کیا لکھوں
دورِ جدید کا انسان اپنے آباؤ اجداد سے کافی مختلف ہے، اس میں انسانیت برائے نام ہے
اس مرتبہ اپنے ہفت وارکالم کیلئے میں کسی اور موضوع پر قلم اُٹھانے کا سوچ رہی تھی،کچھ ہلکا پھلکا، جس میں مزاح کا عنصر موجود ہوکیونکہ قارئین میں سے چند ایک کا خیال ہے کہ میں زیادہ تر لکھنے کیلئے سنجیدہ نوعیت کے موضوعات کا انتخاب کرتی ہوں۔ میرا ایسا ماننا ہے جب ہمارے اردگرد دنیا میں سب کچھ اتنا غلط ہو رہا ہو تو آپ کبوترکی طرح آنکھیں بند کر کے حقیقت سے نظریں چرا کر ''آل از ویل'' کا نعرہ لگاتے ہوئے احمق لگیں گے۔
انسان اور جانور میں کچھ فرق ہونا چاہیے، یہ جملہ پڑھ کر موجودہ دورکے ذی شعور انسان برا مان سکتے ہیں جو بے بس اور لاچار انسانوں سے زیادہ جانوروں کے حقوق پر اپنی آواز بلند کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جانوروں سے محبت کرنا اچھی بات ہے مگر دنیا میں موجود انگنت غریب، یتیم اور مسکین بچوں کی سرپرستی کرنے کے بجائے کسی جانور کو اولاد کے طور پر اپنانا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
خداوند کریم نے جس کو جو مقام عطا فرمایا ہے اُس کا احترام کرنا ہم پر لازم ہے بالکل اسی طرح جس کا جو کام ہے اُسے وہی سر انجام دینا چاہیے اور اپنے طرزِ اسلوب کو فراموش کر کے دوسروں کے اطوار اپنانے کی سنگین غلطی سے بچنا چاہیے۔ شیطان کا کام روزِ اوّل سے دنیا میں شر پھیلانا تھا مگر بہت عرصے سے یہ کام انسان کرنے لگا ہے اور اب تو وہ اس کام میں اتنا ماہر ہو چکا ہے کہ شیطان بے یقینی سے کبھی اُس کو اورکبھی خود کو دیکھتا ہے۔
دورِ جدید کا انسان اپنے آباؤ اجداد سے کافی مختلف ہے، اس میں انسانیت برائے نام ہے، یہ برائی کو برائی نہیں سمجھتا، جھوٹ، فریب، ظلم، جبر، زیادتی، بے شرمی، دوسروں کا حق کھانا اور اُنھیں ایذا پہنچا کر خوش ہونا اسے خوب بھاتا ہے۔ یہ محض نام کا انسان ہے جبکہ رنگ ڈھنگ کے لحاظ سے شیطان کا چیلہ ہے اور بعض معاملات میں شیطان کو بھی مات دے رہا ہے۔
دنیا میں ہر چند میل کے فاصلے پر انسان ہی انسان پر ظلم ڈھا رہا ہے، اُن کے زندہ رہنے کا بنیادی حق مسخ کر کے اُنھیں گاجر، مولی کی طرح بات بے بات کاٹ رہا ہے۔ ایسی درندگی کرتے ہوئے انسان کے ہاتھ کانپ رہے ہیں نہ روح، نجانے وہ اپنا اونچا مرتبہ اپنے پیروں سے کیوں روندنے پر تُلا ہے؟ اگر صرف ملک فلسطین کی بات کی جائے تو وہاں پچھلے سال اکتوبر کے مہینے سے اسرائیلی فوج روزانہ کی بنیاد پر انسانوں کو بیدردی سے شہید کر رہی ہے۔
تب سے اب تک مجموعی طور پر لاکھوں فلسطینی ہلاک کیے جاچکے ہیں، انگنت بے گھر اور لاپتہ ہوگئے ہیں اور بے شمار شدید زخمی ہیں۔ وقتِ حاضر کا المیہ ہے کہ اس دنیا میں موجود طاقتور ممالک اور بڑی بڑی شاہانہ اسلامی ریاستیں رقبے میں اسرائیل سے کئی گنا وسیع ہونے کے باوجود اُسے بے قصور فلسطینوں پر قیامت ڈھانے سے روک نہیں پا رہی ہیں۔ یقیناً وہ روکنا چاہتی ہی نہیں ہیں کیونکہ اسرائیل سے اُن کے لاتعداد ملکی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔
بے حسی، خود غرضی اور موقع پرستی دراصل آج کے انسان کی پہچان ہے اور اس کی زندگی کا نصب العین ضرورت پڑنے پرگدھے کو باپ بنانا ہے، اگر کسی فرد سے غرض جڑا ہو تو اسے اُس کی کوئی غلطی دکھائی نہیں دیتی ہے، دوسری طرف بے فائدہ افراد کی معمولی خطا بھی ناقابل معافی گناہ کا درجہ رکھتی ہے۔ انسانی معاشروں میں جیسے جیسے امیرکے وسائل اور غریب کی مجبوریوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ویسے ویسے ایک طبقے کا دوسرے کے ہاتھوں استحصال بھیانک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
