نئی دنیا
ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گے
گزشتہ دو ماہ کے دوران میں برطانیہ سمیت یورپ کے پانچ ممالک(نیدرلینڈ،جرمنی،ہنگری، آسٹریا اور ڈنمارک)کا دورہ کر کے واپس پاکستان پہنچا ہوں۔ جہاز کی ٹکٹ کی بکنگ سے لے کسی بھی ملک میں لینڈ کرنا اور وہاں امیگریشن کے مراحل سے گزرنا ماضی کی نسبت بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ اب دنیا فزیکل ورلڈ کے ساتھ ڈیجیٹل اور ورچول ورلڈ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔آج میں صرف اس چیز کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ مستقبل قریب میں دنیا میں کس قسم کی تبدیلیاں ہوں گی ۔
دْنیا میں مستقبل قریب میں کار ورکشاپس، آئل، ایگزاسٹ، اور ریڈی ایٹرز کی دکانیں ختم ہو جائیں گی۔پٹرول/ڈیزل کے انجن میں تقریبا 20,000 پرزے ہوتے ہیں جب کہ الیکٹرک کار انجن میں صرف 20 پرزے ہوتے ہیں۔ الیکٹرک کار کو لائف ٹائم وارنٹی کے ساتھ بیچا جاتا ہے ۔ ان کا انجن تبدیل کرنا صرف 10 منٹ کا کام ہوتا ہے۔ الیکٹرک کار کے خراب انجن کو روبوٹکس کی مدد سے ٹھیک کیا جائے گا۔
آپ اپنی کار انجن چینج کے لیے دے کر کافی پئیں گے اور اس عرصے میں کار کار نئے انجن کے ساتھ واپس مل جائے گی، آج پانچ دس سال بعد جنم لینے والے بچے موجودہ کاریں میوزیم میں دیکھیں گے۔ ایک وقت آئے گا جیسے وڈیو فلمز کی دکانیں غائب ہو گئیں، ویسے ہی پٹرول اسٹیشن بھی ختم ہو جائیں گے۔ سڑکوں پر الیکٹرک چارجنگ اسٹیشن نصب کیے جائیں گے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ مستقبل قریب میں کوئلے کی صنعت بھی ختم ہو جائے گی۔ سولر، ونڈ اور گرین انرجی سے گھروں میں بجلی پیدا کر کے ذخیرہ کی جائے گی تاکہ رات کو استعمال کی جائے۔
تصویری فلم بنانے والی کمپنی کوڈک کا نام اب نئی نسل کو تو شاید یاد بھی نہیں ہے۔ 1998 میں کوڈک کمپنی کے 1,70,000 ملازمین تھے اور یہ دنیا بھر میں 85 فیصد فوٹو پیپر (فلم) فروخت کرتی تھی۔ اب یہ بزنس ماڈل ختم ہو گیا ۔ کس نے سوچا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟ اگلے دس برسوں میں کئی صنعتیں ایسے ہی ختم ہوجائیں گی ۔ کیا آپ نے 1998 میں سوچا تھا کہ تین برس کے بعد، فلم کیمرے کا استعمال انتہائی کم ہوجائے گا؟
کتاب "Future Shock" کے مصنف Alvin Toffler "چوتھے صنعتی انقلاب" کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہوئے لکھتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے بین الاقوامی معاشرے پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، اس نے آیندہ نسلوں کی سماجی اور تخلیقی صلاحیتوں کو ایک ایسے دائرے میں داخل کر دیا ہے جس کا انھیںفی الحال ادراک نہیں ہے۔
مصنوعی ذہانت انقلاب کی ایک چھوٹی سی علامت ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں کی جگہ اب ایئر بی این بی دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے، جب کہ اس کے پاس نہ تو کوئی جائیداد ہے اور نہ اپنے ہوٹلز۔ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دنیا نے ایئر بی این بی کو دنیا بھر کا ایک ایسا رہائشی نیٹ ورک بنا دیا ہے جس کے ذریعے آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہر طرح کی رہائش بک کر سکتے ہیں۔
یہ نیٹ ورک ہوٹل کی مینجمنٹ سے رابطے، کلائنٹ کی بکنگ سے لے کر رہائشی اخراجات کی ادائیگی تک کی ذمے داری اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ اور اور ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے تمام کام سرانجام دیتا ہے۔آپ کو صرف نیٹ پر بکنگ کرانی ہے اور مقررہ دن اور وقت پر کسی بھی ملک میں پہنچ کر اپنی متعین رہائش حاصل کر لینی ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ مصنوعی ذہانت AI کمپیوٹرز نے تو دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔ امریکا کے نوجوان وکلاء کو نوکریاں نہیں مل رہیں، کیونکہ آپ کو سیکنڈز میں 90 فیصدکی درستگی کے ساتھ قانونی مشورے مل جاتے ہیں، جب کہ انسانوں کی درستگی 70 فیصد ہوتی ہے۔
