موسمیاتی تبدیلی اور ہم
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جو پوری دنیا میں لوگوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔کچھ ممالک میں اس تبدیلی کے اثرات زیادہ شدید نوعیت کے ہیں، جن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں وسائل کی کمی، پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور حکومتی سطح پر پالیسیوں کی عدم موجودگی شامل ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی ایک وجہ تو گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہے۔ پاکستان کا عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں حصہ تقریبا 1 فیصد ہے، لیکن اس کے باوجود ملک کو اس کے اثرات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد، توانائی کے روایتی طریقوں کا استعمال اور دیگر عوامل کی وجہ ہوا میں کاربن کا اخراج بڑھ رہا ہے۔ ان گیسز کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی بڑھی ہے اور جس کی بدولت شہریوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستان میں جنگلات کی تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر سال تقریبا 27000 ایکڑ جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ پاکستانی کے کل رقبے کا صرف 5 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے، جب کہ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے رقبے کا کم از کم 25 فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس وقت بہت ضروری ہے کہ ملک میں درخت لگائے جائیں، تاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی گرمی اور آلودگی کو کم کیا جاسکے۔اس وقت پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، جو موسمیاتی تبدیلی کا ایک بڑا سبب ہے۔ بارشوں میں کمی،گلیشیئر کے پگھلنے اور پانی کے ذخائر کی ناقص منصوبہ بندی نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران درجہ حرارت میں 0.6 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2022 میں سندھ کے شہر جیکب آباد میں درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا جو دنیا کے گرم ترین مقامات میں شمار کیا گیا تھا۔ درجہ حرارت میں اضافے سے صحت، زراعت اور پانی کے وسائل پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب، خشک سالی، طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ جیسی قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2010 کے سیلاب نے ملک کی ایک بڑی آبادی کو متاثر کیا اور ملک کی معیشت کو تقریبا دس ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا تھا۔اس کے علاوہ 2022 میں بھی پاکستان کو شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، جس نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا تھا۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ پاکستان میں 5000 سے زائد گلیشیئر ہیں جن میں سے کئی کے پگھلنے کی رفتار تیز ہوگئی ہے، یہ صورتحال مستقبل میں پانی کی شدید قلت کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان میں نیشنل کلائیمٹ چینج پالیسی متعارف کرائی گئی جس کا مقصد ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانا تھا۔ اس کے علاوہ 2021 میں گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر زور دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں جنگلات کی بحالی کے لیے 2019 میں ٹین بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت دس ارب درخت لگانے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں ایک ارب درخت لگائے جا چکے ہیں۔ یہ پروگرام UNEP یعنی United Nation Environment Programme کی شراکت سے عمل میں آیا ہے۔
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی ماحولیاتی مسائل کے حل میں ایک رکاوٹ ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی وجہ سے ماحول کو خطرہ ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی 24 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور اس وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر اس آبادی پر پڑرہا ہے۔ پاکستان میں توانائی کے روایتی ذرایع جیسے کوئلہ اور تیل کے بجائے سولر اور ونڈ پاور جیسے قابل تجدید ذرایع کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ 2030 تک حکومت کا ہدف ہے کہ ملک کی توانائی کا 30 فیصد حصہ قابل تجدید ذرایع سے حاصل کیا جائے، تاکہ قابل تجدید توانائی کو فروغ حاصل ہو۔ اگر پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کوکم کرنے اور اپنے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے لیے اقدامات کرے، تو مستقبل میں ملک معاشی اور سماجی طور پر مستحکم ہو سکتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اپنی معیشت کو سبز معیشت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ماحول دوست صنعتوں اور ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرے۔دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اپنے پانی کے ذخائر کی بہتر منصوبہ بندی کرے۔ ڈیمز کی تعمیر اور پانی کے موثر استعمال کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس سے پاکستان کے پانی کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت، عوام اور نجی شعبے کو مل کر موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ ملک کو مستقبل میں ماحولیاتی بحرانوں سے بچایا جاسکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے تاکہ نئی نسل ان مسائل سے آگاہ ہوں اور ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت، عوام اور نجی شعبے کو مل کر موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ ملک کو مستقبل میں ماحولیاتی بحرانوں سے بچایا جاسکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے تاکہ نئی نسل ان مسائل سے آگاہ ہوں اور ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔ عوامی سطح پر آگاہی مہم شروع کی جائیں تاکہ شہریوں کو اپنی ذمے داری کا احساس ہو۔
پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پالیسی سطح پر اور انفرادی و اجتماعی سطح پر اقدامات ضروری ہیں۔ پاکستان کو ان اقدامات کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے میں خاطر خواہ بہتری حاصل ہوسکتی ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جدید زرعی تکنیک سکھائی جائیں۔ حیاتیاتی کھادوں اور نامیاتی کھیتی کو فروغ دیا جائے تاکہ زمین کی زرخیزی اور پانی کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں سے سب سے زیادہ بچیاں اور عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔ United Nationsکے ایک اندازے کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ بے گھر بھی عورتیں اور بچیاں ہی ہوتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں جہاں موسمیاتی بحران آتے ہیں، لڑکیوں کو زیادہ تر اسکول سے نکال دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے خاندانوں کی مدد کرسکیں اور اس طرح جنس کی عدم برابری مزید گہری ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں اکثر پانی بھرنے کی ذمے داری خواتین اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ حاملہ خواتین خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی سے منسلک بیماریوں جیسے ملیریا، گرمی کی شدت اور غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں۔ غرض موسمیاتی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات پر اگر جلد ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو ایسے حالات اور نقصانات کا سامنا ہوگا، جن کا ازالہ بہت مشکل ہوجائے گا۔
