آئی ڈی پیز کے انتظامات کے لیے بہت کم وقت ملا سردار مہتاب احمد خان
پاکستان اور افغانستان مل کر بدامنی کے خاتمے کے لیے کوششیں کریں
سردار مہتاب احمد خان خیبرپختون خوا کے 36 ویں گورنر ہیں۔ وہ اس منصب پر فائز ہونے والی صوبے کی پہلی ایسی شخصیت ہیں جو وزارت اعلیٰ کے عہدے پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
وہ 1985ء سے متعدد بار قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے آئے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں، جب کہ 1997 ء میں پارٹی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے نام زد کردیا تھا۔ 12 اکتوبر 1999 ء کو جب منتخب حکومت کو ہٹایا گیا، تو اس وقت سردار مہتاب بطور وزیراعلیٰ سرکاری دورے پر سوات میں تھے۔
وہیں پر انہیں گرفتار پھر نظربند کردیا گیا۔ بعدازاں وہ رہا کیے گئے، لیکن ایک مرتبہ پھر انھیں گرفتار کرکے اٹک قلعے کے سیلن زدہ درودیوار کے سائے میں اسیری کے شب وروزگزارنے پڑے، جب کہ اکثر راتیں آنکھوں میں کاٹیں، سردار مہتاب احمد خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 2008 ء کے عام انتخابات میں انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں سے کام یابی حاصل کی، جب کہ اس وقت وہ سینیٹ کے رکن بھی تھے۔ یوں وہ بیک وقت تین ایوانوں کے رکن ہونے کا اعزاز بھی پاچکے ہیں۔
تاہم انہوں نے سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں چھوڑتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست کا انتخاب کیا۔ 2013ء کے انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر کام یابی تو حاصل کرگئے، لیکن قومی اسمبلی کی نشست پر انھیں تحریک انصاف کے امیدوار کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں اس مرتبہ ایک منجھے ہوئے سیاست داں کی صوبائی اسمبلی کے ایوان میں آمد ہوئی، جہاں انھیں قائد حزب اختلاف کا کردار نبھانے کا موقع ملا۔
سردار مہتاب عباسی نے صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اپنے ایک سال کے عرصے کے دوران ہر اہم موقع پر صوبے اور یہاں کے عوام کی بھرپور نمائندگی کی۔ بعد میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ان کے کاندھوں پر گورنر کے منصب کی بھاری ذمہ داریاں ڈال دیں اور انہوں نے رواں سال اپریل میں گورنر خیبرپختون خوا کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ یقینی طور پر ایسے حالات میں جب قبائلی علاقوں میں دہشت گردی ہورہی ہو، قیام امن کے لیے فوجی کارروائیاں بھی جاری ہوں اور لاکھوں کی تعداد میں قبائلی اپنے گھر بار چھوڑ کر آئی ڈی پیز بنے ہوں، تو گورنر کے عہدہ کو پھولوں کی سیج نہیں کہا جاسکتا۔
ان حالات کے تناظر میں گورنر کا عہدہ قبول اور متذکرہ چیلینجز کا سامنا کرنے کے حوالے سے ''ایکسپریس'' نے گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب احمد خان کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال نذر قارئین ہے ۔
ایکسپریس: آپ کو گورنر کا عہدہ سنبھالے دو ماہ سے زاید عرصہ ہوچکا ہے۔ اس دوران آپ کو کون سے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا اور اس ضمن میں آپ کی کیا ترجیحات رہی ہیں؟
سردار مہتاب احمدخان: مجھے گورنر کا عہدہ سنبھالے تقریباً70 دن ہوئے ہیں۔ اس عرصے کے دوران جس سب سے بڑے چیلینج کا سامنا کرنا پڑا وہ بدامنی کا ایشو ہے، جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں نہ تو سماجی زندگی اپنی روایتی رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور نہ ہی معاشی سرگرمیاں ہورہی ہیں، کیوں کہ لوگ اپنی زندگیوں کو بچانے کی فکر میں ہیں۔
انہیں دہشت کے عالم میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا، کیوںکہ جان ہے تو جہان ہے کے مصداق سب سے پہلے زندگی بچانے کی فکر ہر کوئی کرتا ہے۔ پھر یہ دیکھیے کہ جنوبی وزیرستان، اورکزئی، خیبر، تیراہ اور دیگر قبائلی ایجنسیوں سے لاکھوں کی تعداد میں افراد نقل مکانی کرتے ہوئے دوسرے علاقوں کی طرف آئے، جو کہ ایک بڑا انسانی المیہ ہے۔ یہ مسئلہ بھی ہے کہ قبائلی عوام کو وہاں کی انتظامیہ پر اعتماد نہیں، جب کہ وہ اس حوالے سے بھی شکوک وشبہات کا شکار ہیں کہ گورنر اور پولیٹیکل انتظامیہ ان کے مسائل حل بھی کریں گے یا نہیں۔
ان حالات میں ہماری کوشش ہے کہ ہم سماجی اور ترقیاتی سیکٹرز میں ثمرات عام آدمی تک پہنچاسکیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں نافذ انتظامی اور قبائلی ڈھانچا مل کر کام کرے، جو دہشت گردی کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے، جس کو بحال کرنا ہمارے لیے ایک چیلینج ہے۔ ساتھ ہی عوام کے اعتماد کی بحالی ہمارا نظر ہوگا۔
ایکسپریس: آپ جتنے چیلینجز کی بات کررہے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آپ کے پیش رو گورنروں نے ان سے نمٹنے کی کوئی کوشش نہیں کی؟
سردار مہتاب احمد خان: میں ماضی کی بات نہیں کررہا، میں تو ان چیلینجز کی بات کررہا ہوں، جو میں نے بطور گورنر محسوس کیے اور جن کے حوالے سے بات کی گئی۔ ماضی کے بارے میں بات کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
ایکسپریس: بطور گورنر فاٹا کے لیے آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: جن مسائل اور چیلینجز کا میں نے ذکر کیا ہے، انہیں حل کرنا اور پورے نظام کو ٹریک پر لانا، یہی میری ترجیحات ہیں، کیوںکہ اب تک فاٹا جس جمود کا شکار تھا، اس کی وجہ سے اس کا چلنا مشکل ہوگیا تھا۔ لوگ تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ہم ان کے اعتماد پر پورے اتریں۔
ایکسپریس: قبائلی علاقوں کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ وہاں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی باعزت طریقے سے واپسی ہے۔ اس حوالے سے آپ قبائلی علاقے میں کیا اقدامات کررہے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: یہ ایک بہت بڑا چیلینج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے گورنر کے عہدے کا حلف لیا تو اس کے ساتھ ہی میں نے قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے افراد کی ان کے علاقوں کو واپسی کا سلسلہ شروع کرادیا، جس کے لیے ہم نے خود بھی دورے کیے اور جرگوں کا انعقاد بھی کیا، جس کے نتیجے میں وادی تیراہ کے لوگوں کی واپسی شروع ہوئی۔
جب کہ ساتھ ہی قبائلی علاقوں میں ایریا ڈیویلپمنٹ پروگرام کا بھی آغاز کیا، کیوں کہ قبائلی علاقے67 سال سے ترقی سے محروم چلے آرہے ہیں۔ تیراہ سمیت کئی علاقوں میں لوگوں نے اپنے طور پر ترقی کے دروازے خود پر بند رکھے ہیں، جس کی وجہ سے آج یہ علاقے بہت زیادہ پس ماندہ ہیں۔ کرم ایجنسی میں2008 ء کے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرکے آئے، جن کی واپسی کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے اور یہ عمل چند ہفتوں میں مکمل ہوجائے گا۔
ہم نے اس مرتبہ تعمیرات، سماجی اور معاشی ترقی پر فوکس کیا ہوا ہے۔ ہم نے فاٹا کے لیے اصلاحاتی کمیشن بھی تشکیل دیا، جو ہمیں قبائلی علاقہ جات کے حوالے سے جامع سفارشات تیار کرکے دے گا، کیوں کہ 15سال میں فاٹا مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ اس کے تمام تقاضے تبدیل ہوگئے ہیں، ہمیں ان تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں بہت کچھ دینا ہے، تاکہ وہ اس ملک کا حصہ بن سکیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان کی جہاں اور جن سیکٹرز میں ضرورت ہے، ان ہی میں ان کو ترقی دی جائے، جب کہ ہم قبائلی عوام کو ٹیکنیکل ٹریننگ بھی دینا چاہتے ہیں، کیوں کہ دنیا مین ترقی کے لیے ٹیکنیکل ٹریننگ بہت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے سالانہ 1700 افرا د جو فاٹا سے فنی تربیت لیا کرتے تھے، ان کی تعداد کو بڑھا کر 10 ہزار کردی ہے، جس پر 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔
