حالات کی سنگینی کا احساس کرنا ہوگا
اس وقت ہمیں واقعی اپنے ریاستی و حکومتی نظام کو نقائص اور کنفوژن سے پاک کرنے کی ضرورت ہے
ایک بنیادی بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ہمارا ادارہ جاتی نظام یا ریاست اور حکومت کو چلانے والا سسٹم اپنے سنگین دور سے گزررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کو انتظامی ، آئینی ، قانونی سمیت معیشت کے محاذ پر چیلنجز کا سامنا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ یا تو ہمارے سسٹم میں شامل افسر شاہی، عدلیہ اورمقننہ کے ارکان میں عصری چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں ہے یا سسٹم کے اسٹیک ہولڈرزجان بوجھ غلط ترجیحات متعین کرکے سسٹم کو کھوکھلا کررہے ہیں۔
قومی مسائل سے نمٹنے کے لیے جو بھی حکمت عملیاں ، پالیسیاں یا قانون سازی ہوتی ہے، اس کے نتیجے میں نظریاتی کنفوژن اور انتہاپسندی پہلے سے زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ یہ کنفوژن اور انتہاپسندی ملک میں فرقہ واریت اور باہمی نفرتوں میں اضافہ کررہی ہے ، کاروباری سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔
متمدن ممالک میں پاکستان کی تجارت کے امکانات کم ہورہے ہیں۔یوں ہمار ے مسائل کم نہیں بلکہ مزید بڑھ رہے ہیں ۔یہ محسوس بھی ہوتا ہے کہ طاقت ور طبقات کے مالی مفادات ریاست کے مفادات پر بالادست ہوگئے ہیں۔ اصل مسئلہ واضح ،منصفانہ اور شفاف روڈ میپ کی کمی کا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر سطح پر بداعتمادی اور خلیج کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔یہ صورتحال ریاست کے مجموعی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔
جب ہمارا ریاستی ڈھانچہ کمزورہے تولوگوں میں مایوسی اورغیر یقینی کی کیفیت کا پیدا ہونا لازم ہے اور اسی بنیاد پر ہماری داخلی ، علاقائی اور عالمی سطح پر موجود ساکھ پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔ حکمرانی کا نظام محروم طبقات کا تحفظ کرتاہے ۔جو کچھ اس وقت بلوچستان میں ہورہا ہے یا جو کچھ خیبر پختونخوا کے چند اضلاع میں ہورہا ہے ، دونوں صوبوں کی حکومتوں کا اس معاملے میں کردار غیرفعالیت پر مبنی نظر آتا ہے ۔
حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے اور لیکن صوبائی حکومتوں کا رسپانس خاموشی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ یا وہ سارا ذمے دار وفاقی حکومت اور فوج پر ڈال کر خود کو ہر ذمے داری سے الگ کر لیتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین جن فرائض کی بجا آوری کی تنخواہیں اور مراعات وصول کررہے ہیں، وہ فرائض ادا نہیں کیے جارہے۔
ان صوبوں کے ارکان اسمبلی، وزیراعلیٰ، اسپیکر، وزراء ،معاونین وغیرہ بھی سرکاری خزانے سے تنخواہوں، مراعات اور پروٹول کول انجوائے کررہے ہیں لیکن صوبے کی تعمیروترقی کے لیے ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔اہم بات ہمارے سسٹم میں آئین و قانون کی حقیقی حکمرانی کے فقدان کا ہے۔
ہم نے آئین وقانون کو پیچھے چھوڑ کر اپنی مرضی کا نظام اختیار کیا ہوا ہے ، اس کی موجودگی میں کیسے آگے بڑھاجاسکے گا۔ ملک میں سیاست ،جمہوریت، آئین و قانون ، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مختلف مسائل کا سامنا ہے ۔ یہ سب کمزوری کی طرف بڑھ رہے ہیں اورہم ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیںجو ملک سمیت باہر کی دنیا کو بھی قبول نہیں ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں قومی مسائل کو اہمیت دینے کے بجائے غیر ضروری مسائل اور سیاسی منافرت، صوبائیت ، لسانیت اور مذہبی انتہا پسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