ہم یہ کس طرح کے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر حادثے کے بعد جذبات سے عاری زبانی مذمت کردی جاتی ہے جبکہ عملاً کسی برائی، زیادتی اور بربریت کو روکنے کے لیے اقدامات ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں۔ ملکی حکومتوں سے عام افراد تک جس کا جدھر جتنا زور چل رہا ہے وہ چلا رہا ہے بِنا یہ سوچے اُن کا وقتی مفاد انسانی احساسات پر ضرب کاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔زمانۂ حال کے انسان کو اپنے ترقی پسند ہونے پر بڑا ناز ہے جس کا وہ اُٹھتے بیٹھتے ڈھنڈھورا پیٹتا رہتا ہے لیکن جب اُس کے کردار کا جائزہ لیں، ذہنیت کو پرکھیں تو یہ ناز صرف گمان اور خود فریبی کی زندہ مثال دکھائی دیتا ہے۔
عموماً ترقی پسند افراد، قدامت پسندوں سے زیادہ دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں جس کی جھلک اُن کے لاکھ چھپانے پر بھی نظر آ ہی جاتی ہے۔ یہ دہری شخصیت کے مالک ہوتے ہیں، ہجوم اور تنہائی میں ان کے رویے میں تضاد پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ اپنے مقابل کے کمزور یا طاقتور ہونے پر اُس کے ساتھ ان کے سلوک کا تعین ہوتا ہے۔ انسان جس رفتار سے اپنے ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے، اُتنی ہی تیزی سے اخلاقی اعتبار سے گرتا جا رہا ہے، وہ صحیح غلط،گناہ ثواب اور حرام حلال کے فرق کو بے خوفی سے مٹاتے ہوئے جوکچھ کرگزر رہا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے خوف سے روح کانپ جاتی ہے اور اپنے انسان ہونے پر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
جس طرح انسانی فطرت میں حیرت ناک تبدیلی واقع ہوئی ہے، ویسے ہی اس کے مشاغل بھی پہلے کی نسبت بدل چکے ہیں۔ ماضی میں انسان اپنی ذات کو سکون دینے والے کام کر کے مسرت محسوس کرتا تھا مگر اب وہ دوسرے انسان کی زندگی کا سکون برباد کر کے خود کو تسکین پہنچاتا ہے۔ دغا بازی میں اس دور کے انسان کا کوئی ثانی نہیں ہے، دھوکہ مالی اعتبار سے دیا جا رہا ہو یا کسی فرد کے جذبات کو مجروح کرنا ہدف ہو، نشانے پرکوئی آشنا ہو یا اجنبی، فریب میں مہارت شرطیہ ہے۔
عام طور پر ایسا کہا جاتا ہے، ''جب تک بے وقوف زندہ ہے چالاک بھوکا نہیں مر سکتا ہے'' اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جس طرح آج کی دنیا میں شاطر لوگوں کی بھرمار ہے اُسی طرح نادانوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ جدید دنیا میں قدم قدم پرکوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کو دھوکا دے رہا ہے کہیں برائے راست اور کہیں ڈیجیٹل مشینری کا سہارا لیکر مگر جب نقصان کا تخمینہ لگاؤ تو زیاں صرف انسانیت کو پہنچ رہا ہے۔
اس نئے دور کا انسان خود پرستی کا سر چشمہ ہے، اپنی ذات سے باہر اس کی سوچ کا دائرہ کم ہی وسیع ہوتا ہے، ایسے حالات میں کسی دوسرے انسان کیلئے دل میں وسعت رکھنا ناممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ اوروں کی کامیابیوں پر خوش ہونا اسے بلکل نہیں آتا ہے، اگر بات صرف یہیں تک رہتی تو کوئی حرج نہیں تھا لیکن انسان کی اس مطلبی طبیعت نے جذبۂ یگانگت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے جلن، حسد اور بغض کو اپنی فطرت میں مستقل طور پر شامل کر لیا ہے۔ انسان کے انھی منفی احساسات نے نظرے بدکے رجحان کو پروان چڑھایا ہے جس کے مضر اثرات آج پوری انسانی قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کتنا بدل گیا ہے انسان، خالق کی تمام مخلوقات پر فضیلت رکھنے والا، اشرف المخلوقات کا اعزاز پانے والا، دنیا میں حیوانوں سے زیادہ حیوانیت مچا رہا ہے۔ ''کیا لکھوں'' سے آغاز کر کے اتنا سب لکھنے کے بعد اب میں سوچ رہی ہوں،کیا انسان کے واپس انسان بننے کی کوئی اُمید باقی ہے؟