سپریم کورٹ وضاحت کے بعد آئینی ترمیم کا مستقبل دھندلا گیا

جنرل الیکشن 90 دن کی مدت کے اندر نہ کرانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں

(فوٹو: فائل)

مخصوص سیٹوں کے حوالے سے 12 جولائی کے فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کی درخواست سے متعلق وضاحت کے بعد مجوزہ آئینی ترمیم کا معاملہ بھی لٹک گیا ہے کیونکہ اس کو بھی سپریم کورٹ قانونی سقم کی وجہ سے ختم کر سکتی ہے۔

اگرچہ حکومت نے آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی پوری تیار ی کرلی ہے لیکن حکومت کو اس معاملہ میں ابھی کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے ہی الیکشن کمیشن بھی مخصوص سیٹوں پر عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے کے باعث مشکلات میں ہے۔

جنرل الیکشن 90 دن کی مدت کے اندر نہ کرانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح 8 فروری کے الیکشن کی شفافیت سے متعلق بھی الیکشن کمیشن تنقید کی زد میں ہے، پی ٹی آئی دھاندلی کا الزام الیکشن کمیشن پر ہی لگا رہی ہے۔


ایڈووکیٹ عبد المعیز جعفری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سمجھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت کہا اور پھر بھی وہ کوشش کر رہا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی کوتاہی کے تحت ہی پارٹی کے ارکان کو شناخت سے محروم رکھا جا سکے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن عدالت میں اپنا کامیابی سے پیش نہیں کر سکا۔

سپریم کورٹ نے سمجھا کہ غیر مصدقہ وجوہات کی بنا پر عدالت کے احکامات پر عمل میں جان بوجھ کر تاخیر کی جارہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اگر جمعیت علمائے اسلام کے قانون ساز بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے دیں تو پھر بھی حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں تین ارکان کی کمی موجود ہے۔

سابق ایڈیشنل جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا ہے کہ یہ مکمل استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے والے الیکشن کمیشن کو عدالت کی سرزنش ہے ۔ سپریم کورٹ کے حکم نے الیکشن کمیشن کو اس کی غیر قانونی چالوں اور اس کے نتائج کی یاد دہانی کرائی ہے۔
Load Next Story