جان کاشمیری شدتِ مشاہدہ کا شاعر
جان کاشمیری کے ہاں وقت اور زمانہ ایک مخصوص تناظر میں اپنا جلوہ دکھاتے نظر آتے ہیں
'' طُلوع زار'' اُردو کے معتبر و ممتاز شاعر جان کاشمیری کا مجموعہ کلام ہے جو اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے اور میرے سوچوں میں نئی فکر کا سامان مہیا کر رہا ہے، جب سے اس مجموعے کی ورق گردانی شروع کی ہے، عجیب سرشاری کی کیفیت میں ہوں اور جہانِ حیرت کی وادیوں میں سفر کر رہا ہوں۔
ان کے مطبوعہ شعری اثاثہ میں بہت سی کتابوں کا اضافہ ہوچکا ہے جن میں '' طُلوع زار'' بھی ان کے باقی مجموعوں میں نایاب گنا جائے گا۔ موجودہ وقت نے اس مجموعے کی افادیت اور بڑھا دی کہ یہ شاعری بار بار مطالعے کی متقاضی ہے۔ یہ قاری سے ایک خاص مرتبے کی حامل کمٹمنٹ کا تقاضا کرتی ہے۔ جان کاشمیری ایک خاص ذوقِ شعری رکھنے والے سخن دوست ہے، انہوں نے ہمیشہ وحشت زدہ ماحول میں اپنے قلم سے نکلنے والی چنگاریوں سے محبت کے نغمے تحریر کیے۔ وہ سونے کے ورق پر چاندی کے لفظ سجا کر محبت کا درس دیتے ہیں۔
کوئی سونے کا نہ چاندی کا ورق دیتے ہیں
ہم زمانے کو محبت کا درس دیتے ہیں
ایک روز میں نے ان کے دولت کدے پر حاضری دی تو میں نے دیکھا کہ جان صاحب اپنی رہائش گاہ کے ساتھ خالی پلاٹ میں گلاب کے پتے سوکھے ہوئے پڑے ہیں اور جان صاحب گلاب کے اُن راکھ ہوئے پتوں پر تتلیوں کو سجدے کی حالت میں دیکھتے ہی پوشیدہ رازوں کی کھوج میں مگن ہو جاتے ہیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد جب جان صاحب نے مجھے اپنا یہ شعر سنایا تو میں حیران ہوگیا کہ ان کی سوچ اور ان کا مشاہدہ کتنا جاذبِ نظر ہے کہ وہ صنفِ نازک کے راکھ کی ڈھیری پر سجدے اور گلابوں کے قتل پہ کیا خوبصورت تخلیقی اظہار کر رہے ہیں۔
تتلیاں سجدہ کریں راکھ کی جس ڈھیری پر
اس کا مطلب ہے وہاں قتل گلابوں کا ہُوا
جان کاشمیری اپنے آج اور کل سے خوب واقف دکھائی دیتے ہیں، وہ باہر کی دنیا سے اندر کی دنیا کو بہت مختلف روپ میں دیکھتے ہیں، کیونکہ لامکاں تو اندر ہی ہو سکتا ہے۔
لا مکاں کی مری آنکھوں میں لگی ہے پُتلی
مجھ کو پل میں نظر آتے ہیں، زمانے سو سو
جان کاشمیری کے ہاں وقت اور زمانہ ایک مخصوص تناظر میں اپنا جلوہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ تبھی تو وہ ''طُلوع زار'' کی صورت میں اپنی شاعری میں روشن دکھائی دیتے ہیں۔ باخدا یہ شخص اتنا فراخ دل ہے کہ کسی کے دل دکھانے پہ بھی معذرت کرنے میں دیر نہیں کرتا۔
ضرورت ہم نے پوری با خدا حسبِ سکت کر لی
کسی کا دل لیا ہنس کر،کسی سے معذرت کر لی
''طُلوع زار'' میں شامل غزلیات میں جو فن سے سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثرکرتا ہے وہ پیکر نگاری کا فن ہے۔ جذبے، خیال، تصور یا محسوسات کو پیکر نگاری کے ذریعے انہوں نے کچھ اس طرح برتا ہے کہ ہم ان کے شعر کو محض شعر نہ کہہ کر جذبات و محسوسات کا مرقع کہہ سکتے ہیں۔ اس شعری مجموعہ کا دیباچہ دورِ حاضر کے مقبول تنقید نگار اکرم کنجاہی کا تحریر کردہ ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ '' جان کاشمیری نے قاری کو جس جمالیاتی کائنات سے آشنا کیا ہے ، وہ فکری اعتبار سے محدود نہیں، وسیع، ہمہ گیر اور بسیط ہے۔ جمالیاتی تپش بھی اُن کے سوز وگداز کا اہم سبب ہے کہ وہ سبزے کے لہلہانے میں بوڑھی زمین کی بھی امنگ دیکھ لینے والا شاعر ہے۔ ''