یہ ایجنڈا ہمیں آگے نہیں بلکہ پیچھے کی طرف لے کر جارہا ہے۔اس وقت ہمیں واقعی اپنے ریاستی و حکومتی نظام کو نقائص اور کنفوژن سے پاک کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ نظام عوام پر زبردستی رائج کرنے سے گریز کرناہوگا۔کیونکہ جو بھی نظام عوامی مفادات سے متصادم ہوگا، وہ موجود مسائل یا چیلنجز سے نمٹ نہیں سکتا ۔اس وقت ریاست و حکومت کے نظام میں ملک کے جس حصہ میں سے بھی متبادل آوازیں اٹھ رہی ہیں، ان کو سننا بھی ہوگا اور لوگوں کو مطمن بھی کرنا ہوگا کہ ہم لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہمیں زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔قومی سیاست سے اصلاحات کے عمل کا نہ ہونا جہاں ذاتی مفادات کی سیاست ہے وہیں ایک کمزور سا سیاسی حکومتی نظام کی موجودگی کسی بھی سطح پر ایسی اصلاحات کو ممکن نہیں بناسکے گا جو ہماری ترجیحی ضرورت بنتی ہیں ۔ ردعمل کی سیاست کے مقابلے میں ہمیں ٹھوس بنیادوں پر ایسی حکمت عملیاں اختیار کرنی ہے جو ایک مضبوط ریاست اور پاکستان کی طرف پیش قدمی میں ہماری مدد کرسکے۔
نظام عدل میں ابہام ہمیں نئے بحران کی طرف لے کر جائے گا۔پی ٹی آئی کے بارے میںبھی جو پالیسی ہے اس میں تصادم کو پیچھے چھوڑ کر سیاسی سطح پر سیاسی حکمت عملیوں کو ہی اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس تصادم نے ہماری معیشت کو بڑا نقصان پہلے ہی پہنچادیا ہے اور اگر یہ تصادم نہیں رکے گا تو معیشت کے معاملات میں اور زیادہ بگاڑ دیکھنے کو ملے گا۔
جب تک ہم ریاست اور حکومت کے نظام میں موجود خرابیوں کی درست تشخیص نہیں کریں گے یا دیانت داری سے حالات کا تجزیہ کرکے عملا ذمے داروں کاتعین نہیں کریں گے توکیسے آگے بڑھنے کا منصفانہ اور شفاف روڈ میپ سامنے آسکے گا۔اس وقت جو بحران ہے وہ قانونی اور سیاسی نوعیت کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے۔
کیونکہ قانون اور آئین کو بنیاد بنا کر ہم اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کو ہم آگے بڑھا رہے ہیں۔ ملک غلطیوں کی پہلے ہی کافی سزا بھگت چکا ہے اور آج بھی بھگت رہا ہے ۔ مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔کیونکہ سیاسی اور جمہوری نظام میں آئین و قانون کی بالادستی کا عمل اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم سیاسی اور جمہوری بنیادوں پر آگے بڑھیں گے۔لوگوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرکے ان معیار زندگی کو بہتر بنا کر ہی ہم نظام کی قبولیت کو ممکن بناسکتے ہیں ۔
قومی مسائل سے نمٹنے کے لیے جو بھی حکمت عملیاں ، پالیسیاں یا قانون سازی ہوتی ہے، اس کے نتیجے میں نظریاتی کنفوژن اور انتہاپسندی پہلے سے زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ یہ کنفوژن اور انتہاپسندی ملک میں فرقہ واریت اور باہمی نفرتوں میں اضافہ کررہی ہے ، کاروباری سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔
متمدن ممالک میں پاکستان کی تجارت کے امکانات کم ہورہے ہیں۔یوں ہمار ے مسائل کم نہیں بلکہ مزید بڑھ رہے ہیں ۔یہ محسوس بھی ہوتا ہے کہ طاقت ور طبقات کے مالی مفادات ریاست کے مفادات پر بالادست ہوگئے ہیں۔ اصل مسئلہ واضح ،منصفانہ اور شفاف روڈ میپ کی کمی کا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر سطح پر بداعتمادی اور خلیج کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔یہ صورتحال ریاست کے مجموعی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔
جب ہمارا ریاستی ڈھانچہ کمزورہے تولوگوں میں مایوسی اورغیر یقینی کی کیفیت کا پیدا ہونا لازم ہے اور اسی بنیاد پر ہماری داخلی ، علاقائی اور عالمی سطح پر موجود ساکھ پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔ حکمرانی کا نظام محروم طبقات کا تحفظ کرتاہے ۔جو کچھ اس وقت بلوچستان میں ہورہا ہے یا جو کچھ خیبر پختونخوا کے چند اضلاع میں ہورہا ہے ، دونوں صوبوں کی حکومتوں کا اس معاملے میں کردار غیرفعالیت پر مبنی نظر آتا ہے ۔
حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے اور لیکن صوبائی حکومتوں کا رسپانس خاموشی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ یا وہ سارا ذمے دار وفاقی حکومت اور فوج پر ڈال کر خود کو ہر ذمے داری سے الگ کر لیتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین جن فرائض کی بجا آوری کی تنخواہیں اور مراعات وصول کررہے ہیں، وہ فرائض ادا نہیں کیے جارہے۔
ان صوبوں کے ارکان اسمبلی، وزیراعلیٰ، اسپیکر، وزراء ،معاونین وغیرہ بھی سرکاری خزانے سے تنخواہوں، مراعات اور پروٹول کول انجوائے کررہے ہیں لیکن صوبے کی تعمیروترقی کے لیے ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔اہم بات ہمارے سسٹم میں آئین و قانون کی حقیقی حکمرانی کے فقدان کا ہے۔
ہم نے آئین وقانون کو پیچھے چھوڑ کر اپنی مرضی کا نظام اختیار کیا ہوا ہے ، اس کی موجودگی میں کیسے آگے بڑھاجاسکے گا۔ ملک میں سیاست ،جمہوریت، آئین و قانون ، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مختلف مسائل کا سامنا ہے ۔ یہ سب کمزوری کی طرف بڑھ رہے ہیں اورہم ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیںجو ملک سمیت باہر کی دنیا کو بھی قبول نہیں ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں قومی مسائل کو اہمیت دینے کے بجائے غیر ضروری مسائل اور سیاسی منافرت، صوبائیت ، لسانیت اور مذہبی انتہا پسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
یہ ایجنڈا ہمیں آگے نہیں بلکہ پیچھے کی طرف لے کر جارہا ہے۔اس وقت ہمیں واقعی اپنے ریاستی و حکومتی نظام کو نقائص اور کنفوژن سے پاک کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ نظام عوام پر زبردستی رائج کرنے سے گریز کرناہوگا۔کیونکہ جو بھی نظام عوامی مفادات سے متصادم ہوگا، وہ موجود مسائل یا چیلنجز سے نمٹ نہیں سکتا ۔اس وقت ریاست و حکومت کے نظام میں ملک کے جس حصہ میں سے بھی متبادل آوازیں اٹھ رہی ہیں، ان کو سننا بھی ہوگا اور لوگوں کو مطمن بھی کرنا ہوگا کہ ہم لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہمیں زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔قومی سیاست سے اصلاحات کے عمل کا نہ ہونا جہاں ذاتی مفادات کی سیاست ہے وہیں ایک کمزور سا سیاسی حکومتی نظام کی موجودگی کسی بھی سطح پر ایسی اصلاحات کو ممکن نہیں بناسکے گا جو ہماری ترجیحی ضرورت بنتی ہیں ۔ ردعمل کی سیاست کے مقابلے میں ہمیں ٹھوس بنیادوں پر ایسی حکمت عملیاں اختیار کرنی ہے جو ایک مضبوط ریاست اور پاکستان کی طرف پیش قدمی میں ہماری مدد کرسکے۔
نظام عدل میں ابہام ہمیں نئے بحران کی طرف لے کر جائے گا۔پی ٹی آئی کے بارے میںبھی جو پالیسی ہے اس میں تصادم کو پیچھے چھوڑ کر سیاسی سطح پر سیاسی حکمت عملیوں کو ہی اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس تصادم نے ہماری معیشت کو بڑا نقصان پہلے ہی پہنچادیا ہے اور اگر یہ تصادم نہیں رکے گا تو معیشت کے معاملات میں اور زیادہ بگاڑ دیکھنے کو ملے گا۔
جب تک ہم ریاست اور حکومت کے نظام میں موجود خرابیوں کی درست تشخیص نہیں کریں گے یا دیانت داری سے حالات کا تجزیہ کرکے عملا ذمے داروں کاتعین نہیں کریں گے توکیسے آگے بڑھنے کا منصفانہ اور شفاف روڈ میپ سامنے آسکے گا۔اس وقت جو بحران ہے وہ قانونی اور سیاسی نوعیت کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے۔
کیونکہ قانون اور آئین کو بنیاد بنا کر ہم اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کو ہم آگے بڑھا رہے ہیں۔ ملک غلطیوں کی پہلے ہی کافی سزا بھگت چکا ہے اور آج بھی بھگت رہا ہے ۔ مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔کیونکہ سیاسی اور جمہوری نظام میں آئین و قانون کی بالادستی کا عمل اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم سیاسی اور جمہوری بنیادوں پر آگے بڑھیں گے۔لوگوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرکے ان معیار زندگی کو بہتر بنا کر ہی ہم نظام کی قبولیت کو ممکن بناسکتے ہیں ۔