موسمیاتی تبدیلی کی ایک وجہ تو گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہے۔ پاکستان کا عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں حصہ تقریبا 1 فیصد ہے، لیکن اس کے باوجود ملک کو اس کے اثرات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد، توانائی کے روایتی طریقوں کا استعمال اور دیگر عوامل کی وجہ ہوا میں کاربن کا اخراج بڑھ رہا ہے۔ ان گیسز کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی بڑھی ہے اور جس کی بدولت شہریوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستان میں جنگلات کی تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر سال تقریبا 27000 ایکڑ جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ پاکستانی کے کل رقبے کا صرف 5 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے، جب کہ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے رقبے کا کم از کم 25 فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس وقت بہت ضروری ہے کہ ملک میں درخت لگائے جائیں، تاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی گرمی اور آلودگی کو کم کیا جاسکے۔اس وقت پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، جو موسمیاتی تبدیلی کا ایک بڑا سبب ہے۔ بارشوں میں کمی،گلیشیئر کے پگھلنے اور پانی کے ذخائر کی ناقص منصوبہ بندی نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران درجہ حرارت میں 0.6 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2022 میں سندھ کے شہر جیکب آباد میں درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا جو دنیا کے گرم ترین مقامات میں شمار کیا گیا تھا۔ درجہ حرارت میں اضافے سے صحت، زراعت اور پانی کے وسائل پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب، خشک سالی، طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ جیسی قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2010 کے سیلاب نے ملک کی ایک بڑی آبادی کو متاثر کیا اور ملک کی معیشت کو تقریبا دس ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا تھا۔اس کے علاوہ 2022 میں بھی پاکستان کو شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، جس نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا تھا۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ پاکستان میں 5000 سے زائد گلیشیئر ہیں جن میں سے کئی کے پگھلنے کی رفتار تیز ہوگئی ہے، یہ صورتحال مستقبل میں پانی کی شدید قلت کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان میں نیشنل کلائیمٹ چینج پالیسی متعارف کرائی گئی جس کا مقصد ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانا تھا۔ اس کے علاوہ 2021 میں گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر زور دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں جنگلات کی بحالی کے لیے 2019 میں ٹین بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت دس ارب درخت لگانے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں ایک ارب درخت لگائے جا چکے ہیں۔ یہ پروگرام UNEP یعنی United Nation Environment Programme کی شراکت سے عمل میں آیا ہے۔
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی ماحولیاتی مسائل کے حل میں ایک رکاوٹ ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی وجہ سے ماحول کو خطرہ ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی 24 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور اس وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر اس آبادی پر پڑرہا ہے۔ پاکستان میں توانائی کے روایتی ذرایع جیسے کوئلہ اور تیل کے بجائے سولر اور ونڈ پاور جیسے قابل تجدید ذرایع کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ 2030 تک حکومت کا ہدف ہے کہ ملک کی توانائی کا 30 فیصد حصہ قابل تجدید ذرایع سے حاصل کیا جائے، تاکہ قابل تجدید توانائی کو فروغ حاصل ہو۔ اگر پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کوکم کرنے اور اپنے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے لیے اقدامات کرے، تو مستقبل میں ملک معاشی اور سماجی طور پر مستحکم ہو سکتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اپنی معیشت کو سبز معیشت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ماحول دوست صنعتوں اور ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرے۔دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اپنے پانی کے ذخائر کی بہتر منصوبہ بندی کرے۔ ڈیمز کی تعمیر اور پانی کے موثر استعمال کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس سے پاکستان کے پانی کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت، عوام اور نجی شعبے کو مل کر موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ ملک کو مستقبل میں ماحولیاتی بحرانوں سے بچایا جاسکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے تاکہ نئی نسل ان مسائل سے آگاہ ہوں اور ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت، عوام اور نجی شعبے کو مل کر موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ ملک کو مستقبل میں ماحولیاتی بحرانوں سے بچایا جاسکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے تاکہ نئی نسل ان مسائل سے آگاہ ہوں اور ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔ عوامی سطح پر آگاہی مہم شروع کی جائیں تاکہ شہریوں کو اپنی ذمے داری کا احساس ہو۔
پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پالیسی سطح پر اور انفرادی و اجتماعی سطح پر اقدامات ضروری ہیں۔ پاکستان کو ان اقدامات کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے میں خاطر خواہ بہتری حاصل ہوسکتی ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جدید زرعی تکنیک سکھائی جائیں۔ حیاتیاتی کھادوں اور نامیاتی کھیتی کو فروغ دیا جائے تاکہ زمین کی زرخیزی اور پانی کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں سے سب سے زیادہ بچیاں اور عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔ United Nationsکے ایک اندازے کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ بے گھر بھی عورتیں اور بچیاں ہی ہوتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں جہاں موسمیاتی بحران آتے ہیں، لڑکیوں کو زیادہ تر اسکول سے نکال دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے خاندانوں کی مدد کرسکیں اور اس طرح جنس کی عدم برابری مزید گہری ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں اکثر پانی بھرنے کی ذمے داری خواتین اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ حاملہ خواتین خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی سے منسلک بیماریوں جیسے ملیریا، گرمی کی شدت اور غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں۔ غرض موسمیاتی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات پر اگر جلد ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو ایسے حالات اور نقصانات کا سامنا ہوگا، جن کا ازالہ بہت مشکل ہوجائے گا۔