بات کچھ اِدھر اُدھر کی موبائل استعمال کرنے کیلئے بھی قوانین کی ضرورت ہے

والدین کو اُس موبائل فون کے فیچرز سے مکمل واقفیت ہونی چاہیے جو اُن کا بچہ استعمال کررہا ہو۔


خرم شہزاد بیگ July 13, 2014
موبائل فون قوانین کی عدم موجودگی میں جانی نقصان کا تو کوئی خدشہ نہیں تاہم مذہبی، تہذیبی، ثقافتی،ادبی اور شدید علمی نقصانات کے خدشات لاحق ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

ABBOTABAD: Karl Benz کو آج دنیا بھر میں نافذالعمل ٹریفک قوانین کا وہم و گماں بھی نہ ہو ہو گا، لیکن دنیا کی پہلی Automobileایجاد کرنے کے بعداس کے استعمال اور پھر بے دریغ استعمال سے پیدا شدہ مسائل کے حل اور روک تھام کے لئے دنیا بھرمیں تمام ممالک نے قانون سازی کی اور بالاخر آج آپ دنیا کے کسی بھی خطہ میں چلے جائیں آپ کو سڑک پر خواہ آپ پیدل ہوں یا سوار ہر دو صورتوں میں آپ مروجہ قوانین کی زد میں رہتے ہیں۔

Wright Brothersکی ایجاد کے بعد پوری دنیا کو آج ہوا نوردی کے قوانین پر عمل پیرا ہونا پڑا،سوال صرف یہ کہ Martin Cooper نے ٹیلی فون کو موبائل کر کہ جو کارنامہ انجام دیا یقینا قابل ستائش ہے لیکن کیا موبائل فون بنانے سے لے کر استعمال کرنے تک کے نافذالعمل قوانین موبائل فون کے خواص کے لحاظ سے قابل قبول ہیں؟؟؟
پاکستان کی حد تک بالکل نہیں بالخصوص موبائل فون کے منفی استعمال کی روک تھام کے لئے کوئی قابل ذکر قانون نافذالعمل نہیں بلکہ سرے سے موجود ہی نہیں ہےکیا موبائل فون کے صارف کو اسی طرح لائسنس حاصل نہیں کرنا چاہیے جیسے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ ٹیسٹ دیا جاتا ہے ، ایک خاص عمر سے پہلے ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہوتی تو موبائل فون کے استعمال کے لئے ایسی کوئی خاص عمر کی حد مقرر کیوں نہیں؟

موبائل فون قوانین کی عدم موجودگی میں جانی نقصان کا تواحتمال شائد اس قدر نہیں تاہم مذہبی، تہذیبی، ثقافتی،ادبی اور شدید علمی نقصانات کے خدشات لاحق ہیں ۔

حال ہی میں پاکستان میں موبائل فون کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہوئی یعنی تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی ہے لیکن اس کی مثال بالکل ایسی ہی نہیں ہے جیسے کسی ناقص گاڑی کو فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جائے۔تھری جی اور فور جی سروسز کا آغازشعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ سوال اب بھی موجود ہے کیا لائسنس کی فراہمی کا بنیادی مقصدیہ تھا کہ بس یہ سروس استعمال کی جائے؟ کیونکہ آپ کی الیکٹرانک لائبریریوں کی تعداد انتہائی کم ہے ۔آپ ایک چھوٹا سا سروے کریں تو معلوم ہو جائے گاکہ پاکستان میں تھری جی، اور فور جی کی سروسز کاروباری طبقہ کو چھوڑ کرباقی تمام کی ترجیحات صرف سوشل میڈیا تک محدود ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے اس کا حل کیا ہے؟

ہم اگر اپنے اختیا رات کو استعمال کرنا شروع کر دیں تو یقیناًکسی حد تک بہتری آسکتی ہے میڈیا کاہماری زندگی میں بڑی حد تک عمل دخل ہے لیکن اتنا نہیں جتنا ہمارا اپنے گھر والوں کی زندگی میں،قصور صرف ہمارا ہے کہ ہم نے اپنے جائز اختیارات کا استعمال بالکل معدوم کر دیا ہے بلکہ میں یہ کہنے میں شائد حق بجانب ہوں کہ ہم نے صرف رشتوں کو برائے نام تک محدود کر دیا ہے یا اگر کسی حد تک دلچسپی ہے تو وہ بھی انتہائی سنگین نوعیت پر جا کر ہم اپنے چند اختیارات کو استعمال کرتے ہیں وہ بھی مجبوراً، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نام نہاد پرائیویسی ہمارے بچوں کو بے حیائی اور نام نہاد آزادی انہیں بے راہ روی میں مبتلا نہ کر پاتی۔ اگر آپ میں اس قسم کی اخلاقی جرات کا فقدان ہو تو کم ازکم آپ کو پھر اس موبائل فون کے فیچرز سے مکمل واقفیت ہونی چاہیے جو آپکا بچہ استعمال کررہا ہو، اور اِس نام نہاد پرائیویسی کے پردے میں اپنے بچے کی زندگی اور مستقبل تباہ نہ کریں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں