیا گیا تھا جو منصوبہ بندی بورڈ کے سربراہ زاہد حسین کی رہنمائی میں تیارکیا گیا تھا۔ پہلے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے میں انھوں نے جن زرعی اصلاحات کی تجویز دی تھی اگر ان پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو آج پاکستان کی معاشی اور سماجی صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ خیر، یکے بعد دیگر اقتصادی منصوبے ترتیب دیے جاتے رہے اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے دورِ حکومت میں 2013سے 2018 تک گیارہویں پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا اور حکومت نے ایک دستاویزکے ذریعے اس کے خدوخال بھی واضح کر دیے تھے لیکن غیر مستحکم سیاسی حالات کی وجہ سے اس پر عمل درآمد اس طرح ممکن نہ ہو پایا جیسے کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔
اب ایک بار پھر نون لیگ نے پانچ سالہ منصوبہ پیش کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کے لیے صرف مختلف وزارتوں کے ماہرین ہی نہیں بلکہ تمام صوبوں اور جماعتوں کے قائدین سے بھی مشاورت کریں اور اگر اپنے سیاسی مخالفین سے بھی انھیں کچھ بہتر تجاویز ملتی ہیں تو انھیں اس منصوبے کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ یہ کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے ملک کی معیشت کا معاملہ ہے، لہٰذا اس سلسلے میں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سب کو یک جہت ہونا چاہیے۔
ہم بلاشبہ یہ توقع کرتے ہیں کہ آگے چل کر ملکی معاشی بحالی کے مطابق درآمدی حجم میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاہم توقع ہے کہ ملک کے تناسب تجارت میں بہتری، جس کا بڑا سبب کم ہوتی ہوئی خام تیل کی قیمتیں ہیں، کے نتیجے میں رواں مالی سال میں مجموعی تجارتی خسارہ قابو میں رہے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے اور انھیں ایسے مواقعے فراہم کرے تاکہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کر سکیں۔