ایکسپریس: شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کو پاکستان کی بقاء کی جنگ کہا جارہا ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: حقیقی معنوں میں شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب ملکی بقاء کی جنگ ہے، کیوںکہ عسکریت پسندی ملک کو تباہی کے دہانے پر لے گئی تھی اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ آپریشن قبائلی علاقوں اور ملک بھر میں قیام امن کے حوالے سے نقطۂ آغاز ہے۔
جس کے بعد مزید بہتری آئے گی۔ بدامنی صرف ہمارے ملک میں نہیں آئی، بل کہ یہ دنیا کے بہت سے ممالک میں آتی رہی ہے اور ان ممالک کو بھی ہماری طرح مشکل وقت سے گزرنا پڑا ہے، لیکن پھر وہاں پر امن قائم ہوگیا۔ اسی طرح ہم بھی آج مشکل دور سے گزر رہے ہیں، لیکن یہ آپریشن ملک میں قیام امن کی ضمانت ہوگا اور اس کی کام یابی کے بعد ملک میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گا، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہو کیوںکہ یہ صرف افواج پاکستان کی نہیں پورے ملک کی جنگ ہے۔ جن کو بھی ملک سے محبت ہے انھیں اس جنگ میں اپنی افواج کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، تب ہی امن قائم ہوپائے گا۔
ایکسپریس: کیا آپریشن ضرب عضب کا ردعمل آنے کا امکان ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: اس آپریشن کے اثرات کچھ عرصہ تک ضرور ہوں گے، جس کے لیے قوم کو تیار رہنا چاہیے، کیوںکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہونے سے قبل کچھ دہشت گرد یقینی طور پر وہاں سے نکل کر مختلف جگہوں پر پھیل گئے ہوں گے، جن کے حوالے سے ہم سب کو الرٹ رہنا ہوگا تاکہ وہ ہم پر اچانک وار نہ کردیں اور یہ کام کسی ایک نے نہیں بل کہ ہم سب کو اپنے طور پر کرنا ہے۔ اگر کسی کے علاقے یا محلے میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جو مشکوک ہے، تو اس بارے میں فوری طور پر متعلقہ تھانے اور سیکیوریٹی فورسز کو مطلع کرنا چاہیے، تاکہ صورت حال کو کنٹرول کیا جاسکے، جو بھی حالات اس وقت ہیں ان کا مقابلہ کوئی بھی تنہا نہیں کرسکتا، بل کہ ہم سب کو مل کر ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
ایکسپریس: کیا افغانستان کی جانب سے پاکستان کو وہ مدد اور تعاون مل رہا ہے جو ان حالات میں ضروری ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل کر اس بدامنی کے خاتمے کے لیے کوششیں کریں۔ افغانستان میں تو 35 سال سے یہی صورت حال جاری ہے، کیوںکہ جب سے وہاں پر روسی افواج آئیں تب سے ایسی ہی صورت حال جاری ہے، جس کی وجہ سے اس پورے خطے کا توازن خراب ہوچکا ہے اور حکومتی اور ریاستی ڈھانچا ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ اس لیے پاکستان کی افواج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب، افغانستان کے لیے بھی سود مند ہوگا، کیوںکہ امن کا قیام صرف پاکستان کی نہیں بل کہ افغانستان کی بھی ضرورت ہے، جہاں ابھی الیکشن کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا۔ تاہم افغانستان میں الیکشن کا عمل مکمل ہونے پر جو بھی صدر بنتا ہے ۔
یہ اس کے لیے بھی ضروری ہے اور ہمارے لیے بھی کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ اسی وجہ سے وزیراعظم محمد نواز شریف نے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے ساتھ خود بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی جب کہ محمود خان اچکزئی کو انہوں نے اپنا خصوصی ایلچی بناکر افغانستان بھی بھیجا، تاکہ اس بارے میں کھل کر بات کی جاسکے، کیوںکہ پاکستان، افغانستان میں امن چاہتا ہے اور افغانستان کو بھی اسی ٹریک پر چلنا چاہیے، کیوںکہ دونوں ممالک کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
ایکسپریس: اگر قبائلی علاقوں میں امن کا قیام ہوجاتا ہے تو کیا فوج وہاں سے نکل جائے گی اور کیا سول انتظامیہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ وہاں کا انتظام سنبھال سکے؟
سردار مہتاب احمد خان: قبائلی علاقہ جات میں کئی سال سے فوج موجود ہے اور انتظامیہ کا نظام اتنا مضبوط نہیں ہے کہ جتنا ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے یہ بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے کہ قبائلی علاقوں کے انتظامی نظام کو مضبوط کیا جائے اور اسے مکمل طور پر بحال کیا جائے، تاکہ جب فوج قبائلی علاقوں میں قیام امن کے بعد واپس جائے تو اس صورت میں وہاں کی انتظامی مشینری سارا نظام سنبھال سکے اور اس مقصد کے لیے ہمیں قبائلی علاقوں کے انتظامی اور قبائلی ڈھانچے کو اس کی اصل شکل میں واپس لانا ہوگا، تاکہ وہ ماضی کی طرح کام کریں، اس پر وقت تو لگے گا لیکن ہم کام یاب ضرور ہوں گے۔
ایکسپریس: کیا قبائلی علاقہ جات میں ملک میں نافذ دیگر قوانین اور نظام لائے جانے کا کوئی پروگرام ہے یا فاٹا میں ایف سی آر اور موجودہ نظام ہی نافذ رہے گا؟
سردار مہتاب احمد خان: کوئی بھی نظام اپنے طور پر اچھا یا برا نہیں ہوتا بل کہ یہ اس کے چلانے والوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے کیسے چلاتے ہیں۔ ہم قبائلی علاقوں کے حوالے سے اس تاریخی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے اصلاحات کرنا چاہتے ہیں، جس کے لیے فاٹا اصلاحاتی کمیشن کو بڑے پیمانے پر اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ فاٹا میں نافذ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز پر نظر ثانی کریں، تاکہ پتا چل سکے کہ کس حد تک ہمیں اصلاحات کرنی ہوں گی، لیکن اگر یہ کہہ دیاجائے کہ ایف سی آر کا فوری طور پر خاتمہ کردیا جائے یا پھر قبائلی علاقوں میں جو نظام نافذ ہے۔
اسے یکسر طور پر تبدیل کردیا جائے، تو ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ البتہ اختلافی امور پر ضرور بات ہوسکتی ہے اور کریں گے، جیسے کریمنل جسٹس پر نظر ثانی ہونی چاہیے اور اس پر بات بھی کی جائے گی، تاکہ قبائلی عوام کو انصاف مل سکے اور اس قانون کا ظالمانہ استعمال نہ ہوسکے۔ ہمیں ایسا نظام لانا چاہیے کہ جس کے ذریعے ہم منصف بن سکیں، کیوںکہ سالہاسال سے قبائلی علاقوں میں وہاں کا نظام کم زور ہونے کی وجہ سے وہاں بڑے بڑے سنڈیکیٹ بن چکے ہیں، جو ریاست کے نظام پر حاوی ہورہے ہیں، لیکن ہم کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیں گے، جو بھی ریاست میں رہے گا وہ ریاست اور حکومت کی عمل داری بھی تسلیم کرے گا اور قوانین کی پابندی بھی کرے گا۔
ایکسپریس: گویا آپ ایک باپ کی طرح فاٹا کے معاملات چلانا چاہتے ہیں کہ جہاں ضرورت ہو وہاں شفقت کی جائے اور جہاں ضرورت پڑے وہاں سختی برتی جائے؟
سردار مہتاب احمد خان: کوئی بھی حکم راں ہو وہ باپ ہی کی طرح ہوتا ہے جسے اپنے معاملات کو موثر انداز میں چلانا پڑتا ہے۔ تاہم اس میں نرمی بھی رکھی جاتی ہے، تاکہ معاملات سہولت کے ساتھ چلتے رہیں۔
