خصوصی کمیٹی اجلاس بے نتیجہ ختم حکومت کا اپوزیشن کے ساتھ ڈیڈلاک برقرار
خصوصی کمیٹی کا اجلاس پی پی پی رکن اسمبلی خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا جہاں مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر نے شرکت کی
پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور نظام کار کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوا جہاں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان آئینی ترامیم پر ڈیڈ لاک برقرار رہا۔
خصوصی کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور نظام کار کا اجلاس پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن اسمبلی خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا اورساڑھے 3 گھنٹے کی طویل بحث کے بعد بے نتیجہ ختم ہوا اور آئینی ترمیم پر ڈیڈ لاک برقرار رہا اور حکومت اجلاس میں اپوزیشن کو قائل کرنے میں ناکام رہی۔
حکومت نے اجلاس میں مجوزہ ترمیم کے اہم نکات پیش کیے لیکن مسودہ نہیں دیا گیا، جس پر اپوزیشن نے کہا کہ مسودہ سامنے آنے تک کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
پی پی پی رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ کمیٹی اجلاس میں مشاورت جاری ہے، جب تک کابینہ ڈرافٹ منظور نہیں کرتی تب تک نہیں دے سکتے ہیں۔
خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد بلاول بھٹوزرداری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی جماعت نے ہماری عدلیہ اور آرمی چیف پر حملہ کیا، آج تک انہوں نے اپنے بیان کو واضح نہیں کیا کہ وہ بیان ان کا ہے یا نہیں، میں کیا امید رکھوں کہ میں جو ڈیشل ریفارمز کے ساتھ اس جماعت کے ساتھ متفقہ پیکج پر کیا بات کروں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی کوشش ہے کہ آئینی ترمیم پر متفقہ فیصلہ ہو۔
دوسری جانب شبلی فراز نے کہا کہ کسی بات پر ہمارا اتفاق نہیں ہوا کیونکہ ہمارے سامنے کوئی مواد نہیں ہے اور پھر مولانا فضل الرحمان نے واضح طور پر اپنا اصولی مؤقف دیا کہ جب تک ہمارے ساتھ چیزیں شیئر نہیں ہوں گی تو ہم کیسے ہوا میں کہہ دیں کہ آپ کی ترامیم کو سپورٹ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ہمیں یہ چیزیں نہ دی گئیں تو ہمارے لیے اس بل کی حمایت کرنا مشکل ہوجائے گا، اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت کی کوئی تیاری نہیں تھی اور نہ ان کے پاس پورے نمبر تھے۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ حکومت نے پوری قوم کاایک دن ضائع کیا، پورے ملک کو تذبذب میں رکھا اور آخر میں کچھ بھی نہیں تھا، آخری منٹ تک ان کے پاس کچھ نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ شیئر کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایک آئینی ترمیم کا مسودہ ہمارے ساتھ شیئر نہیں ہوگا تو اس میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں اتفاق رائے ہوگیا یا مان گئے، زبانی باتیں نہیں ہوتیں لیکن ان کے پاس مسودہ نہیں تھا۔
اس سے قبل مولانا فضل الرحمان بھی خصوصی کمیٹیئ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے تو وفاقی وزیر داخلہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے مولانا فضل الرحمان کا استقبال کیا اور اس سے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر موجود صحافیوں کے سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ان شااللہ عوام کے لیے خوش خبری ہوگی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی خصوصی کمیٹی اجلاس میں پہنچ گئے جہاں انہوں نے مجوزہ آئینی ترمیم پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔
سید خورشید شاہ کی زیر صدارت خصوصی کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور نظام کار کے اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف، رانا تنویر، عرفان صدیقی، انوشہ رحمان، وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین، اعجاز الحق، سید نوید،جے یو آئی کی شاہدہ اختر علی، اے این پی سینیٹر ایمل ولی خان بھی شریک ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، بیرسٹر گوہر علی خان، صاحبزادہ حامد رضا بھی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہیں۔
خصوصی کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور نظام کار کا اجلاس پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن اسمبلی خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا اورساڑھے 3 گھنٹے کی طویل بحث کے بعد بے نتیجہ ختم ہوا اور آئینی ترمیم پر ڈیڈ لاک برقرار رہا اور حکومت اجلاس میں اپوزیشن کو قائل کرنے میں ناکام رہی۔
حکومت نے اجلاس میں مجوزہ ترمیم کے اہم نکات پیش کیے لیکن مسودہ نہیں دیا گیا، جس پر اپوزیشن نے کہا کہ مسودہ سامنے آنے تک کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
پی پی پی رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ کمیٹی اجلاس میں مشاورت جاری ہے، جب تک کابینہ ڈرافٹ منظور نہیں کرتی تب تک نہیں دے سکتے ہیں۔
خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد بلاول بھٹوزرداری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی جماعت نے ہماری عدلیہ اور آرمی چیف پر حملہ کیا، آج تک انہوں نے اپنے بیان کو واضح نہیں کیا کہ وہ بیان ان کا ہے یا نہیں، میں کیا امید رکھوں کہ میں جو ڈیشل ریفارمز کے ساتھ اس جماعت کے ساتھ متفقہ پیکج پر کیا بات کروں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی کوشش ہے کہ آئینی ترمیم پر متفقہ فیصلہ ہو۔
دوسری جانب شبلی فراز نے کہا کہ کسی بات پر ہمارا اتفاق نہیں ہوا کیونکہ ہمارے سامنے کوئی مواد نہیں ہے اور پھر مولانا فضل الرحمان نے واضح طور پر اپنا اصولی مؤقف دیا کہ جب تک ہمارے ساتھ چیزیں شیئر نہیں ہوں گی تو ہم کیسے ہوا میں کہہ دیں کہ آپ کی ترامیم کو سپورٹ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ہمیں یہ چیزیں نہ دی گئیں تو ہمارے لیے اس بل کی حمایت کرنا مشکل ہوجائے گا، اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت کی کوئی تیاری نہیں تھی اور نہ ان کے پاس پورے نمبر تھے۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ حکومت نے پوری قوم کاایک دن ضائع کیا، پورے ملک کو تذبذب میں رکھا اور آخر میں کچھ بھی نہیں تھا، آخری منٹ تک ان کے پاس کچھ نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ شیئر کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایک آئینی ترمیم کا مسودہ ہمارے ساتھ شیئر نہیں ہوگا تو اس میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں اتفاق رائے ہوگیا یا مان گئے، زبانی باتیں نہیں ہوتیں لیکن ان کے پاس مسودہ نہیں تھا۔
اس سے قبل مولانا فضل الرحمان بھی خصوصی کمیٹیئ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے تو وفاقی وزیر داخلہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے مولانا فضل الرحمان کا استقبال کیا اور اس سے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر موجود صحافیوں کے سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ان شااللہ عوام کے لیے خوش خبری ہوگی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی خصوصی کمیٹی اجلاس میں پہنچ گئے جہاں انہوں نے مجوزہ آئینی ترمیم پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔
سید خورشید شاہ کی زیر صدارت خصوصی کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور نظام کار کے اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف، رانا تنویر، عرفان صدیقی، انوشہ رحمان، وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین، اعجاز الحق، سید نوید،جے یو آئی کی شاہدہ اختر علی، اے این پی سینیٹر ایمل ولی خان بھی شریک ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، بیرسٹر گوہر علی خان، صاحبزادہ حامد رضا بھی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہیں۔