پاکستان ایک نظر میں ہیپی برتھ ڈے ملالہ

ہر معاملے میں سازش کا سرا ڈھونڈنے والے اتنا تو تسلیم کریں گے کہ ملالہ گولی کھا کر ڈری نہیں بلکہ ڈٹ گئی۔


شاہد اقبال July 12, 2014
ہر معاملے میں سازش کا سرا ڈھونڈنے والے اتنا تو تسلیم کریں گے کہ ملالہ گولی کھا کر ڈری نہیں بلکہ ڈٹ گئی۔ فوٹو اے ایف پی

اپنی ترجیحات کے تعین میں روزِ اول سے ناکام و نامراد کنفیوزڈ پاکستانی قوم یوم ملالہ پر بھی حسبِ روایت مخمصے کا شکار ہے۔ ساری دنیا ملالہ کی بے مثال جرات و بے باکی پر آج عقیدتوں کے پھول نچھاور کر رہی ہے اور اس چھوٹی سی گلِ مکئی کے اعلانِ بغاوت کو خراجِ تحسین پیش کر رہی ہے۔ لیکن ملالہ کا ملول زدہ دیس ابھی تک یہ تعین نہیں کر پایا کہ وہ ان کی ہیرو ہے یا یہود ونصاریٰ کی سازشوں کا ایک جوائنٹ وینچر !

9 جنوری 2009 کو جب ملالہ نے طالبان کے ہاتھوں ا سکولوں کی بندش کے خلاف بی بی سی پر فرضی نام سے ڈائری لکھنی شروع کی تو وہ سوات کی ان ہزاروں معصوم بچیوں میں سے ایک تھی جن سے طالبان نے قلم و کتاب چھینے کی احمقانہ کوشش کی تھی۔ ڈرا سہما ہوا سوات طالبان کی بندوقوں کے سائے میں لرز رہا تھا۔ا سکولوں کی بندش پر دبے دبے سلگتے ہوئے دکھ کو ملالہ نے جب دنیا کے ساتھ شئیر کرنا شروع کیا تو کون جانتا تھا کہ ملالہ کی پریشان ڈائری کے یہ بکھرے الفاظ ایک دن ساری دنیا میں اس کے عزم و حوصلے کی علامت بن جائیں گے۔

اکتوبر 2012 کو ملالہ کی مہین سی آواز کو ہمیشہ کے لیے دبانے کی کوشش میں طالبان نے اسے مزید مہمیز دے دی۔ ملالہ پر چلائی جانے والی گولیوں نے اس کے پیغام کو دنیا کے ان کونوں تک بھی پہنچا دیا جہاں ملالہ تو دور کی بات خود پاکستان کے نام کو بھی کوئی نہ جانتا تھا۔ دنیا کے لیے یہ بات قابلِ برداشت نہ تھی کہ اکیسویں صدی میں بھی طالبان کی صورت میں کچھ ایسی تاریک سوچیں موجود ہیں جو نئی نسلوں کو تعلیم کی روشنی سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ملالہ تعلیم سے محبت اور جہالت سے نفرت کی علامت بن کر دنیاکی محبوب بن گئی۔ اور اس پر اعزازت کی وہ بارش ہوئی کہ پاکستانی قوم دنگ رہ گئی۔

اقوامِ متحدہ نے ہر سال 12 جولائی یومِ ملالہ کے نام سے منانے کا اعلان کر کے پاکستان کی اس بیٹی کی آواز کو مزید توانائی بخشی اور دنیا کے پسماندہ ملکوں میں خواتین کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ملالہ کی جدوجہد ایک روشن مینارہ قرار پائی۔ ملالہ کی دنیا بھر میں پذیرائی پاکستان کے لیے باعثِ مسرت بھی ہے اور باعثِ ندامت بھی ۔ملالہ کی تحریک نے جہاں پاکستان میں موجود مزاحمتی آوازوں کو ایک بلند آہنگ دے کر دنیا سے پاکستان کے لیے داد و تحسین وصول کی وہیں پاکستان کی اس نااہلی پر دنیا بھر سے تنقید کی تیر بھی پاکستان کا مقدر بنے کہ یہ ایٹمی ملک ابھی تک اس بنیادی اصول کا تعین کرنے میں ہی کامیاب نہیں ہوا کہ اس نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینی ہے یا جہالت کے اندھیروں میں گم رکھنا ہے ۔