ایکسپریس: لیکن فاٹا کے لیے جو اصلاحاتی کمیشن آپ نے تشکیل دیا ہے اس کے چیئرمین اعجاز قریشی پر کئی اعتراضات سامنے آرہے ہیں۔ اس صورت حال میں آپ سمجھتے ہیں کہ وہ سہولت کے ساتھ کام کرسکیں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: اعتراض تو کسی پر بھی ہوسکتا ہے، لیکن جہاں تک فاٹا اصلاحاتی کمیشن کا تعلق ہے تو اس میں اعجاز قریشی اکیلے نہیں بل کہ ان کے ساتھ پوری ٹیم ہے اور یہ سارے ایسے لوگ ہیں جن کا ماضی بے داغ اور باوقار کیریئر کا حامل ہے، جب کہ اس کمیشن کے ارکان میں ہم مزید اضافہ بھی کرسکتے ہیں اور ویسے بھی کمیشن کو تو فاٹا میں بہتری لانے کے سلسلے میں اپنی سفارشات ہی دینی ہیں، جب کہ ان پر فیصلے تو ہمیں کرنے ہیں، جس کے لیے ہم فاٹا کے مستقبل کو بھی سامنے رکھیں گے اور اس کے حال کو بھی مد نظر رکھا جائے گا، جس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
ایکسپریس: آپ کے پیش رو گورنر اویس احمد غنی نے قبائلی علاقوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے انھیں صوبوں کا درجہ دینے کا منصوبہ تیار کررکھا تھا، کیا اس منصوبے پر غور کیا جارہا ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: گورنر ہائوس کی لائبریری میں بہت چیزیں دفن ہیں۔ ہر ایسا منصوبہ یا تجویز جس پر عمل نہ ہوسکا وہ اس قبرستان کا حصہ بن جاتی ہے، لیکن ہم کوئی بھی ایسا منصوبہ یا تجویز سامنے نہیں لائیں گے جس پر عمل نہ کیا جاسکے۔
ایکسپریس: قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی کی وجہ سے بھی نقصان ہوا اور اس سے قبل بھی فاٹا پس ماندگی کا شکار رہا ہے۔ کیا آپ مرکزی حکومت سے فاٹا کے لیے خصوصی پیکیج کے حصول کے لیے کوششیں کررہے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: ہمارے ملک میں نہ تو پیسے کی کمی ہے اور نہ ہی وسائل کی، اور ترقی کی راہ میں پیسے کی کمی رکاوٹ نہیں، مسئلہ تو بددیانتی اور وسائل کے غلط استعمال سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے تو وزیراعظم نے اس کے لیے پہلے بھی اضافی رقم دی ہے اور مزید بھی جتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی وزیراعظم اتنی رقم فراہم کریں گے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ تاہم اصل امتحان یہ ہوگا کہ یہ رقم جس بھی منصوبے کے لیے ہو اسی پر خرچ کی جائے۔
ایکسپریس: صوبائی حکومت کے ساتھ آپ کے تعلقات کیسے ہیں، آئیڈیل، نارمل یا پھر۔۔۔۔؟
سردار مہتاب احمد خان: میں صوبے کے آئینی سربراہ کے طور پر باوقار طریقے سے اپنا آئینی کردار ادا کررہا ہوں۔ صوبائی حکومت کو مکمل طور پر سپورٹ کررہا ہوں، جہاں ان کو میری مدد کی ضرورت ہوتی ہے میں ان کی مدد بھی کرتا ہوں اور صوبے کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کے حل میں بھی دل چسپی لیتا ہوں، لیکن جہاں تک حکومت کرنے کی بات ہے تو یہ حق وزیراعلیٰ کو حاصل ہے، کیوں کہ صوبے کے عوام، آئین اور اسمبلی نے یہ حق وزیراعلیٰ کو دیا ہے، جن کے ساتھ اپنی پوری ٹیم موجود ہے۔
تاہم مسائل کو حل کرنے میں تب سہولت رہتی ہے جب گورنر اور وزیراعلیٰ مل کر کام کریں، جیسے اب شمالی وزیرستان سے آئی ڈی پیز آئے تو ہمیں صوبائی حکومت کی مدد کی ضرورت پڑی، کیوں کہ یہ تمام آئی ڈی پیز صوبے کے بندوبستی علاقوں ہی میں ہیں، جن کی مدد کے لیے صوبائی حکومت کی مشینری کام کررہی ہے اور یہ سارے مسائل حل بھی تب ہی ہوں گے کہ جب ہم مل کر کام کریں گے۔
ایکسپریس: لیکن صوبائی حکومت تو کہتی رہی ہے کہ اسے آپریشن کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا، حالاںکہ سارے معاملات مل کر ہی دیکھے جارہے تھے؟
سردار مہتاب احمد خان: ہمیں پیچھے دیکھنے کے بجائے آگے کی طرف جانا چاہیے۔ یہ باتیں اب پیچھے رہ گئیں اور ماضی کا حصہ بن گئی ہیں۔ اس لیے اب ان باتوں سے آگے آکر آپریشن اور آئی ڈی پیز کے حوالے سے بات کرنی چاہیے۔
ایکسپریس: لاکھوں کی تعداد میں آئی ڈی پیز شمالی وزیرستان سے آرہے ہیں، لیکن ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھرپور وقت حکومت کو نہیں مل سکا۔ اگر حکومت کو آپریشن کے بارے میں بروقت بتادیا جاتا تو کیا معاملات زیادہ بہتر طریقے سے نہ چلائے جاتے؟
سردار مہتاب احمد خان: یقینًا لاکھوں کی تعداد میں آئی ڈی پیز آرہے ہیں جن کے حوالے سے تیاری کے لیے انتہائی کم وقت ملا اور انتظامات سنبھالنے میں مشکل ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شکایات بھی موجود ہیں اور خامیاں اور کوتاہیاں بھی، جن پر ہم ایکشن بھی لے رہے ہیں اور ان کو درست بھی کررہے ہیں، تاکہ آئی ڈی پیز کو ریلیف مل سکے، کیوںکہ وہ لوگ اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر آچکے ہیں۔ میں نے گورنر ہائوس میں ہیلپ لائن قائم کی ہے اور انفرادی نوعیت کی شکایات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس سے قبل جنوبی وزیرستان، باجوڑ، مومند، اورکزئی اور خیبر ایجنسیوں سے بھی آئی ڈی پیز نقل مکانی کرکے آئے، لیکن ان کے لیے اس طریقے سے مناسب انتظامات نہیں کیے گئے تھے جیسے انتظامات اب شمالی وزیرستان سے آنے والوں کے لیے کیے جارہے ہیں۔ اب تک ساڑھے چار لاکھ سے زاید آئی ڈی پیز شمالی وزیرستان سے آچکے ہیں، لیکن ان میں سے صرف 200 کیمپوں میں موجود ہیں، کیوں کہ شمالی وزیرستان کی ثقافت ایسی ہے کہ یہ لوگ کیمپوں میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ تاہم جو لوگ موجود ہیں ان کو ہم پانی، بجلی اور خیموں سمیت تمام سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایکسپریس: کیا عالمی ادارے آپ کے ساتھ آئی ڈی پیز کے حوالے سے امدادی کاموں میں شریک ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ہمارے ساتھ آئی ڈی پیز کو سہولیات کی فراہمی میں شریک ہیں، کیوںکہ اقوام متحدہ پوری دنیا میں ایسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اس لیے یہاں پر بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہے، جب کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے تمام کاموں میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ تاہم، ہم نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی یہی بات کہتے ہیں کہ آئی ڈی پیز کے حوالے سے تمام معاملات ہم اپنے طور پر سنبھالیں گے، کیوںکہ یہ ہمارا مسئلہ ہے اور ہم کسی بھی طور عالمی برادری سے آئی ڈی پیز کی مدد کے لیے کوئی اپیل نہیں کریں گے۔
ایکسپریس: تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خیبرپختون خوا اسمبلی کی تحلیل کی بھی بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی وہ 14 اگست کو لانگ مارچ بھی کرنے جارہے ہیں۔ اگر وہ صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اقدام کرتے ہیں تو بہ حیثیت گورنر آپ کیا کردار ادا کریں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: اگر یہ لوگ میری بات مانیں تو اسمبلی کو تحلیل کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی، کیوںکہ یہ سیاسی عمل کسی کی خواہشات کے تحت نہیں بل کہ آئین کے تحت چل رہا ہے، جس کو جاری رہنا چاہیے اور تحریک انصاف کو یہ دیکھنا چاہیے کہ عوام نے انھیں ووٹ دیے اور منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجا، اس لیے اب وہ اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق کام کرتے ہوئے عوام کو ریلیف دیں، نہ کہ وہ اسمبلی تحلیل کردیں۔
ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ اب بھی خیبرپختون خوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں آپ کے زیراثر ہیں اور اہم مواقع پر وہ آپ ہی کی جانب راہ نمائی کے لیے دیکھتی ہیں، کیا یہ درست ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: میرا ایک طویل سیاسی کیریر ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے سیاسی تجربے اور مشاہدات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس لیے میرے دروازے حکومت اور اپوزیشن سب کے لیے کھلے ہیں اور ویسے بھی یہ میری آئینی ذمے داری ہے کہ میں سب سے ملوں نہ کہ میرے دروازے صرف حکومت کے لیے کھلے ہوں یا صرف اپوزیشن کے لیے، میں سب سے ملتا ہوں اور جسے بھی راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتا ہوں۔
ایکسپریس: لیکن گذشتہ دنوں قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پائو نے آپ سے جو ملاقات کی اسے تو کسی دوسرے تناظر میں دیکھا جارہا ہے؟ کیا یہ کوئی خاص ملاقات تھی یا پھر ویسے ہی ایک عام ملاقات؟
سردار مہتاب احمد خان: میرے لیے آفتاب احمد شیر پائو سمیت تمام سیاسی راہ نما قابل احترام ہیں۔ یہ گورنر ہائوس کسی خاص سیاسی پارٹی کا نہیں بل کہ سارے صوبے کا ہے، کیوںکہ اس جگہ پر صوبے کا آئینی سربراہ بیٹھتا ہے اور میں تمام سیاسی راہ نمائوں کا شکرگزار ہوں کہ وہ سیاسی امور پر مشاورت کے لیے میرے پاس آتے ہیں۔ تاہم ان ملاقاتوں کے پیچھے اگر کوئی کسی قسم کی تبدیلی دیکھ رہا ہے تو ایسی کوئی بات نہیں۔
ایکسپریس: کیا آپ فاٹا سیکریٹریٹ کے قبائلی علاقوں کی ترقی اور انتظامی امور سے متعلق کردار سے مطمئن ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: فاٹا سیکریٹریٹ کوئی اتنا پرانا نہیں بل کہ اسے چند سال قبل ہی قائم کیا گیا، اور جب فاٹا سیکریٹریٹ وجود میں آیا تو اس میں اداروں اور محکموں کو اس انداز سے ترتیب دینا شروع کردیا گیا جیسے یہ صوبائی حکومت کے اداروں کا کوئی متوازی اسٹرکچر ہو۔ تاہم اب ہم اسے ٹھیک کررہے ہیں، تاکہ غیرضروری شعبہ جات ختم ہوجائیں اور فاٹا سیکریٹریٹ حقیقی معنوں میں قبائلی علاقوں کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
ایکسپریس: جو کچھ عمران خان کررہے ہیں اور جو کچھ علامہ طاہرالقادری کی جانب سے کیاجارہا ہے، کیا اس سے جمہوریت کو خطرات لاحق نہیں ہوں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: اگرچہ میرے عہدے کا تقاضا ہے کہ میں سیاسی امور پر بات نہ کروں، تاہم یہ ملک کا معاملہ ہے، اس لیے میں اس ایشو پر بات کروں گا۔ پاکستان نے کئی زخم کھائے اور اس پر کئی تجربات ہوئے۔ یہاں پر مارشل لا نافذ ہوئے، جمہوری اور سیاسی حکومتیں آئیں، تاہم پہلی مرتبہ اس ملک میں یہ روایت مضبوط ہوئی ہے کہ ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دینا چاہیے اور اس کے بعد تبدیلی کا طریقہ آئینی ہونا چاہیے، یعنی الیکشن، جو نہایت ہی مثبت پیش رفت ہے۔
اس وقت ہمارا ملک انتہائی دل چسپ مرحلہ سے گزر رہا ہے، کیوںکہ اس خطے سے امریکا اور نیٹو افواج کا انخلاء ہونے والا ہے، جب کہ چین جو ہمارا دوست ملک ہے وہ اس ملک میں 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے اسے معاشی راہداری بنارہا ہے، جب کہ امن قائم ہوجانے کے بعد یہی قبائلی علاقہ ٹریڈ کے لیے روٹ بنے گا۔ تاہم اگر سیاسی جماعتوں نے اپنے غیرجمہوری رویوں اور طریقوں سے ملک کے نام کو نقصان پہنچایا تو یہ ساری سرمایہ کاری رک جائے گی، اس لیے عوام اور سیاسی پارٹیوں سب کو جمہوری رویے اختیار کرنے چاہیں۔
ایکسپریس: کیا فاٹا ریفارمز کمیشن ماضی میں قبائلی علاقوں کے حوالے سے کیے جانے والے کام اور رپورٹوں کا بھی جائزہ لے گا؟
سردار مہتاب احمد خان: فاٹا ریفارمز کمیشن ماضی میں کیے جانے والے سارے کا م کا جائزہ لے گا اور اس پر وہ اپنی سفارشات اور رائے دے گا، جس کا ہم منظم انداز میں جائزہ لیتے ہوئے فیصلے کریں گے۔
ایکسپریس: آپ صوبے کے وزیراعلیٰ بھی رہے اور اب گورنر ہیں، دونوں عہدوں میں کیا فرق ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: میں جو کام اب کررہا ہوں یہ مشکل کام ہے۔ گورنر ہائوس بڑی خوب صورت جگہ تو ہے لیکن یہ ایک قید خانہ ہے اور میں اس قید خانہ کا باسی ہوں۔ میں نے اپنی اسی قید کو ختم کرنے کے لیے قبائلی ایجنسیوں کے دورے شروع کیے، تاہم جہاں تک وزیراعلیٰ کی بات ہے تو اسے آزادی حاصل ہوتی ہے، کیوںکہ وزیراعلیٰ کا عہدہ عوامی عہدہ ہے، جو اپنی مرضی کے مطابق عوامی مزاج اور موڈ کو دیکھ کر کام کرتا ہے۔ گویا وزیراعلیٰ آزاد جب کہ گورنر محتاط ہوتا ہے۔
ایکسپریس: آپ کی سربراہی میں کام کرنے والی اعلیٰ ترین پالیسی ساز کمیٹی کو آپ کس حد تک سود مند سمجھتے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: مذکورہ کمیٹی کے ممبران میں میرے علاوہ وزیراعلیٰ اور کور کمانڈر پشاور شامل ہیں۔ یہ کمیٹی خاص حالات کے تحت بنائی گئی جس کا بنیادی فائدہ صوبائی حکومت کو ہوتا ہے، کیوں کہ کئی ایسے ایشوز اس فورم پر آتے ہیں جن کے حوالے سے صوبے کے معاملات زیربحث لائے جاتے ہیں اور ان کے حوالے سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے اور پھر خصوصی طور پر پشاور کہ جو صوبائی دارالحکومت بھی ہے اور مسائل میں گھرا ہوا بھی ، کے حوالے سے ہم صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔
ایکسپریس: فاٹا میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپنائی گئی ہے، کیوںکہ یہ دونوں بنیادی شعبے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: فاٹا میں تعلیم اور صحت کے شعبے بہت کم زور ہیں جن کے حوالے سے ہم نے پروگرام شروع کیا ہے۔ پرائمری سے ہائی اسکولوں تک کا ہم جائزہ لے رہے ہیں، تاکہ جو اسکول غیرضروری ہوں ان کو ختم کردیا جائے اور جن اسکولوں کی ضرورت ہے انہیں مضبوط کیا جائے۔ ہر قبائلی ایجنسی میں ایک ماڈل اسکول بھی قائم کیا جارہا ہے، جہاں طلباء یا طالبات کی تعداد زیاد ہ ہوئی تو وہاں پر بھی گورنر ماڈل اسکول قائم کیا جائے گا۔ ہم نے فاٹا میں صرف تعلیم اور صحت کے لیے 47 فی صد وسائل فراہم کیے ہیں، جب کہ ہم اسکولوں میں اساتذہ اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی کو بھی پورا کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں مارکیٹ سے بھی ڈاکٹر لانے پڑے تو ہم لائیں گے۔ اس کے علاوہ ہم نے فاٹا کے لیے گورنر ہیلتھ پروگرام شروع کیا ہے، جب کہ محروم طبقات کی مالی امداد کے لیے گورنر سپورٹ پروگرام کا آغاز بھی کررہے ہیں، جس کا انتظام ''تنظیم للسائل والمحرومین'' (متحدہ مجلس عمل کے دورحکومت میں غریبوں کی مدد کے لیے بنایا جانے کی طرز پر ہوگا، تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
ایکسپریس: کیا سابق چیف سیکرٹری عبداﷲ ہی اس تنظیم کے سربراہوں ہوں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: ہماری عبداﷲ صاحب کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، جنہوں نے اب تک تو ہامی نہیں بھری تاہم ہماری کوشش ہے کہ وہی یہ کام سنبھالیں۔
ایکسپریس: فاٹا کے لیے آنے والے غیرملکی امداد ضائع ہوجاتی ہے۔ اس کی مانیٹرنگ کیسے کی جائے، تاکہ یہ امداد ضائع نہ ہو؟
سردار مہتاب احمد خان: انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے اور ہم اس کے لیے نہایت ہی مناسب مانیٹرنگ کا نظام لارہے ہیں، تاکہ کوئی بھی سرمایہ یا امداد ضائع نہ ہو۔
ایکسپریس: اس سال فاٹا میں کتنے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: اس سال قبائلی علاقہ جات میں 500 سے زاید ترقیاتی اسکیمیں مکمل ہوں گی۔
وہ 1985ء سے متعدد بار قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے آئے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں، جب کہ 1997 ء میں پارٹی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے نام زد کردیا تھا۔ 12 اکتوبر 1999 ء کو جب منتخب حکومت کو ہٹایا گیا، تو اس وقت سردار مہتاب بطور وزیراعلیٰ سرکاری دورے پر سوات میں تھے۔
وہیں پر انہیں گرفتار پھر نظربند کردیا گیا۔ بعدازاں وہ رہا کیے گئے، لیکن ایک مرتبہ پھر انھیں گرفتار کرکے اٹک قلعے کے سیلن زدہ درودیوار کے سائے میں اسیری کے شب وروزگزارنے پڑے، جب کہ اکثر راتیں آنکھوں میں کاٹیں، سردار مہتاب احمد خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 2008 ء کے عام انتخابات میں انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں سے کام یابی حاصل کی، جب کہ اس وقت وہ سینیٹ کے رکن بھی تھے۔ یوں وہ بیک وقت تین ایوانوں کے رکن ہونے کا اعزاز بھی پاچکے ہیں۔
تاہم انہوں نے سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں چھوڑتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست کا انتخاب کیا۔ 2013ء کے انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر کام یابی تو حاصل کرگئے، لیکن قومی اسمبلی کی نشست پر انھیں تحریک انصاف کے امیدوار کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں اس مرتبہ ایک منجھے ہوئے سیاست داں کی صوبائی اسمبلی کے ایوان میں آمد ہوئی، جہاں انھیں قائد حزب اختلاف کا کردار نبھانے کا موقع ملا۔
سردار مہتاب عباسی نے صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اپنے ایک سال کے عرصے کے دوران ہر اہم موقع پر صوبے اور یہاں کے عوام کی بھرپور نمائندگی کی۔ بعد میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ان کے کاندھوں پر گورنر کے منصب کی بھاری ذمہ داریاں ڈال دیں اور انہوں نے رواں سال اپریل میں گورنر خیبرپختون خوا کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ یقینی طور پر ایسے حالات میں جب قبائلی علاقوں میں دہشت گردی ہورہی ہو، قیام امن کے لیے فوجی کارروائیاں بھی جاری ہوں اور لاکھوں کی تعداد میں قبائلی اپنے گھر بار چھوڑ کر آئی ڈی پیز بنے ہوں، تو گورنر کے عہدہ کو پھولوں کی سیج نہیں کہا جاسکتا۔
ان حالات کے تناظر میں گورنر کا عہدہ قبول اور متذکرہ چیلینجز کا سامنا کرنے کے حوالے سے ''ایکسپریس'' نے گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب احمد خان کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال نذر قارئین ہے ۔
ایکسپریس: آپ کو گورنر کا عہدہ سنبھالے دو ماہ سے زاید عرصہ ہوچکا ہے۔ اس دوران آپ کو کون سے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا اور اس ضمن میں آپ کی کیا ترجیحات رہی ہیں؟
سردار مہتاب احمدخان: مجھے گورنر کا عہدہ سنبھالے تقریباً70 دن ہوئے ہیں۔ اس عرصے کے دوران جس سب سے بڑے چیلینج کا سامنا کرنا پڑا وہ بدامنی کا ایشو ہے، جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں نہ تو سماجی زندگی اپنی روایتی رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور نہ ہی معاشی سرگرمیاں ہورہی ہیں، کیوں کہ لوگ اپنی زندگیوں کو بچانے کی فکر میں ہیں۔
انہیں دہشت کے عالم میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا، کیوںکہ جان ہے تو جہان ہے کے مصداق سب سے پہلے زندگی بچانے کی فکر ہر کوئی کرتا ہے۔ پھر یہ دیکھیے کہ جنوبی وزیرستان، اورکزئی، خیبر، تیراہ اور دیگر قبائلی ایجنسیوں سے لاکھوں کی تعداد میں افراد نقل مکانی کرتے ہوئے دوسرے علاقوں کی طرف آئے، جو کہ ایک بڑا انسانی المیہ ہے۔ یہ مسئلہ بھی ہے کہ قبائلی عوام کو وہاں کی انتظامیہ پر اعتماد نہیں، جب کہ وہ اس حوالے سے بھی شکوک وشبہات کا شکار ہیں کہ گورنر اور پولیٹیکل انتظامیہ ان کے مسائل حل بھی کریں گے یا نہیں۔
ان حالات میں ہماری کوشش ہے کہ ہم سماجی اور ترقیاتی سیکٹرز میں ثمرات عام آدمی تک پہنچاسکیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں نافذ انتظامی اور قبائلی ڈھانچا مل کر کام کرے، جو دہشت گردی کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے، جس کو بحال کرنا ہمارے لیے ایک چیلینج ہے۔ ساتھ ہی عوام کے اعتماد کی بحالی ہمارا نظر ہوگا۔
ایکسپریس: آپ جتنے چیلینجز کی بات کررہے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آپ کے پیش رو گورنروں نے ان سے نمٹنے کی کوئی کوشش نہیں کی؟
سردار مہتاب احمد خان: میں ماضی کی بات نہیں کررہا، میں تو ان چیلینجز کی بات کررہا ہوں، جو میں نے بطور گورنر محسوس کیے اور جن کے حوالے سے بات کی گئی۔ ماضی کے بارے میں بات کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
ایکسپریس: بطور گورنر فاٹا کے لیے آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: جن مسائل اور چیلینجز کا میں نے ذکر کیا ہے، انہیں حل کرنا اور پورے نظام کو ٹریک پر لانا، یہی میری ترجیحات ہیں، کیوںکہ اب تک فاٹا جس جمود کا شکار تھا، اس کی وجہ سے اس کا چلنا مشکل ہوگیا تھا۔ لوگ تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ہم ان کے اعتماد پر پورے اتریں۔
ایکسپریس: قبائلی علاقوں کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ وہاں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی باعزت طریقے سے واپسی ہے۔ اس حوالے سے آپ قبائلی علاقے میں کیا اقدامات کررہے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: یہ ایک بہت بڑا چیلینج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے گورنر کے عہدے کا حلف لیا تو اس کے ساتھ ہی میں نے قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے افراد کی ان کے علاقوں کو واپسی کا سلسلہ شروع کرادیا، جس کے لیے ہم نے خود بھی دورے کیے اور جرگوں کا انعقاد بھی کیا، جس کے نتیجے میں وادی تیراہ کے لوگوں کی واپسی شروع ہوئی۔
جب کہ ساتھ ہی قبائلی علاقوں میں ایریا ڈیویلپمنٹ پروگرام کا بھی آغاز کیا، کیوں کہ قبائلی علاقے67 سال سے ترقی سے محروم چلے آرہے ہیں۔ تیراہ سمیت کئی علاقوں میں لوگوں نے اپنے طور پر ترقی کے دروازے خود پر بند رکھے ہیں، جس کی وجہ سے آج یہ علاقے بہت زیادہ پس ماندہ ہیں۔ کرم ایجنسی میں2008 ء کے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرکے آئے، جن کی واپسی کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے اور یہ عمل چند ہفتوں میں مکمل ہوجائے گا۔
ہم نے اس مرتبہ تعمیرات، سماجی اور معاشی ترقی پر فوکس کیا ہوا ہے۔ ہم نے فاٹا کے لیے اصلاحاتی کمیشن بھی تشکیل دیا، جو ہمیں قبائلی علاقہ جات کے حوالے سے جامع سفارشات تیار کرکے دے گا، کیوں کہ 15سال میں فاٹا مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ اس کے تمام تقاضے تبدیل ہوگئے ہیں، ہمیں ان تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں بہت کچھ دینا ہے، تاکہ وہ اس ملک کا حصہ بن سکیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان کی جہاں اور جن سیکٹرز میں ضرورت ہے، ان ہی میں ان کو ترقی دی جائے، جب کہ ہم قبائلی عوام کو ٹیکنیکل ٹریننگ بھی دینا چاہتے ہیں، کیوں کہ دنیا مین ترقی کے لیے ٹیکنیکل ٹریننگ بہت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے سالانہ 1700 افرا د جو فاٹا سے فنی تربیت لیا کرتے تھے، ان کی تعداد کو بڑھا کر 10 ہزار کردی ہے، جس پر 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔
ایکسپریس: شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کو پاکستان کی بقاء کی جنگ کہا جارہا ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: حقیقی معنوں میں شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب ملکی بقاء کی جنگ ہے، کیوںکہ عسکریت پسندی ملک کو تباہی کے دہانے پر لے گئی تھی اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ آپریشن قبائلی علاقوں اور ملک بھر میں قیام امن کے حوالے سے نقطۂ آغاز ہے۔
جس کے بعد مزید بہتری آئے گی۔ بدامنی صرف ہمارے ملک میں نہیں آئی، بل کہ یہ دنیا کے بہت سے ممالک میں آتی رہی ہے اور ان ممالک کو بھی ہماری طرح مشکل وقت سے گزرنا پڑا ہے، لیکن پھر وہاں پر امن قائم ہوگیا۔ اسی طرح ہم بھی آج مشکل دور سے گزر رہے ہیں، لیکن یہ آپریشن ملک میں قیام امن کی ضمانت ہوگا اور اس کی کام یابی کے بعد ملک میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گا، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہو کیوںکہ یہ صرف افواج پاکستان کی نہیں پورے ملک کی جنگ ہے۔ جن کو بھی ملک سے محبت ہے انھیں اس جنگ میں اپنی افواج کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، تب ہی امن قائم ہوپائے گا۔
ایکسپریس: کیا آپریشن ضرب عضب کا ردعمل آنے کا امکان ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: اس آپریشن کے اثرات کچھ عرصہ تک ضرور ہوں گے، جس کے لیے قوم کو تیار رہنا چاہیے، کیوںکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہونے سے قبل کچھ دہشت گرد یقینی طور پر وہاں سے نکل کر مختلف جگہوں پر پھیل گئے ہوں گے، جن کے حوالے سے ہم سب کو الرٹ رہنا ہوگا تاکہ وہ ہم پر اچانک وار نہ کردیں اور یہ کام کسی ایک نے نہیں بل کہ ہم سب کو اپنے طور پر کرنا ہے۔ اگر کسی کے علاقے یا محلے میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جو مشکوک ہے، تو اس بارے میں فوری طور پر متعلقہ تھانے اور سیکیوریٹی فورسز کو مطلع کرنا چاہیے، تاکہ صورت حال کو کنٹرول کیا جاسکے، جو بھی حالات اس وقت ہیں ان کا مقابلہ کوئی بھی تنہا نہیں کرسکتا، بل کہ ہم سب کو مل کر ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
ایکسپریس: کیا افغانستان کی جانب سے پاکستان کو وہ مدد اور تعاون مل رہا ہے جو ان حالات میں ضروری ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل کر اس بدامنی کے خاتمے کے لیے کوششیں کریں۔ افغانستان میں تو 35 سال سے یہی صورت حال جاری ہے، کیوںکہ جب سے وہاں پر روسی افواج آئیں تب سے ایسی ہی صورت حال جاری ہے، جس کی وجہ سے اس پورے خطے کا توازن خراب ہوچکا ہے اور حکومتی اور ریاستی ڈھانچا ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ اس لیے پاکستان کی افواج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب، افغانستان کے لیے بھی سود مند ہوگا، کیوںکہ امن کا قیام صرف پاکستان کی نہیں بل کہ افغانستان کی بھی ضرورت ہے، جہاں ابھی الیکشن کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا۔ تاہم افغانستان میں الیکشن کا عمل مکمل ہونے پر جو بھی صدر بنتا ہے ۔
یہ اس کے لیے بھی ضروری ہے اور ہمارے لیے بھی کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ اسی وجہ سے وزیراعظم محمد نواز شریف نے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے ساتھ خود بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی جب کہ محمود خان اچکزئی کو انہوں نے اپنا خصوصی ایلچی بناکر افغانستان بھی بھیجا، تاکہ اس بارے میں کھل کر بات کی جاسکے، کیوںکہ پاکستان، افغانستان میں امن چاہتا ہے اور افغانستان کو بھی اسی ٹریک پر چلنا چاہیے، کیوںکہ دونوں ممالک کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
ایکسپریس: اگر قبائلی علاقوں میں امن کا قیام ہوجاتا ہے تو کیا فوج وہاں سے نکل جائے گی اور کیا سول انتظامیہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ وہاں کا انتظام سنبھال سکے؟
سردار مہتاب احمد خان: قبائلی علاقہ جات میں کئی سال سے فوج موجود ہے اور انتظامیہ کا نظام اتنا مضبوط نہیں ہے کہ جتنا ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے یہ بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے کہ قبائلی علاقوں کے انتظامی نظام کو مضبوط کیا جائے اور اسے مکمل طور پر بحال کیا جائے، تاکہ جب فوج قبائلی علاقوں میں قیام امن کے بعد واپس جائے تو اس صورت میں وہاں کی انتظامی مشینری سارا نظام سنبھال سکے اور اس مقصد کے لیے ہمیں قبائلی علاقوں کے انتظامی اور قبائلی ڈھانچے کو اس کی اصل شکل میں واپس لانا ہوگا، تاکہ وہ ماضی کی طرح کام کریں، اس پر وقت تو لگے گا لیکن ہم کام یاب ضرور ہوں گے۔
ایکسپریس: کیا قبائلی علاقہ جات میں ملک میں نافذ دیگر قوانین اور نظام لائے جانے کا کوئی پروگرام ہے یا فاٹا میں ایف سی آر اور موجودہ نظام ہی نافذ رہے گا؟
سردار مہتاب احمد خان: کوئی بھی نظام اپنے طور پر اچھا یا برا نہیں ہوتا بل کہ یہ اس کے چلانے والوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے کیسے چلاتے ہیں۔ ہم قبائلی علاقوں کے حوالے سے اس تاریخی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے اصلاحات کرنا چاہتے ہیں، جس کے لیے فاٹا اصلاحاتی کمیشن کو بڑے پیمانے پر اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ فاٹا میں نافذ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز پر نظر ثانی کریں، تاکہ پتا چل سکے کہ کس حد تک ہمیں اصلاحات کرنی ہوں گی، لیکن اگر یہ کہہ دیاجائے کہ ایف سی آر کا فوری طور پر خاتمہ کردیا جائے یا پھر قبائلی علاقوں میں جو نظام نافذ ہے۔
اسے یکسر طور پر تبدیل کردیا جائے، تو ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ البتہ اختلافی امور پر ضرور بات ہوسکتی ہے اور کریں گے، جیسے کریمنل جسٹس پر نظر ثانی ہونی چاہیے اور اس پر بات بھی کی جائے گی، تاکہ قبائلی عوام کو انصاف مل سکے اور اس قانون کا ظالمانہ استعمال نہ ہوسکے۔ ہمیں ایسا نظام لانا چاہیے کہ جس کے ذریعے ہم منصف بن سکیں، کیوںکہ سالہاسال سے قبائلی علاقوں میں وہاں کا نظام کم زور ہونے کی وجہ سے وہاں بڑے بڑے سنڈیکیٹ بن چکے ہیں، جو ریاست کے نظام پر حاوی ہورہے ہیں، لیکن ہم کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیں گے، جو بھی ریاست میں رہے گا وہ ریاست اور حکومت کی عمل داری بھی تسلیم کرے گا اور قوانین کی پابندی بھی کرے گا۔
ایکسپریس: گویا آپ ایک باپ کی طرح فاٹا کے معاملات چلانا چاہتے ہیں کہ جہاں ضرورت ہو وہاں شفقت کی جائے اور جہاں ضرورت پڑے وہاں سختی برتی جائے؟
سردار مہتاب احمد خان: کوئی بھی حکم راں ہو وہ باپ ہی کی طرح ہوتا ہے جسے اپنے معاملات کو موثر انداز میں چلانا پڑتا ہے۔ تاہم اس میں نرمی بھی رکھی جاتی ہے، تاکہ معاملات سہولت کے ساتھ چلتے رہیں۔
