وفاقی کابینہ آج آئینی ترامیم کے مسودے کی منظوری دے گی

ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کو واضح جواب دیتے ہوئے حمایت سے انکار کردیا


فوٹو؛ فائل

وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا اجلاس آج اتوار کو طلب کرلیا جس میں آئینی ترامیم کے مسودے کی منظوری دی جائے گی۔ بعد ازاں یہ ترامیم قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش ہونگی۔

گزشتہ رات وزیراعظم آفس میں ن لیگ اور اتحادی جماعتوں کے اعزاز میں عشایے کا اہتمام کیا گیا، ایم کیو ایم، باپ، نیشنل پارٹی اور دیگر اتحادیوں نے عشایے میں شرکت کی۔ وزیراعظم نے ارکان کو آج پارلیمنٹ میں اپنی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی ہے۔ حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم میں سے کچھ تفصیلات نائب وزیراعظم اسحق ڈار نے بیان کردی ہیں۔

وزیراعظم کی جانب سے اتحادی جماعتوں کو دیے گئے عشایے میں اسحاق ڈار نے شرکا کو آئینی ترمیم کے حوالے سے آگاہ کیا اور بتایا کہ سپریم کورٹ میں آئینی عدالت قائم کی جائے گی۔ عوامی مفاد کیلئے علیحدہ عدالت قائم کرنے کی تجویز ہے اس لیے آئین میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ اراکین نے وزیراعظم کو آئینی ترمیم میں اپنی حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی۔

عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ملک اب مزید عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا، عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کا بائیکاٹ کرنا ہو گا۔ پارلیمان ملک کا سپریم ادارہ ہے اور اس کے تقدس کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ملکی اور عوامی مفاد میں قانون سازی ہو۔ وزیر اعظم نے ارکان پارلیمنٹ سے عہد لیا کہ وہ ملکی ترقی کیلئے بھرپور محنت کریں گے۔

قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان رات گئے ملاقات ہوئی جو اہم سیاسی پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں وزیر اعظم نے مولانا فضل الرحمان کو حکومت میں شامل ہونے کی ایک بار پھر دعوت دی۔ قانونی ٹیم کے ساتھ مشاورت کے بعد ہونے والی اس ملاقات میں آئینی ترمیم پر بھی گفتگو ہوئی، جس کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کو اعتماد میں لینے کی بات کی۔

مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترمیم کے مسودے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پارٹی سے مشاورت کے بعد جواب دیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کو واضح جواب دیتے ہوئے حمایت سے انکار کردیا۔ بعد ازاں حکومتی وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔

وفد میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ محسن نقوی شامل تھے۔ حکومتی وفد نے مجوزہ آئینی ترمیم اور عدالتی اصلاحات پر مولانا فضل الرحمان کو آگاہ کیا فضل الرحمان کی جانب سے پیش کردہ تجاوزیر بھی مسودے کا حصہ بنائی جائی رہی ہیں۔ دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بھی مجوزہ آئینی ترمیم کے معاملے پر اپنے مؤقف کی حمایت مانگنے کیلئے مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پہنچی تاہم وہاں پر حکومتی عہدیداران کو دیکھ کر پی ٹی آئی رہنما جے یو آئی سربراہ سے ملاقات کئے بغیر واپس لوٹ گئے۔

حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہے، ترمیم میں انیسویں آئینی ترمیم میں جو خامیاں رہ گئیں تھیں ان کو دور کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان ترامیم کا اہم مقصد عدلیہ اور مختلف آئینی اداروں میں اصلاحات کرنا ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت میں توسیع اور آئینی عدالت کے قیام جیسی تجاویز شامل ہیں، جس کا مقصد آئینی اور مفاد عامہ کے مقدمات کو سپریم کورٹ سے الگ کرکے ان کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔ آئینی عدالت5 رکنی ہوگی، جو آئین کی تشریح اور دیگر آئینی امور کی سماعت کریگی۔

جوڈیشل کمشن میں پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کو بھی شامل کیا جائے گا۔ چیف جسٹس یا ججوں کی مدت ملازمت کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ مستقبل میں چیف جسٹس کی تقرری کے لے پانچ نام وزیر اعظم کو بھجوائے جائیں گے اور ان میں سے وزیر اعظم نئے چیف جسٹس کا تقرر کریں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے آرٹیکل63اے میں بھی ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ آئینی پیکیج میں 25 کے قریب ترمیمی تجاویز رکھی گئی ہیں۔

وزیر اعظم کے عشائیہ میں اسحاق ڈار نے شرکاء کو بریفنگ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ عوامی مفاد کے لئے علیحدہ آئینی عدالت قائم کرنے کی تجویز ہے۔ جو آئینی امور کو دیکھے گی،جس کا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ججز سے حکومت لگائے گی، مزید ججز بھی حکومت تعینات کرے گے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میںعشائیہ دیا۔

چئیرمین بلاول بھٹو کی زیرقیادت پی پی پی کا وفد بھی رات ڈیڑھ بجے مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پر پہنچا، ترجمان جے یو آئی کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہوئی اور ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پی پی پی وفد میں اعجاز جاکھرانی، مئیرکراچی مرتضیٰ وہاب شامل تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