جان کاشمیری ہر اُس سچی پر بات پر یقین رکھتے ہیں جو حق و صداقت پر مبنی ہو۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ سچ بولنے سے عاری نظر آتے ہیں اور جھوٹ بولنے میں باکمال ہوتے ہیں، وہ جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے جان صاحب کی غزل کا ایک مطلع ہی کافی ہے۔
بات سچی جو کروں اُس کو بُرا لگتا ہے
بولنا جھوٹ مجھے ایک سزا لگتا ہے
تغزل دراصل جذبے اور خیال مشاہدے کی شدت کا نام ہے اور جان صاحب کی غزلیں اس کی شاہد ہیں کہ انہوں جدید دور میں اپنی شاعری میں نئی نئی علامتوں، تشبیہوں، استعاروں اور کنایوں کو ایک نئے تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے جو ہر آنے والی نسلِ نو کے لیے رہنمائی کا سبب بنے گا۔ کیونکہ جان کاشمیری اُستاد الشعراء کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں وہ ماہرِ عروض پر بھی ہیں اور انہیں اپنی بات کو نہ صرف کہنے بلکہ منوانے کا بھی ڈھنگ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزل کو یک رُخا رکھنے کی بجائے اُسے زندگی کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیری کا صحیفہ بنایا اور یہی جان کاشمیری کا کمال ہے جو انہیں دیگر شعراء میں باکمال ہونے کی سند عطا کرتا ہے۔
'' طُلوع زار'' کا انتساب انہوں نے پروفیسر نائلہ بٹ کے نام کر رکھا ہے۔ نائلہ بٹ خود بھی بہت اچھی خاکہ نگار، نقاد اور شاعرہ ہیں وہ اپنے فن سے زیادہ اپنی پُرکشش شخصیت کا سہارا لیتی ہیں۔ بہرحال جان کاشمیری کی جانب دوبارہ لوٹتے ہوئے، ان کی فرقت کے لمحوں کو یاد کرتے ہوئے خوب اس بات کا لطف اٹھاتے ہوئے آپ کو بھی اس لطف میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ:
میری فرقت میں کہیں مر ہی نہ جائے یارو
جاؤ کمرے سے اُٹھا لاؤ مری تنہائی
اسی طرح ایک خاتون شاعرہ ظریفہ جان نے اپنا تمام شعری کلام ایک منفرد اور مختلف زبان میں تحریر کیا ہے، جسے ان کے سوا دنیا کا کوئی بھی دوسرا انسان پڑھ یا سمجھ نہیں سکتا۔60 سالہ صوفی شاعرہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کی رہائشی ہیں اور انہوں نے اپنی شاعری کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی ہی کوڈڈ (Coded) زبان بنالی ہے۔ان کے لکھنے اور پڑھنے کے اسی انداز کی وجہ سے انہیں 'کوڈڈ پوئٹ آف کشمیر' (Coded Poet Of Kashmir) بھی کہا جاتا ہے۔وہ اپنی شاعری کو کوڈز اور اشکال کی شکل میں محفوظ کرتی ہیں۔ ظریفہ جان اپنی زندگی میں کبھی سکول نہیں گئیں وہ ان پڑھ ہیں اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں تاہم انہوں نے اب تک کشمیری زبان میں تین سو سے زائد شعری کلام تحریر کیے ہیں۔ظریفہ جان مشاعروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتی اور اپنا کلام پیش کرتی ہیں۔
ان کی لکھی گئی نظمیں اور دیگر شعری کلام کو اس وجہ سے بھی لوگ پسند کرتے ہیں کہ وہ جس سکرپٹ میں لکھتی ہیں، اس کا ایکسپرٹ دنیا میں شاید ہی کوئی ہو۔
ظریفہ جان کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ کئی دہائیوں سے شاعری کرتی آئی ہیں اور چونکہ وہ لکھنا یا پڑھنا نہیں جانتی تھی تو انہوں نے اپنے کلام کو محفوظ کرنے کے لیے مخصوص زبان کا استعمال کیا۔جب بھی ان کے ذہن میں کوئی مصرعہ آتا ہے تو وہ قلم ہاتھ میں اٹھا کر کورے کاغذ پر مخصوص نشانات اور اشکال بنا کر اپنا کلام محفوظ کرتی ہیں۔