ایکسپریس: لیکن فاٹا کے لیے جو اصلاحاتی کمیشن آپ نے تشکیل دیا ہے اس کے چیئرمین اعجاز قریشی پر کئی اعتراضات سامنے آرہے ہیں۔ اس صورت حال میں آپ سمجھتے ہیں کہ وہ سہولت کے ساتھ کام کرسکیں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: اعتراض تو کسی پر بھی ہوسکتا ہے، لیکن جہاں تک فاٹا اصلاحاتی کمیشن کا تعلق ہے تو اس میں اعجاز قریشی اکیلے نہیں بل کہ ان کے ساتھ پوری ٹیم ہے اور یہ سارے ایسے لوگ ہیں جن کا ماضی بے داغ اور باوقار کیریئر کا حامل ہے، جب کہ اس کمیشن کے ارکان میں ہم مزید اضافہ بھی کرسکتے ہیں اور ویسے بھی کمیشن کو تو فاٹا میں بہتری لانے کے سلسلے میں اپنی سفارشات ہی دینی ہیں، جب کہ ان پر فیصلے تو ہمیں کرنے ہیں، جس کے لیے ہم فاٹا کے مستقبل کو بھی سامنے رکھیں گے اور اس کے حال کو بھی مد نظر رکھا جائے گا، جس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
ایکسپریس: آپ کے پیش رو گورنر اویس احمد غنی نے قبائلی علاقوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے انھیں صوبوں کا درجہ دینے کا منصوبہ تیار کررکھا تھا، کیا اس منصوبے پر غور کیا جارہا ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: گورنر ہائوس کی لائبریری میں بہت چیزیں دفن ہیں۔ ہر ایسا منصوبہ یا تجویز جس پر عمل نہ ہوسکا وہ اس قبرستان کا حصہ بن جاتی ہے، لیکن ہم کوئی بھی ایسا منصوبہ یا تجویز سامنے نہیں لائیں گے جس پر عمل نہ کیا جاسکے۔
ایکسپریس: قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی کی وجہ سے بھی نقصان ہوا اور اس سے قبل بھی فاٹا پس ماندگی کا شکار رہا ہے۔ کیا آپ مرکزی حکومت سے فاٹا کے لیے خصوصی پیکیج کے حصول کے لیے کوششیں کررہے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: ہمارے ملک میں نہ تو پیسے کی کمی ہے اور نہ ہی وسائل کی، اور ترقی کی راہ میں پیسے کی کمی رکاوٹ نہیں، مسئلہ تو بددیانتی اور وسائل کے غلط استعمال سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے تو وزیراعظم نے اس کے لیے پہلے بھی اضافی رقم دی ہے اور مزید بھی جتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی وزیراعظم اتنی رقم فراہم کریں گے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ تاہم اصل امتحان یہ ہوگا کہ یہ رقم جس بھی منصوبے کے لیے ہو اسی پر خرچ کی جائے۔
ایکسپریس: صوبائی حکومت کے ساتھ آپ کے تعلقات کیسے ہیں، آئیڈیل، نارمل یا پھر۔۔۔۔؟
سردار مہتاب احمد خان: میں صوبے کے آئینی سربراہ کے طور پر باوقار طریقے سے اپنا آئینی کردار ادا کررہا ہوں۔ صوبائی حکومت کو مکمل طور پر سپورٹ کررہا ہوں، جہاں ان کو میری مدد کی ضرورت ہوتی ہے میں ان کی مدد بھی کرتا ہوں اور صوبے کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کے حل میں بھی دل چسپی لیتا ہوں، لیکن جہاں تک حکومت کرنے کی بات ہے تو یہ حق وزیراعلیٰ کو حاصل ہے، کیوں کہ صوبے کے عوام، آئین اور اسمبلی نے یہ حق وزیراعلیٰ کو دیا ہے، جن کے ساتھ اپنی پوری ٹیم موجود ہے۔
تاہم مسائل کو حل کرنے میں تب سہولت رہتی ہے جب گورنر اور وزیراعلیٰ مل کر کام کریں، جیسے اب شمالی وزیرستان سے آئی ڈی پیز آئے تو ہمیں صوبائی حکومت کی مدد کی ضرورت پڑی، کیوں کہ یہ تمام آئی ڈی پیز صوبے کے بندوبستی علاقوں ہی میں ہیں، جن کی مدد کے لیے صوبائی حکومت کی مشینری کام کررہی ہے اور یہ سارے مسائل حل بھی تب ہی ہوں گے کہ جب ہم مل کر کام کریں گے۔
ایکسپریس: لیکن صوبائی حکومت تو کہتی رہی ہے کہ اسے آپریشن کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا، حالاںکہ سارے معاملات مل کر ہی دیکھے جارہے تھے؟
سردار مہتاب احمد خان: ہمیں پیچھے دیکھنے کے بجائے آگے کی طرف جانا چاہیے۔ یہ باتیں اب پیچھے رہ گئیں اور ماضی کا حصہ بن گئی ہیں۔ اس لیے اب ان باتوں سے آگے آکر آپریشن اور آئی ڈی پیز کے حوالے سے بات کرنی چاہیے۔
ایکسپریس: لاکھوں کی تعداد میں آئی ڈی پیز شمالی وزیرستان سے آرہے ہیں، لیکن ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھرپور وقت حکومت کو نہیں مل سکا۔ اگر حکومت کو آپریشن کے بارے میں بروقت بتادیا جاتا تو کیا معاملات زیادہ بہتر طریقے سے نہ چلائے جاتے؟
سردار مہتاب احمد خان: یقینًا لاکھوں کی تعداد میں آئی ڈی پیز آرہے ہیں جن کے حوالے سے تیاری کے لیے انتہائی کم وقت ملا اور انتظامات سنبھالنے میں مشکل ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شکایات بھی موجود ہیں اور خامیاں اور کوتاہیاں بھی، جن پر ہم ایکشن بھی لے رہے ہیں اور ان کو درست بھی کررہے ہیں، تاکہ آئی ڈی پیز کو ریلیف مل سکے، کیوںکہ وہ لوگ اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر آچکے ہیں۔ میں نے گورنر ہائوس میں ہیلپ لائن قائم کی ہے اور انفرادی نوعیت کی شکایات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس سے قبل جنوبی وزیرستان، باجوڑ، مومند، اورکزئی اور خیبر ایجنسیوں سے بھی آئی ڈی پیز نقل مکانی کرکے آئے، لیکن ان کے لیے اس طریقے سے مناسب انتظامات نہیں کیے گئے تھے جیسے انتظامات اب شمالی وزیرستان سے آنے والوں کے لیے کیے جارہے ہیں۔ اب تک ساڑھے چار لاکھ سے زاید آئی ڈی پیز شمالی وزیرستان سے آچکے ہیں، لیکن ان میں سے صرف 200 کیمپوں میں موجود ہیں، کیوں کہ شمالی وزیرستان کی ثقافت ایسی ہے کہ یہ لوگ کیمپوں میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ تاہم جو لوگ موجود ہیں ان کو ہم پانی، بجلی اور خیموں سمیت تمام سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایکسپریس: کیا عالمی ادارے آپ کے ساتھ آئی ڈی پیز کے حوالے سے امدادی کاموں میں شریک ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ہمارے ساتھ آئی ڈی پیز کو سہولیات کی فراہمی میں شریک ہیں، کیوںکہ اقوام متحدہ پوری دنیا میں ایسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اس لیے یہاں پر بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہے، جب کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے تمام کاموں میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ تاہم، ہم نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی یہی بات کہتے ہیں کہ آئی ڈی پیز کے حوالے سے تمام معاملات ہم اپنے طور پر سنبھالیں گے، کیوںکہ یہ ہمارا مسئلہ ہے اور ہم کسی بھی طور عالمی برادری سے آئی ڈی پیز کی مدد کے لیے کوئی اپیل نہیں کریں گے۔
ایکسپریس: تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خیبرپختون خوا اسمبلی کی تحلیل کی بھی بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی وہ 14 اگست کو لانگ مارچ بھی کرنے جارہے ہیں۔ اگر وہ صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اقدام کرتے ہیں تو بہ حیثیت گورنر آپ کیا کردار ادا کریں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: اگر یہ لوگ میری بات مانیں تو اسمبلی کو تحلیل کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی، کیوںکہ یہ سیاسی عمل کسی کی خواہشات کے تحت نہیں بل کہ آئین کے تحت چل رہا ہے، جس کو جاری رہنا چاہیے اور تحریک انصاف کو یہ دیکھنا چاہیے کہ عوام نے انھیں ووٹ دیے اور منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجا، اس لیے اب وہ اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق کام کرتے ہوئے عوام کو ریلیف دیں، نہ کہ وہ اسمبلی تحلیل کردیں۔
ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ اب بھی خیبرپختون خوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں آپ کے زیراثر ہیں اور اہم مواقع پر وہ آپ ہی کی جانب راہ نمائی کے لیے دیکھتی ہیں، کیا یہ درست ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: میرا ایک طویل سیاسی کیریر ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے سیاسی تجربے اور مشاہدات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس لیے میرے دروازے حکومت اور اپوزیشن سب کے لیے کھلے ہیں اور ویسے بھی یہ میری آئینی ذمے داری ہے کہ میں سب سے ملوں نہ کہ میرے دروازے صرف حکومت کے لیے کھلے ہوں یا صرف اپوزیشن کے لیے، میں سب سے ملتا ہوں اور جسے بھی راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتا ہوں۔
ایکسپریس: لیکن گذشتہ دنوں قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پائو نے آپ سے جو ملاقات کی اسے تو کسی دوسرے تناظر میں دیکھا جارہا ہے؟ کیا یہ کوئی خاص ملاقات تھی یا پھر ویسے ہی ایک عام ملاقات؟
سردار مہتاب احمد خان: میرے لیے آفتاب احمد شیر پائو سمیت تمام سیاسی راہ نما قابل احترام ہیں۔ یہ گورنر ہائوس کسی خاص سیاسی پارٹی کا نہیں بل کہ سارے صوبے کا ہے، کیوںکہ اس جگہ پر صوبے کا آئینی سربراہ بیٹھتا ہے اور میں تمام سیاسی راہ نمائوں کا شکرگزار ہوں کہ وہ سیاسی امور پر مشاورت کے لیے میرے پاس آتے ہیں۔ تاہم ان ملاقاتوں کے پیچھے اگر کوئی کسی قسم کی تبدیلی دیکھ رہا ہے تو ایسی کوئی بات نہیں۔
ایکسپریس: کیا آپ فاٹا سیکریٹریٹ کے قبائلی علاقوں کی ترقی اور انتظامی امور سے متعلق کردار سے مطمئن ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: فاٹا سیکریٹریٹ کوئی اتنا پرانا نہیں بل کہ اسے چند سال قبل ہی قائم کیا گیا، اور جب فاٹا سیکریٹریٹ وجود میں آیا تو اس میں اداروں اور محکموں کو اس انداز سے ترتیب دینا شروع کردیا گیا جیسے یہ صوبائی حکومت کے اداروں کا کوئی متوازی اسٹرکچر ہو۔ تاہم اب ہم اسے ٹھیک کررہے ہیں، تاکہ غیرضروری شعبہ جات ختم ہوجائیں اور فاٹا سیکریٹریٹ حقیقی معنوں میں قبائلی علاقوں کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
ایکسپریس: جو کچھ عمران خان کررہے ہیں اور جو کچھ علامہ طاہرالقادری کی جانب سے کیاجارہا ہے، کیا اس سے جمہوریت کو خطرات لاحق نہیں ہوں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: اگرچہ میرے عہدے کا تقاضا ہے کہ میں سیاسی امور پر بات نہ کروں، تاہم یہ ملک کا معاملہ ہے، اس لیے میں اس ایشو پر بات کروں گا۔ پاکستان نے کئی زخم کھائے اور اس پر کئی تجربات ہوئے۔ یہاں پر مارشل لا نافذ ہوئے، جمہوری اور سیاسی حکومتیں آئیں، تاہم پہلی مرتبہ اس ملک میں یہ روایت مضبوط ہوئی ہے کہ ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دینا چاہیے اور اس کے بعد تبدیلی کا طریقہ آئینی ہونا چاہیے، یعنی الیکشن، جو نہایت ہی مثبت پیش رفت ہے۔
اس وقت ہمارا ملک انتہائی دل چسپ مرحلہ سے گزر رہا ہے، کیوںکہ اس خطے سے امریکا اور نیٹو افواج کا انخلاء ہونے والا ہے، جب کہ چین جو ہمارا دوست ملک ہے وہ اس ملک میں 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے اسے معاشی راہداری بنارہا ہے، جب کہ امن قائم ہوجانے کے بعد یہی قبائلی علاقہ ٹریڈ کے لیے روٹ بنے گا۔ تاہم اگر سیاسی جماعتوں نے اپنے غیرجمہوری رویوں اور طریقوں سے ملک کے نام کو نقصان پہنچایا تو یہ ساری سرمایہ کاری رک جائے گی، اس لیے عوام اور سیاسی پارٹیوں سب کو جمہوری رویے اختیار کرنے چاہیں۔
ایکسپریس: کیا فاٹا ریفارمز کمیشن ماضی میں قبائلی علاقوں کے حوالے سے کیے جانے والے کام اور رپورٹوں کا بھی جائزہ لے گا؟
سردار مہتاب احمد خان: فاٹا ریفارمز کمیشن ماضی میں کیے جانے والے سارے کا م کا جائزہ لے گا اور اس پر وہ اپنی سفارشات اور رائے دے گا، جس کا ہم منظم انداز میں جائزہ لیتے ہوئے فیصلے کریں گے۔
ایکسپریس: آپ صوبے کے وزیراعلیٰ بھی رہے اور اب گورنر ہیں، دونوں عہدوں میں کیا فرق ہے؟
سردار مہتاب احمد خان: میں جو کام اب کررہا ہوں یہ مشکل کام ہے۔ گورنر ہائوس بڑی خوب صورت جگہ تو ہے لیکن یہ ایک قید خانہ ہے اور میں اس قید خانہ کا باسی ہوں۔ میں نے اپنی اسی قید کو ختم کرنے کے لیے قبائلی ایجنسیوں کے دورے شروع کیے، تاہم جہاں تک وزیراعلیٰ کی بات ہے تو اسے آزادی حاصل ہوتی ہے، کیوںکہ وزیراعلیٰ کا عہدہ عوامی عہدہ ہے، جو اپنی مرضی کے مطابق عوامی مزاج اور موڈ کو دیکھ کر کام کرتا ہے۔ گویا وزیراعلیٰ آزاد جب کہ گورنر محتاط ہوتا ہے۔
ایکسپریس: آپ کی سربراہی میں کام کرنے والی اعلیٰ ترین پالیسی ساز کمیٹی کو آپ کس حد تک سود مند سمجھتے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: مذکورہ کمیٹی کے ممبران میں میرے علاوہ وزیراعلیٰ اور کور کمانڈر پشاور شامل ہیں۔ یہ کمیٹی خاص حالات کے تحت بنائی گئی جس کا بنیادی فائدہ صوبائی حکومت کو ہوتا ہے، کیوں کہ کئی ایسے ایشوز اس فورم پر آتے ہیں جن کے حوالے سے صوبے کے معاملات زیربحث لائے جاتے ہیں اور ان کے حوالے سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے اور پھر خصوصی طور پر پشاور کہ جو صوبائی دارالحکومت بھی ہے اور مسائل میں گھرا ہوا بھی ، کے حوالے سے ہم صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔
ایکسپریس: فاٹا میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپنائی گئی ہے، کیوںکہ یہ دونوں بنیادی شعبے ہیں؟
سردار مہتاب احمد خان: فاٹا میں تعلیم اور صحت کے شعبے بہت کم زور ہیں جن کے حوالے سے ہم نے پروگرام شروع کیا ہے۔ پرائمری سے ہائی اسکولوں تک کا ہم جائزہ لے رہے ہیں، تاکہ جو اسکول غیرضروری ہوں ان کو ختم کردیا جائے اور جن اسکولوں کی ضرورت ہے انہیں مضبوط کیا جائے۔ ہر قبائلی ایجنسی میں ایک ماڈل اسکول بھی قائم کیا جارہا ہے، جہاں طلباء یا طالبات کی تعداد زیاد ہ ہوئی تو وہاں پر بھی گورنر ماڈل اسکول قائم کیا جائے گا۔ ہم نے فاٹا میں صرف تعلیم اور صحت کے لیے 47 فی صد وسائل فراہم کیے ہیں، جب کہ ہم اسکولوں میں اساتذہ اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی کو بھی پورا کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں مارکیٹ سے بھی ڈاکٹر لانے پڑے تو ہم لائیں گے۔ اس کے علاوہ ہم نے فاٹا کے لیے گورنر ہیلتھ پروگرام شروع کیا ہے، جب کہ محروم طبقات کی مالی امداد کے لیے گورنر سپورٹ پروگرام کا آغاز بھی کررہے ہیں، جس کا انتظام ''تنظیم للسائل والمحرومین'' (متحدہ مجلس عمل کے دورحکومت میں غریبوں کی مدد کے لیے بنایا جانے کی طرز پر ہوگا، تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
ایکسپریس: کیا سابق چیف سیکرٹری عبداﷲ ہی اس تنظیم کے سربراہوں ہوں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: ہماری عبداﷲ صاحب کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، جنہوں نے اب تک تو ہامی نہیں بھری تاہم ہماری کوشش ہے کہ وہی یہ کام سنبھالیں۔
ایکسپریس: فاٹا کے لیے آنے والے غیرملکی امداد ضائع ہوجاتی ہے۔ اس کی مانیٹرنگ کیسے کی جائے، تاکہ یہ امداد ضائع نہ ہو؟
سردار مہتاب احمد خان: انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے اور ہم اس کے لیے نہایت ہی مناسب مانیٹرنگ کا نظام لارہے ہیں، تاکہ کوئی بھی سرمایہ یا امداد ضائع نہ ہو۔
ایکسپریس: اس سال فاٹا میں کتنے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوں گے؟
سردار مہتاب احمد خان: اس سال قبائلی علاقہ جات میں 500 سے زاید ترقیاتی اسکیمیں مکمل ہوں گی۔