لہٰذا اگر آپ قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو فوراً رک جائیں۔ مستقبل میں وکلاء کی تعداد 90 فیصد کم ہو جائے گی اور صرف ٹاپ لیگل ایکسپرٹس رہیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی مریضوں کی مدد کر رہی ہے، کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص میں (ڈاکٹروں کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ درست)۔ اسی طرح صحت اور ڈاکٹرز کے پیشے کو بھی نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گے۔ اس وقت دنیا میں پہلی خودکار گاڑی سامنے آ چکی ہے۔ایک اندازہ ہے کہآیندہ چند سالوں میں گاڑیوں کی پوری صنعت بدل جائے گی۔ آپ کار کی ملکیت نہیں چاہیں گے کیونکہ آپ ایک کار کو فون کریں گے اور وہ آ کر آپ کو آپ کی منزل تک لے جائے گی۔ آپ اپنی کار پارک نہیں کریں گے بلکہ سفر کی مسافت کے حساب سے ادائیگی کریں گے۔
آپ سفر کے دوران بھی کام کریں گے۔ آج کے بچے بڑے ہو کر ڈرائیونگ لائسنس نہیں لیں گے اور نہ ہی کبھی گاڑی کے مالک ہوں گے۔اس سے ہمارے شہر بدل جائیں گے۔ سڑکوں پر نوے فیصد گاڑیاں کم ہوجائیں گی۔ پارکنگ کے پرانے مقامات سبز باغات میں تبدیل ہو جائیں گے۔ہر سال 1.2 ملین لوگ گاڑی حادثات میں مر جاتے ہیں، جس میں شرابی ڈرائیونگ اور تیز رفتاری شامل ہے۔ خود کار گاڑیوں کی وجہ سے سالانہ ایک ملین لوگوں کی جان بچائی جائے گی۔
صرف وہ کارکمپنیاں بچ پائیں گی جو انقلابی انداز میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائیں گی ۔ کئی انٹرنیشنل کار کمپنیاں اس سمت میں کام کا آغاز کرچکی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 2030 تک الیکٹرک گاڑیاں عام ہو جائیں گی۔ ہم اپنے بچوں کا جائزہ لیں تو ان کی ذہنی صلاحیتوں میں حیران کن تبدیلیاں محسوس کریں گے وہ ٹیکنالوجی کی طرف پیدائشی طور پر مائل ہیں، ان کے لیے موبائل فون، کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس آپریٹ کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل لگتا ہے۔ رب نے کریم نئی نسل میں وہ صلاحیتیں پیدائش سے پہلے ہی ودیعت کر دیں ہیں۔
دْنیا میں مستقبل قریب میں کار ورکشاپس، آئل، ایگزاسٹ، اور ریڈی ایٹرز کی دکانیں ختم ہو جائیں گی۔پٹرول/ڈیزل کے انجن میں تقریبا 20,000 پرزے ہوتے ہیں جب کہ الیکٹرک کار انجن میں صرف 20 پرزے ہوتے ہیں۔ الیکٹرک کار کو لائف ٹائم وارنٹی کے ساتھ بیچا جاتا ہے ۔ ان کا انجن تبدیل کرنا صرف 10 منٹ کا کام ہوتا ہے۔ الیکٹرک کار کے خراب انجن کو روبوٹکس کی مدد سے ٹھیک کیا جائے گا۔
آپ اپنی کار انجن چینج کے لیے دے کر کافی پئیں گے اور اس عرصے میں کار کار نئے انجن کے ساتھ واپس مل جائے گی، آج پانچ دس سال بعد جنم لینے والے بچے موجودہ کاریں میوزیم میں دیکھیں گے۔ ایک وقت آئے گا جیسے وڈیو فلمز کی دکانیں غائب ہو گئیں، ویسے ہی پٹرول اسٹیشن بھی ختم ہو جائیں گے۔ سڑکوں پر الیکٹرک چارجنگ اسٹیشن نصب کیے جائیں گے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ مستقبل قریب میں کوئلے کی صنعت بھی ختم ہو جائے گی۔ سولر، ونڈ اور گرین انرجی سے گھروں میں بجلی پیدا کر کے ذخیرہ کی جائے گی تاکہ رات کو استعمال کی جائے۔
تصویری فلم بنانے والی کمپنی کوڈک کا نام اب نئی نسل کو تو شاید یاد بھی نہیں ہے۔ 1998 میں کوڈک کمپنی کے 1,70,000 ملازمین تھے اور یہ دنیا بھر میں 85 فیصد فوٹو پیپر (فلم) فروخت کرتی تھی۔ اب یہ بزنس ماڈل ختم ہو گیا ۔ کس نے سوچا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟ اگلے دس برسوں میں کئی صنعتیں ایسے ہی ختم ہوجائیں گی ۔ کیا آپ نے 1998 میں سوچا تھا کہ تین برس کے بعد، فلم کیمرے کا استعمال انتہائی کم ہوجائے گا؟