ان کے مطابق جسمانی کمزوریوں اور کم حافظے کی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کلام کو ایسے ہی محفوظ کریں، ورنہ جو شعر ان کے ذہن میں آتا ہے اگر وہ اس شعر کو اپنی مخصوص زبان میں تحریر نہ کریں تو وہ یہ شعر کھو دیتی ہیں اور ایسے ہی انہوں نے اپنا کافی کلام کھو دیا ہے۔
ان کے مطبوعہ شعری اثاثہ میں بہت سی کتابوں کا اضافہ ہوچکا ہے جن میں '' طُلوع زار'' بھی ان کے باقی مجموعوں میں نایاب گنا جائے گا۔ موجودہ وقت نے اس مجموعے کی افادیت اور بڑھا دی کہ یہ شاعری بار بار مطالعے کی متقاضی ہے۔ یہ قاری سے ایک خاص مرتبے کی حامل کمٹمنٹ کا تقاضا کرتی ہے۔ جان کاشمیری ایک خاص ذوقِ شعری رکھنے والے سخن دوست ہے، انہوں نے ہمیشہ وحشت زدہ ماحول میں اپنے قلم سے نکلنے والی چنگاریوں سے محبت کے نغمے تحریر کیے۔ وہ سونے کے ورق پر چاندی کے لفظ سجا کر محبت کا درس دیتے ہیں۔
کوئی سونے کا نہ چاندی کا ورق دیتے ہیں
ہم زمانے کو محبت کا درس دیتے ہیں
ایک روز میں نے ان کے دولت کدے پر حاضری دی تو میں نے دیکھا کہ جان صاحب اپنی رہائش گاہ کے ساتھ خالی پلاٹ میں گلاب کے پتے سوکھے ہوئے پڑے ہیں اور جان صاحب گلاب کے اُن راکھ ہوئے پتوں پر تتلیوں کو سجدے کی حالت میں دیکھتے ہی پوشیدہ رازوں کی کھوج میں مگن ہو جاتے ہیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد جب جان صاحب نے مجھے اپنا یہ شعر سنایا تو میں حیران ہوگیا کہ ان کی سوچ اور ان کا مشاہدہ کتنا جاذبِ نظر ہے کہ وہ صنفِ نازک کے راکھ کی ڈھیری پر سجدے اور گلابوں کے قتل پہ کیا خوبصورت تخلیقی اظہار کر رہے ہیں۔
تتلیاں سجدہ کریں راکھ کی جس ڈھیری پر
اس کا مطلب ہے وہاں قتل گلابوں کا ہُوا
جان کاشمیری اپنے آج اور کل سے خوب واقف دکھائی دیتے ہیں، وہ باہر کی دنیا سے اندر کی دنیا کو بہت مختلف روپ میں دیکھتے ہیں، کیونکہ لامکاں تو اندر ہی ہو سکتا ہے۔
لا مکاں کی مری آنکھوں میں لگی ہے پُتلی
مجھ کو پل میں نظر آتے ہیں، زمانے سو سو
جان کاشمیری کے ہاں وقت اور زمانہ ایک مخصوص تناظر میں اپنا جلوہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ تبھی تو وہ ''طُلوع زار'' کی صورت میں اپنی شاعری میں روشن دکھائی دیتے ہیں۔ باخدا یہ شخص اتنا فراخ دل ہے کہ کسی کے دل دکھانے پہ بھی معذرت کرنے میں دیر نہیں کرتا۔
ضرورت ہم نے پوری با خدا حسبِ سکت کر لی
کسی کا دل لیا ہنس کر،کسی سے معذرت کر لی
''طُلوع زار'' میں شامل غزلیات میں جو فن سے سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثرکرتا ہے وہ پیکر نگاری کا فن ہے۔ جذبے، خیال، تصور یا محسوسات کو پیکر نگاری کے ذریعے انہوں نے کچھ اس طرح برتا ہے کہ ہم ان کے شعر کو محض شعر نہ کہہ کر جذبات و محسوسات کا مرقع کہہ سکتے ہیں۔ اس شعری مجموعہ کا دیباچہ دورِ حاضر کے مقبول تنقید نگار اکرم کنجاہی کا تحریر کردہ ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ '' جان کاشمیری نے قاری کو جس جمالیاتی کائنات سے آشنا کیا ہے ، وہ فکری اعتبار سے محدود نہیں، وسیع، ہمہ گیر اور بسیط ہے۔ جمالیاتی تپش بھی اُن کے سوز وگداز کا اہم سبب ہے کہ وہ سبزے کے لہلہانے میں بوڑھی زمین کی بھی امنگ دیکھ لینے والا شاعر ہے۔ ''
جان کاشمیری ہر اُس سچی پر بات پر یقین رکھتے ہیں جو حق و صداقت پر مبنی ہو۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ سچ بولنے سے عاری نظر آتے ہیں اور جھوٹ بولنے میں باکمال ہوتے ہیں، وہ جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے جان صاحب کی غزل کا ایک مطلع ہی کافی ہے۔
بات سچی جو کروں اُس کو بُرا لگتا ہے
بولنا جھوٹ مجھے ایک سزا لگتا ہے
تغزل دراصل جذبے اور خیال مشاہدے کی شدت کا نام ہے اور جان صاحب کی غزلیں اس کی شاہد ہیں کہ انہوں جدید دور میں اپنی شاعری میں نئی نئی علامتوں، تشبیہوں، استعاروں اور کنایوں کو ایک نئے تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے جو ہر آنے والی نسلِ نو کے لیے رہنمائی کا سبب بنے گا۔ کیونکہ جان کاشمیری اُستاد الشعراء کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں وہ ماہرِ عروض پر بھی ہیں اور انہیں اپنی بات کو نہ صرف کہنے بلکہ منوانے کا بھی ڈھنگ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزل کو یک رُخا رکھنے کی بجائے اُسے زندگی کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیری کا صحیفہ بنایا اور یہی جان کاشمیری کا کمال ہے جو انہیں دیگر شعراء میں باکمال ہونے کی سند عطا کرتا ہے۔
'' طُلوع زار'' کا انتساب انہوں نے پروفیسر نائلہ بٹ کے نام کر رکھا ہے۔ نائلہ بٹ خود بھی بہت اچھی خاکہ نگار، نقاد اور شاعرہ ہیں وہ اپنے فن سے زیادہ اپنی پُرکشش شخصیت کا سہارا لیتی ہیں۔ بہرحال جان کاشمیری کی جانب دوبارہ لوٹتے ہوئے، ان کی فرقت کے لمحوں کو یاد کرتے ہوئے خوب اس بات کا لطف اٹھاتے ہوئے آپ کو بھی اس لطف میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ:
میری فرقت میں کہیں مر ہی نہ جائے یارو
جاؤ کمرے سے اُٹھا لاؤ مری تنہائی
اسی طرح ایک خاتون شاعرہ ظریفہ جان نے اپنا تمام شعری کلام ایک منفرد اور مختلف زبان میں تحریر کیا ہے، جسے ان کے سوا دنیا کا کوئی بھی دوسرا انسان پڑھ یا سمجھ نہیں سکتا۔60 سالہ صوفی شاعرہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کی رہائشی ہیں اور انہوں نے اپنی شاعری کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی ہی کوڈڈ (Coded) زبان بنالی ہے۔ان کے لکھنے اور پڑھنے کے اسی انداز کی وجہ سے انہیں 'کوڈڈ پوئٹ آف کشمیر' (Coded Poet Of Kashmir) بھی کہا جاتا ہے۔وہ اپنی شاعری کو کوڈز اور اشکال کی شکل میں محفوظ کرتی ہیں۔ ظریفہ جان اپنی زندگی میں کبھی سکول نہیں گئیں وہ ان پڑھ ہیں اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں تاہم انہوں نے اب تک کشمیری زبان میں تین سو سے زائد شعری کلام تحریر کیے ہیں۔ظریفہ جان مشاعروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتی اور اپنا کلام پیش کرتی ہیں۔
ان کی لکھی گئی نظمیں اور دیگر شعری کلام کو اس وجہ سے بھی لوگ پسند کرتے ہیں کہ وہ جس سکرپٹ میں لکھتی ہیں، اس کا ایکسپرٹ دنیا میں شاید ہی کوئی ہو۔
ظریفہ جان کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ کئی دہائیوں سے شاعری کرتی آئی ہیں اور چونکہ وہ لکھنا یا پڑھنا نہیں جانتی تھی تو انہوں نے اپنے کلام کو محفوظ کرنے کے لیے مخصوص زبان کا استعمال کیا۔جب بھی ان کے ذہن میں کوئی مصرعہ آتا ہے تو وہ قلم ہاتھ میں اٹھا کر کورے کاغذ پر مخصوص نشانات اور اشکال بنا کر اپنا کلام محفوظ کرتی ہیں۔
ان کے مطابق جسمانی کمزوریوں اور کم حافظے کی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کلام کو ایسے ہی محفوظ کریں، ورنہ جو شعر ان کے ذہن میں آتا ہے اگر وہ اس شعر کو اپنی مخصوص زبان میں تحریر نہ کریں تو وہ یہ شعر کھو دیتی ہیں اور ایسے ہی انہوں نے اپنا کافی کلام کھو دیا ہے۔