پاکستان کا پراگندہ حال معاشرہ ملالہ کے حمایتی اور مخالفوں سے بھرا ہوا ہے ۔ جہاں اس کے گیت گانے والوں کے نزدیک وہ طالبان کے نظامِ جبر کے خلاف ایک توانا اور موثر آواز ہے وہیں اس کے نقادوں کے خیال میں وہ ایک ایسی کٹھ پتلی ہے جسے مغرب ہمیں بدنام کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے ۔ملالہ عزم و حوصلے کی تصویر ہے ملالہ مکر و فریب کا ایک جال ہے، ملالہ علم سے محبت کی ایک علامت ہے ملالہ مغرب زدگی کا ایک نشان ہے، ملالہ پاکستان کے ایک قابلِ فخر بیٹی ہے ملالہ پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ایک ٹیکا ہے، غرض ہماری سوچیں ہمارے خیالات اور ہمارے جذبات ملالہ کے بارے میں بھی اتنے ہی غیر متوازن ہیں جتنے یہ باقی تمام معاملات میں انتہا پسندانہ ہیں ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے قبلے کا از سرِ نو تعین کر لیں ۔ ایک طرف طالبان کی بندوقیں ہیں دوسری طرف ملالہ کا قلم ہے ۔ ایک طرف مغرب کی ترقی پسندی ہے دوسری طرف طالبان کی رجعت پسندانہ سوچ ہے۔ ہمیں بندوق یا قلم میں سے ، رجعت پسندی یاترقی پسندی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ گو مگو کی کیفیت میں ہم زیادہ دیر تک اب یقیناًنہیں جی پائیں گے۔

ہماری حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کئی دہائیوں تک عسکریت پسندی کوپالنے کے بعد اب اس منطقی نتیجے تک پہنچ چکی ہیں کہ پاکستان کی بقا کا راز اب اس بھوت سے جان چھڑانے میں ہے ۔ شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریشن رویے میں اسی تبدیلی کی طرف واضح اشارہ ہے ۔ فوجی آپریشن کے ذریعے طالبان کو تو شمالی وزیرستان سے بے دخل کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں موجود انتہا پسندانہ سوچوں کو معاشرہ بدر کرنے کے لیے زیادہ طویل اور ان تھک جدو جہد کی ضرورت ہے۔

ملالہ معاشرتی سوچ کی اس تبدیلی کے سفر میں میرِ کارواں بن سکتی ہے ۔ ملالہ میں لاکھ برائیاں ہوں گی گلِ مکئی کے نام سے اس کی ڈائر ی اس کے والد نے لکھی ہو گی ، طالبان کے خلاف اس کی تقریریں اس کے والد نے اسے رٹائی ہو ں گی،اس کی خود نوشت کرسٹینا لیمب نے لکھی ہو گی لیکن ملالہ پر تنقید کے نشتر چلانے والے یہ تو مانیں گے کہ تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے کے جرم میں ملالہ نے گولی خود کھائی ۔ ہر معاملے میں سازش کا سرا ڈھونڈنے والے اتنا تو تسلیم کریں گے کہ وہ گولی کھا کر ڈری نہیں بلکہ ڈٹ گئی۔ پاکستان میں تبدیلی کے لیے ہمیں بہت سی ملالاؤں کی ضرورت ہے جو اپنے حق کے لیے ڈٹ جائیں یہ پرواہ کئے بغیر کہ ان کا مقدر گالیاں بنتی ہیں یا گولیاں۔ یہی ملالہ کا پیغام ہے یہی وقت کی آواز ہے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں