دنیا بھر سے بھارت کیا پاکستان کا پانی بحال کردیگا

بھارت کے خود کو بڑا ثابت کرنے کے لیے تمام پڑوسیوں سمیت پاکستان کے حوالے سے سازشی پالیسی سے باہر نکلنا ہوگا

پاک بھارت حکومتوں کو یہ بات تو سمجھ آگئی ہوگی کہ پانی کے مسئلے کو مزید لٹکائے رکھنے سے انہیں تباہی و بربادی تو مل سکتی ہے تعمیر و ترقی بالکل بھی نہیں: فوٹو: فائل

RAWALPINDI:
نریندر مودی سے قبل تک بھارت کی خارجہ پالیسی بھی بڑی دلچسپ رہی ہے۔سرحدسے ملنے والے تمام ممالک پاکستان، نیپال ، بنگلادیش ، بھوٹان اور سری لنکا سے تنازعے اور ان سب ممالک کے پڑوسیوں سے'' دوستانہ'' ہی بھارت کی خارجہ پالیسی کی تاریخ ہے۔اس سے پہلے کے ہم اس موضوع پر رام کتھا کا مختصر ایڈیشن شروع کریں۔ایک خبر پر بات کرلیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ایک ٹرابیونل نے بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان تین دہائیوں سے جاری خلیج بنگال کے 25ہزار کلو میٹر طویل سمندری علاقے کے تنازع کا مسئلہ حل کردیا ہے ۔جس کے بعد بنگلادیش کے حصے میں19ہزار 5سو اور بھارت کے حصے میں صرف 6کلو میٹر کا علاقہ آیا ہے ۔یہ وہی خلیج بنگال کا علاقہ ہے جہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائز ہیں۔بڑا علاقہ ملنے پر بنگالیوں کی خوشی تو سمجھ میں آتی ہے مگر بھارت نے بھی فیصلے کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا ہے اور اسے پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات کی طرف پیش قدمی قرار دیا ہے۔

ویسے سوچنے کی بات ہے کہ مودی سرکار کے آنے کے بعد کیا واقعی بھارتی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے؟ یا پھر معاملہ ہاتھی کے کھانے اور دکھانے کی دانتوں والا ہے؟۔ خاص طور پر پاکستان کے تناظر میں معاملہ کیا بنے گا؟۔چلئے پہلے دو نیو کلیئر پاور کے باہمی تنازع کو سمجھتے ہیں۔کشمیر،سندھ طاس معاہدے کی بھارتی خلاف ورزیاں،دہشتگردی، سرکریک اور سیاچن کی حدود کا تعین اور افغانستان میں اثر رسوخ بڑھانے کی جنگ نے دونوں ممالک کی ترقی کو روک رکھا ہے۔ویسے تو اس فہرست میں 1947ء میں مسلمانوں کاقتل عام ،71ء میں پاکستان توڑنے کی کامیاب سازش اور آج کل بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد بھی شامل کرسکتے ہیں۔ بھارت کو خطے کا ''چوہدری'' بنانا عالمی کرتا دھرتاؤں کی خواہش ہے جو کہ بھارت کی معاشی ترقی کے بغیربے تعبیر خواب ہی رہ سکتاہے اور ہو سکتا ہے۔


بنگلا دیش کے ساتھ 30 برس قبل کا تنازع اسی سوچ کے ساتھ حل کرایا گیا ہوگا۔بات جو بھی ہو ، پر بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو یہ بات تو بہرحال سمجھ آگئی ہوگی کہ ان سب ایشوز کو مزید لٹکائے رکھنے سے انہیں تباہی و بربادی تو مل سکتی ہے تعمیر و ترقی بالکل بھی نہیں۔بھارت کیونکہ بڑا بھی ہے اور چوہدری بھی بننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ چھوٹے ممالک کی جانب سے لگنے والے الزامات کو سنجیدگی سے لے ۔دونوں ہی ممالک بنگلا دیش کی طرز پر سرکریک ( کراچی اور ممبئی کے درمیان ساحلی حد بندی) کا معاملہ پہلے حل کرلیں تاکہ ساحلی پٹی پر موجود تیل اور گیس کے ذخائز کی تلاش شروع کرکے ترقی کے سفر کابہتر آغاز کیاجاسکتا ہے۔

پھر'' بھارتی آبی جارحیت '' ۔ میں یہ لفظ اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیم پر ڈیم بنا کر خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ جب پاکستانی فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے بھارت اس وقت پانی روک لیتا ہے اور جب فصل تیار ہوجاتی ہے تو پانی چھوڑ کر ملک میں تباہ کن سیلاب کی صورتحال پیدا کردیتا ہے۔ یہ عمل کسی اچھے پڑوسی کاہو ہی نہیں سکتا۔ بھارت کے پالیسی ساز بھی عالمی کرتا دھرتا بھی جانتے ہیں کہ کسی ریاست کو سات ، آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے اپنا نہیں بنایا جاسکتا۔ جس کی مثال ہمارے سامنے کشمیر کی صورت میں موجود ہے۔ بلکہ معاملات تو بات چیت اور گفت و شنید کے کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اب بھارت کے خود کو بڑا ثابت کرنے کی کچھ نہیں بہت کچھ اچھا کرنا پڑے گا ۔اگروہ واقعی پڑویسی کو اچھے سے تعلقات کی خارجہ پالیسی اختیار کرنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کے حوالے سے سازشی پالیسی سے باہر نکلنا ہوگا۔

اب دیکھتے ہیں مودی سرکار،شال اور خیر وعافیت کے خط کی ڈپلومیسی تک محدود رہتی ہے یا پھر معاملات میں حقیقی نوعیت کی تبدیلیاں رونما بھی ہوتی ہیں؟۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story