نیا جھنڈا ترانہ اور آئین مبارک

بنگلہ دیش کی نئی انتظامیہ نے بھارت نواز پالیسی کو خیرباد کہہ کر آزاد خارجہ پالیسی اپنا لی ہے

حال ہی میں ملک میں جوش و خروش سے یوم دفاع پاکستان منایا گیا۔ تمام فوجی اور حکومتی ارکان کی جانب سے ملک کو یکجا رکھنے اور اسے ناقابل تسخیر بنانے کا عہد کیا گیا۔ ملک کو اگر اپنی ابتدا سے ہی دہشت گردی اور علیحدگی کا خطرہ تھا تو وہ آج بھی موجود ہے۔ جہاں تک ملک کے دولخت ہونے کا معاملہ ہے اسے قوم نے بھلایا نہیں ہے مگر اس سے کچھ سبق بھی نہیں لیا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ اگر مشرقی پاکستان کی محرومیوں کا ازالہ کر دیا جاتا تو شاید ملک نہ ٹوٹتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں سے غلطیاں ہوئی ہیں اور اس سے بھارت نے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ شیخ مجیب اور اس کے رفقا نے بھارتی ایجنٹ ہونا قبول کر لیا تھا اور پھر 1970 کے الیکشن میں بنگلہ قومیت اور مغربی پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر بنگلہ دیش کا قیام ممکن بنا دیا تھا، شیخ مجیب کو اس کی بھارت نوازی کی وجہ سے بنگلہ دیش کا وزیر اعظم رہنے کا اعزاز حاصل ہوا مگر اس کی عوام دشمن پالیسی کی وجہ سے فوج کے کچھ وطن پرست افسران نے اسے، اس کی بیوی، بیٹوں اور پوتے پوتیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

جب اس کی بیٹی حسینہ واجد وزیر اعظم بنی تو اس نے بھارت نوازی کی انتہا کردی۔ اس نے 15 سال تک بنگلہ دیش پر حکومت کی۔ انھوں نے بھارت کو اس کی شورش زدہ مشرقی ریاستوں تک پہنچنے کے لیے راہ داری کی سہولت بھی فراہم کر دی تھی جب کہ اس کے بنگلہ دیشی عوام اور سیاستدان سخت خلاف تھے۔

حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی تمام سیاسی پارٹیوں کو دیوار سے لگا دیا تھا۔ جماعت اسلامی پر تو ظلم کی انتہا کردی تھی۔ اس پر دائمی پابندی لگا دی تھی۔ عوامی لیگ اور حسینہ کے خلاف بولنے والوں کے لیے قید کرنے کے لیے ایک خصوصی ظالمانہ جیل بنائی گئی تھی جسے '' شیشہ گھر'' کا نام دیا گیا تھا۔ حسینہ کے 15 سالہ دور میں تین عام انتخابات ہوئے مگر وہ ہر ایک میں بھارت کی مدد سے کامیاب ہوتی رہیں۔


حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں نے تینوں عام انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ بنگلہ دیشی عوام میں حسینہ کے خلاف اشتعال بڑھتا جا رہا تھا۔ کہنے کو تو حسینہ نے بنگلہ دیش کو ایک خوشحال ملک بنا دیا تھا مگر اس سے عوام کو کوئی بھی فائدہ نہیں تھا۔ ہزاروں نوجوان ہر سال تعلیم سے فارغ ہو کر نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔

مکتی باہنی کی اولادوں کے لیے سرکاری نوکریوں کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ بالآخر طلبا نے تنگ آ کر حسینہ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور پھر حسینہ سے برسوں سے بے زار عوام اور سیاسی کارکنان طلبا کے احتجاج میں شامل ہو گئے۔ پھر حسینہ کواپنے وطن سے بھاگ کر بھارت میں پناہ لینا پڑی۔ اب وہ وہاں بیٹھ کر بنگلہ دیش کی موجودہ انتظامیہ کے خلاف بیان بازی کررہی ہیں مگر انھیں کیا پتا کہ ان کا بھارت میں رہنا مودی کو کتنا مہنگا پڑ رہا ہے، وہ جلدازجلد انھیں بھارت سے نکالنا چاہتا ہے مگر کوئی بھی ملک حسینہ کو اپنے ہاں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ایسے میں مودی کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ اس کی مشرقی ریاستوں میں شورش میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور اب وہاں تک فوراً پہنچنے کے لیے بنگلہ دیش سے راہ داری کی سہولت ختم ہو چکی ہے۔

بنگلہ دیش کی نئی انتظامیہ نے بھارت نواز پالیسی کو خیرباد کہہ کر آزاد خارجہ پالیسی اپنا لی ہے۔ نئی انتظامیہ کے سربراہ محمد یونس نے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے اور حسینہ واجد کو جو سیکڑوں بنگلہ دیشیوں کی قاتل ہیں، انھیں بنگلہ دیش کے حوالے کر دے تاکہ ان پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکے۔ بنگلہ دیش کی انتظامیہ کے سربراہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان سے بنگالی عوام کی کوئی دشمنی نہیں ہے، وہ جلدازجلد بنگلہ دیش کا جھنڈا، ترانہ اور آئین تبدیل کرنے والے ہیں۔

بنگلہ دیش واضح طور پر ایک مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن بھارت کی ایما پر رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک بنگلہ قومیت پر مبنی نظم کو قومی ترانہ بنایا گیا تھا، اسی طرح وہاں کا جھنڈا بھی بھارت کا ڈیزائن کردہ ہے اور بھارتی آئین سے ملتا جلتا سیکولر آئین بھی نافذ کیا گیا تھا۔ اب بھارتی حکمرانوں کو تشویش ہے کہ اگر یہ تمام چیزیں تبدیل ہوگئیں اور بنگلہ دیش کے پاکستان سے تعلقات برادرانہ ہو گئے تو ان کی بنگلہ دیش بنانے کی ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔
Load Next Story