کتاب "Future Shock" کے مصنف Alvin Toffler "چوتھے صنعتی انقلاب" کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہوئے لکھتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے بین الاقوامی معاشرے پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، اس نے آیندہ نسلوں کی سماجی اور تخلیقی صلاحیتوں کو ایک ایسے دائرے میں داخل کر دیا ہے جس کا انھیںفی الحال ادراک نہیں ہے۔
مصنوعی ذہانت انقلاب کی ایک چھوٹی سی علامت ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں کی جگہ اب ایئر بی این بی دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے، جب کہ اس کے پاس نہ تو کوئی جائیداد ہے اور نہ اپنے ہوٹلز۔ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دنیا نے ایئر بی این بی کو دنیا بھر کا ایک ایسا رہائشی نیٹ ورک بنا دیا ہے جس کے ذریعے آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہر طرح کی رہائش بک کر سکتے ہیں۔
یہ نیٹ ورک ہوٹل کی مینجمنٹ سے رابطے، کلائنٹ کی بکنگ سے لے کر رہائشی اخراجات کی ادائیگی تک کی ذمے داری اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ اور اور ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے تمام کام سرانجام دیتا ہے۔آپ کو صرف نیٹ پر بکنگ کرانی ہے اور مقررہ دن اور وقت پر کسی بھی ملک میں پہنچ کر اپنی متعین رہائش حاصل کر لینی ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ مصنوعی ذہانت AI کمپیوٹرز نے تو دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔ امریکا کے نوجوان وکلاء کو نوکریاں نہیں مل رہیں، کیونکہ آپ کو سیکنڈز میں 90 فیصدکی درستگی کے ساتھ قانونی مشورے مل جاتے ہیں، جب کہ انسانوں کی درستگی 70 فیصد ہوتی ہے۔
لہٰذا اگر آپ قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو فوراً رک جائیں۔ مستقبل میں وکلاء کی تعداد 90 فیصد کم ہو جائے گی اور صرف ٹاپ لیگل ایکسپرٹس رہیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی مریضوں کی مدد کر رہی ہے، کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص میں (ڈاکٹروں کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ درست)۔ اسی طرح صحت اور ڈاکٹرز کے پیشے کو بھی نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گے۔ اس وقت دنیا میں پہلی خودکار گاڑی سامنے آ چکی ہے۔ایک اندازہ ہے کہآیندہ چند سالوں میں گاڑیوں کی پوری صنعت بدل جائے گی۔ آپ کار کی ملکیت نہیں چاہیں گے کیونکہ آپ ایک کار کو فون کریں گے اور وہ آ کر آپ کو آپ کی منزل تک لے جائے گی۔ آپ اپنی کار پارک نہیں کریں گے بلکہ سفر کی مسافت کے حساب سے ادائیگی کریں گے۔
آپ سفر کے دوران بھی کام کریں گے۔ آج کے بچے بڑے ہو کر ڈرائیونگ لائسنس نہیں لیں گے اور نہ ہی کبھی گاڑی کے مالک ہوں گے۔اس سے ہمارے شہر بدل جائیں گے۔ سڑکوں پر نوے فیصد گاڑیاں کم ہوجائیں گی۔ پارکنگ کے پرانے مقامات سبز باغات میں تبدیل ہو جائیں گے۔ہر سال 1.2 ملین لوگ گاڑی حادثات میں مر جاتے ہیں، جس میں شرابی ڈرائیونگ اور تیز رفتاری شامل ہے۔ خود کار گاڑیوں کی وجہ سے سالانہ ایک ملین لوگوں کی جان بچائی جائے گی۔
صرف وہ کارکمپنیاں بچ پائیں گی جو انقلابی انداز میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائیں گی ۔ کئی انٹرنیشنل کار کمپنیاں اس سمت میں کام کا آغاز کرچکی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 2030 تک الیکٹرک گاڑیاں عام ہو جائیں گی۔ ہم اپنے بچوں کا جائزہ لیں تو ان کی ذہنی صلاحیتوں میں حیران کن تبدیلیاں محسوس کریں گے وہ ٹیکنالوجی کی طرف پیدائشی طور پر مائل ہیں، ان کے لیے موبائل فون، کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس آپریٹ کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل لگتا ہے۔ رب نے کریم نئی نسل میں وہ صلاحیتیں پیدائش سے پہلے ہی ودیعت کر دیں ہیں۔