معیشت میں بہتری لانے کی ضرورت

افرادی قوت کی برآمد میں اضافہ ہونے سے ترسیل زر میں اضافہ ہوگا



گزشتہ صدی کے نصف کے بعد عالمی سطح پر اس بات پر زور دیا جاتا رہا تھا کہ کم ترقی یافتہ ممالک جب اپنی بچت میں افزائش نہیں کرپاتے تو وہ بیرونی سرمائے کی آمد پر زور دیں۔ یعنی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی سطح بلند ہوتی رہے، لیکن عالمی سطح پر اس نظریے کے اطلاق نے کم ترقی یافتہ ممالک لاطینی امریکا اور افریقی ممالک جن میں کئی ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں، ان ملکوں میں قرضوں کا بحران پیدا ہونا شروع ہوگیا اور بہت سے ملکوں میں امیر اور غریب کا فرق بڑھنے لگا۔ 1980 اور 1990 کی دہائی اسی طرح گزرگئی۔ پھر آئی ایم ایف نے اور عالمی بینک نے ان ملکوں میں اپنے اصلاحاتی پروگرام نافذ کیے۔


ان پروگراموں کے نتیجے میں چاہیے تو یہ تھا کہ غریب ممالک میں روزگارکے مواقعے بڑھ جاتے لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا، غریب اور امیرکا فرق کم سے کم ہو جاتا، بچتیں ہوتی رہتیں اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا چلا جاتا، لیکن غریب ممالک میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوا اور پاکستان میں بدقسمتی سے ایسے حالات پیدا ہونا شروع ہوگئے کہ سرمائے کا فرار بھی ہونے لگا اور اس میں تیزی بھی آنے لگی۔


1994 میں نافذ کیے گئے معاشی پروگرام سے مزدور بہت خوش ہوگئے کیونکہ ان کی تنخواہوں میں اضافے کو یقینی بنا دیا گیا۔ بہت سے کارخانے جوکہ قومی تحویل میں لیے گئے وہاں مزدور اور سرکاری انتظامیہ چین اور سکون میں آگئے کہ اب آرام کے مواقعے زیادہ حاصل ہوں گے اور تنخواہیں بھی بڑھ کر ملیں گی۔


اب آتے ہیں 1990 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں سوویت یونین سمٹا تو درجن بھر مملکتیں وجود میں آگئیں، زیادہ تر مسلم ممالک بن کر ابھرے۔ پاکستان کے لیے بڑے مواقعے پیدا ہو رہے تھے۔ ان ملکوں سے لوگ روزی کی تلاش میں سامان تجارت سے لدے پھندے پاکستان آتے اور پھر چند دن یا ہفتوں کے بعد لدے پھندے اپنے ملکوں کو روانہ ہو جاتے۔ پاکستان قدیم راستوں سے تجارت کو فروغ دے سکتا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب فرغانہ، تاشقند، بخارا، سمرقند اور دور دراز علاقوں سے تجارتی قافلے برصغیر وارد ہوتے تھے۔ ان میں کتنوں کا رخ افغانستان سے خراسان سے ہو کر عراق، موصل، بصرہ ، شام سے ہو کر اردن اور بالآخر بیت المقدس تک پہنچ جاتے تھے۔ یہ راستے قدیم بھی تھے پر رونق بھی تھے۔ تجارتی قافلے رواں دواں رہتے تھے۔ پھر آتے ہیں پاکستان اور 1990 کی دہائی میں۔ 1962 میں پاکستان ایران ترکی نے معاہدہ کیا جسے 1980 کی دہائی میں کچھ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔


1992 میں اس کو وسعت دی گئی۔ وسط ایشیائی مسلم ملکوں کو ملا کر نیا تجارتی اور معاشی معاہدہ کیا گیا۔ پاکستان چترال اور وہاں سے تاجکستان کے قریبی سرحد پر پہنچ کر افغانستان کے ذریعے نیا تجارتی راستہ، بہترین سہولیات سے آراستہ شاہراہ یا موٹروے بنا کر ان ملکوں کو اپنے ہاں آمد و رفت ویزا تجارتی سہولیات، ٹیکس سے متعلق مراعات اور بہت سی باتیں ہیں وہ فراہم کر سکتا تھا۔ لیکن پاکستان میں ایک کام شروع ہونے لگا وہ تھا بم دھماکے۔ ظاہر ہے اب تو نہ سیاح آئیں گے نہ تاجر نہ سوداگر۔ دوسری طرف بجلی کا بحران سنگین ہوتا چلا گیا تو پاکستان کی سب سے بڑی عالمی سطح پر بہت بڑی پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو زوال آنا شروع ہو گیا۔ نئی صدی شروع ہوئی اور اس کی ربع صدی گزر گئی۔


ہم مزید زوال پذیر ہوتے چلے جا رہے ہیں نہ بیرونی سرمایہ کاری آ رہی ہے بلکہ بڑے پیمانے پر سرمائے کا فرار ہو رہا ہے۔ اپریل 2022 میں نئی حکومت آئی اور اس کے کچھ عرصے میں بھی آئی ایم ایف کی آمد کا صبح شام انتظار ہونے لگا۔ اس انتظار کی طوالت نے ڈالر کی قدر کو مزید بڑھا دیا۔ اب پھر ایسی صورت حال نظر آ رہی ہے کہ آئی ایم ایف تو اہل پاکستان کو یہاں کے غریب عوام کو کسی قسم کی رعایت مراعات حکومت کی طرف سے سبسڈی دینے کی مخالفت کر رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاہدے میں تاخیر ہونے پر ڈالر ریٹ بڑھنا شروع ہوسکتے ہیں۔


بڑی مشکل سے 280 روپے فی ڈالر کے لگ بھگ موجود تھا۔ اب 281 کا ہوا، سننے میں آیا ہے دوبارہ 280 پر لے گئے ہیں، لیکن آئی ایم ایف کے نخرے بڑھتے رہے تو ڈالر کے بھی نخرے بڑھ جائیں گے۔اس وقت توانائی کا مسئلہ اس کی قیمت اس کی دستیابی سب سے اہم ترین ہے اور اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 2013 میں صدر مملکت آصف زرداری کی کوششوں سے پاک ایران گیس منصوبے کی تکمیل کی امید ہو چلی تھی پاکستان کو ضرورت کے مطابق گیس حاصل ہو جاتی، لیکن اب عالمی سطح پر اس میں کئی رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں۔


عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں پاکستان بھاری جرمانہ ادا کرنے کے قابل نہیں۔ ہمارے لیے گیس بھی اہم ترین ہے، اس وقت کئی مسائل کے سبب بہت سے کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ سرمائے کا فرار وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔ لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ بجلی پر ریلیف کی مخالفت ہو رہی ہے۔ ایسے میں معیشت جوکہ لڑکھڑا رہی ہے اسے کچھ نہ کچھ ریلیف دینے کے لیے ڈالر کو بالکل بڑھنے نہ دیا جائے۔ بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ پاک ایران گیس معاہدے کو کسی طرح سے قابل عمل بنایا جائے۔


پاکستان کی افرادی قوت پر سرمایہ کاری کی جائے جس کے نتیجے میں افرادی قوت کی برآمد میں اضافہ ہونے سے ترسیل زر میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں کروڑوں افراد بے روزگار ہیں اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ڈھائی کروڑ بچوں کے بارے میں ہے کہ وہ اسکول نہیں جا رہے۔ اس طرح پاکستان کے مستقبل کے معماروں کی فکر آج ہی کرنی پڑے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں