امریکی جنگِ آزادی کا یہودی ہیرو
خائم بچہ ہی تھا کہ اس کے خاندان نے تلاشِ معاش کے سلسلے میں متعدد یورپی سلطنتوں کی خاک چھانی
امریکی تحریک آزادی کا ایک بہت اہم کردار خائم سولومن نامی یہودی مالیاتی بروکر ہے۔ وہ نہ ہوتا تو شاید جنگِ آزادی اور اس کے فوراً بعد کا امریکا کچھ اور ہی ہوتا۔
مارچ چودہ سو بانوے میں جب ہسپانوی مسلمانوں اور یہودیوں کو ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کی جانب سے چار ماہ میں ملک چھوڑنے یا عسیائی مذہب اختیار کرنے کا حکم ملا تو وطن بدر ہونے والوں میں خائم سولومن کے آبا و اجداد بھی تھے جو پہلے شمالی افریقہ میں اترے اور پھر ہوتے ہواتے اس خاندان کی اگلی نسلیں بالاخر مشرقی یورپ میں آباد ہو گئیں۔وہیں سترہ سو چالیس میں لیزنو کے پولش قصبے میں خائم سولومن کی پیدائش ہوئی۔
خائم بچہ ہی تھا کہ اس کے خاندان نے تلاشِ معاش کے سلسلے میں متعدد یورپی سلطنتوں کی خاک چھانی۔اس سفر کے دوران خائم نے متعدد زبانوں کے علاوہ اور تجارت و سرمایہ کاری کے گر سیکھے۔سترہ سو ستر میں یہ خاندان دوبارہ پولینڈ آ گیا مگر دو برس بعد ہی پولینڈ کی ریاست کی ہمسایہ ممالک کے ہاتھوں بندربانٹ کے بعد اس خاندان نے برطانیہ ہجرت کی۔
لیکن تین برس بعد ہی خائم نے امریکا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور نیویارک پہنچ کر سمندر پار تجارت کرنے والی کمپنیوں کے لیے بروکری کا کام کرنے لگا۔ساتھ ہی ساتھ وہ برطانیہ کے خلاف متحرک آزادی پسند گروہوں سے ہمدردی میں بھی مبتلا ہو گیا اور نیویارک میں متحرک '' سنز آف لبرٹی '' نامی ایک گروہ سے منسلک ہو گیا۔برطانوی انتظامیہ نے اسے جاسوسی کے شبہے میں پکڑ لیا۔اس دوران امریکی فاؤنڈنگ فادرز نے چار جولائی سترہ سو چھہتر کو برطانیہ سے یکطرفہ آزادی کا اعلان کر دیا۔مگر جنگ جاری رہی۔
ڈیڑھ برس بعد برٹش نوآبادیاتی انتظامیہ نے خائم کو رہا کر دیا۔البتہ کچھ عرصے بعد پھر انٹیلی جینس اطلاعات کی بنیاد پر پکڑا گیا اور ایک فوجی ٹریبونل نے اسے باغیوں سے ربط ضبط کے الزام میں سزاِ موت سنائی۔مگر خائم جیل کے عملے میں موجود حریت پسندوں سے ہمدردی رکھنے والے کچھ اہلکاروں کی مدد سے کسی نہ کسی طور فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور فلاڈیلفیا کے آزاد علاقے میں پہنچ گیا۔وہاں اس کا باقی خاندان بھی برطانیہ سے ہجرت کر کے آباد ہو چکا تھا۔
انھی دنوں فلاڈیلفیا میں میثاقِ آزادی پر دستخط کرنے والی تیرہ امریکی ریاستوں کی آئین ساز کانگریس بھی جاری تھی۔خائم نے وہاں امریکی تحریکِ آزادی کی مدد کرنے والے ملک فرانس کے تاجروں کے لیے بروکری شروع کر دی۔اس کام سے ہونے والی بیشتر آمدنی خائم نے امریکا کی مکمل آزادی کے کاز کے لیے وقف کردی۔
اگست سترہ سو اکیاسی میں جارج واشنگٹن کے حریت پسند جتھوں اور فرانسیسی دستوں نے ورجینیا کے ساحلی شہر یارک ٹاؤن میں برطانوی جنرل چارلس کارنوالس کی فوج کا محاصرہ کر لیا۔مگر جارج واشنگٹن کے سپاہیوں کا اپنا حال بھی برا تھا۔اسلحے ، خوراک حتی کہ وردیوں اور جوتوں کی شدید قلت درپیش تھی۔خدشہ تھا کہ مکمل تیاری کے بغیر یہ آخری فیصلہ کن جنگ جیتنا محال ہو جائے گا۔
چنانچہ خائم سولولن کی مدد سے مالیاتی مارکیٹ سے بیس ہزار ڈالر اکٹھے کیے گئے۔کسی حد تک اس بروقت مالی مدد کے سبب جارج واشنگٹن کے دستوں نے فرانسیسی اتحادیوں کی مدد سے برطانیہ کو فیصلہ کن شکست دی۔اس کے بعد برطانوی فوجوں کا امریکی ساحلوں سے انخلا شروع ہو گیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد خائم سولومن نے نئی کانگریس کے بہت سے ارکان کی بھی مالی مدد کی اور کبھی اپنے منہ سے رقم کی واپسی کا تقاضا نہیں کیا۔
تین ستمبر سترہ سو تراسی کو پیرس معاہدے کے نتیجے میں برطانیہ ، فرانس اور امریکا کے مابین امن قائم ہو گیا۔برطانیہ نے جارج واشنگٹن کی حکومت کو باضابطہ تسلیم کر لیا۔مگر ملک چلانے کے لیے پیسے اور وسائل کا کال تھا۔امریکا کی عبوری حکومت ساڑھے چار سالہ جنگِ آزادی کے دوران فرانس سے بھی بھاری قرض لے چکی تھی اور اسے چکانے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔
خائم سولومن نے سترہ سو اکیاسی اور چوراسی کے درمیان جارج واشنگٹن کی حکومت کو فنانشل بانڈز فروخت کر کے پچھتر قسطوں میں ساڑھے چھ لاکھ ڈالر مالیت کا قرض فراہم کیا۔آج کے حساب سے اس رقم کی مالیت لگ بھگ دو ارب ڈالر بنتی ہے۔
جنوری سترہ سو پچاسی میں خائم کا چوالیس برس کی عمر میں اچانک انتقال ہوگیا۔جب وہ مرا تو اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔وہ اپنی بیشتر آمدنی نوآزاد ملک کی نوزائیدہ حکومت کے لیے وقف کر چکا تھا اور کنگلی حکومت سے خائم کو اپنی رقم کی واپسی کی کوئی امید نہیں تھی۔
خائم کو قومی اعزاز کے ساتھ فلاڈیلفیا کے یہودی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اس قبرستان کا نام بدل کر خائم سالومن میموریل پارک رکھا گیا۔اس کی وفات کے ایک سو سات برس بعد اٹھارہ سو ترانوے میں باون ویں امریکی کانگریس نے خائم سالومن کے نام سے ایک خصوصی طلائی تمغے کا اجرا کیا۔مختلف ادوار میں اس کے مجسمے شکاگو ، لاس اینجلس اور نیویارک کے متعدد پارکس میں ایستادہ کیے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک امریکی جنگی بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی کا نام بدل کے یوایس ایس سالومن رکھا گیا۔
انیس سو پچھتر میں یو ایس پوسٹل سروسز نے خائم سالومن کی یاد میں خصوصی ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔اس کی پشت پر لکھا تھا '' فنانشل ہیرو ، بزنس مین اور بروکر خائم سولومن نے امریکی انقلاب کی جدوجہد میں کامیابی کے لیے سب سے زیادہ رقم جمع کی اور انقلاب کے بعد ایک نئی قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا رکھنے میں مدد دی ''۔
خائم سالومن نے آزاد امریکا کے قیام میں جو کردار ادا کیا۔اس کی چھاپ امریکی سیاسی و ریاستی نفسیات پر اتنی گہری تھی کہ آنے والی دہائیوں میں خائم کی قومی خدمات کے طفیل یہودی کمیونٹی کے لیے بھی ملک گیر سطح پر ایک نرم گوشہ پیدا ہو گیا۔ یہ چھاپ اتنی گہری ہے کہ پونے تین سو برس میں حالات کے اتار چڑھاؤ کے باوجود مدھم نہ ہو سکی۔
خائم سالومن امریکا کی یہودی کمیونٹی کا سب سے بڑا ہیرو ہے۔ کمیونٹی کے دیگر لوگ آنے والے برسوں میں کن کن ذمے دار عہدوں پر فائز رہے اور اپنی کمیونٹی کی طاقت بنتے رہے۔اس کا تذکرہ اگلے مضمون میں ہو گا۔تاکہ آپ کو امریکا کا ریاستی ذہن پڑھنے میں آسانی ہو سکے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
مارچ چودہ سو بانوے میں جب ہسپانوی مسلمانوں اور یہودیوں کو ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کی جانب سے چار ماہ میں ملک چھوڑنے یا عسیائی مذہب اختیار کرنے کا حکم ملا تو وطن بدر ہونے والوں میں خائم سولومن کے آبا و اجداد بھی تھے جو پہلے شمالی افریقہ میں اترے اور پھر ہوتے ہواتے اس خاندان کی اگلی نسلیں بالاخر مشرقی یورپ میں آباد ہو گئیں۔وہیں سترہ سو چالیس میں لیزنو کے پولش قصبے میں خائم سولومن کی پیدائش ہوئی۔
خائم بچہ ہی تھا کہ اس کے خاندان نے تلاشِ معاش کے سلسلے میں متعدد یورپی سلطنتوں کی خاک چھانی۔اس سفر کے دوران خائم نے متعدد زبانوں کے علاوہ اور تجارت و سرمایہ کاری کے گر سیکھے۔سترہ سو ستر میں یہ خاندان دوبارہ پولینڈ آ گیا مگر دو برس بعد ہی پولینڈ کی ریاست کی ہمسایہ ممالک کے ہاتھوں بندربانٹ کے بعد اس خاندان نے برطانیہ ہجرت کی۔
لیکن تین برس بعد ہی خائم نے امریکا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور نیویارک پہنچ کر سمندر پار تجارت کرنے والی کمپنیوں کے لیے بروکری کا کام کرنے لگا۔ساتھ ہی ساتھ وہ برطانیہ کے خلاف متحرک آزادی پسند گروہوں سے ہمدردی میں بھی مبتلا ہو گیا اور نیویارک میں متحرک '' سنز آف لبرٹی '' نامی ایک گروہ سے منسلک ہو گیا۔برطانوی انتظامیہ نے اسے جاسوسی کے شبہے میں پکڑ لیا۔اس دوران امریکی فاؤنڈنگ فادرز نے چار جولائی سترہ سو چھہتر کو برطانیہ سے یکطرفہ آزادی کا اعلان کر دیا۔مگر جنگ جاری رہی۔
ڈیڑھ برس بعد برٹش نوآبادیاتی انتظامیہ نے خائم کو رہا کر دیا۔البتہ کچھ عرصے بعد پھر انٹیلی جینس اطلاعات کی بنیاد پر پکڑا گیا اور ایک فوجی ٹریبونل نے اسے باغیوں سے ربط ضبط کے الزام میں سزاِ موت سنائی۔مگر خائم جیل کے عملے میں موجود حریت پسندوں سے ہمدردی رکھنے والے کچھ اہلکاروں کی مدد سے کسی نہ کسی طور فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور فلاڈیلفیا کے آزاد علاقے میں پہنچ گیا۔وہاں اس کا باقی خاندان بھی برطانیہ سے ہجرت کر کے آباد ہو چکا تھا۔
انھی دنوں فلاڈیلفیا میں میثاقِ آزادی پر دستخط کرنے والی تیرہ امریکی ریاستوں کی آئین ساز کانگریس بھی جاری تھی۔خائم نے وہاں امریکی تحریکِ آزادی کی مدد کرنے والے ملک فرانس کے تاجروں کے لیے بروکری شروع کر دی۔اس کام سے ہونے والی بیشتر آمدنی خائم نے امریکا کی مکمل آزادی کے کاز کے لیے وقف کردی۔
اگست سترہ سو اکیاسی میں جارج واشنگٹن کے حریت پسند جتھوں اور فرانسیسی دستوں نے ورجینیا کے ساحلی شہر یارک ٹاؤن میں برطانوی جنرل چارلس کارنوالس کی فوج کا محاصرہ کر لیا۔مگر جارج واشنگٹن کے سپاہیوں کا اپنا حال بھی برا تھا۔اسلحے ، خوراک حتی کہ وردیوں اور جوتوں کی شدید قلت درپیش تھی۔خدشہ تھا کہ مکمل تیاری کے بغیر یہ آخری فیصلہ کن جنگ جیتنا محال ہو جائے گا۔
چنانچہ خائم سولولن کی مدد سے مالیاتی مارکیٹ سے بیس ہزار ڈالر اکٹھے کیے گئے۔کسی حد تک اس بروقت مالی مدد کے سبب جارج واشنگٹن کے دستوں نے فرانسیسی اتحادیوں کی مدد سے برطانیہ کو فیصلہ کن شکست دی۔اس کے بعد برطانوی فوجوں کا امریکی ساحلوں سے انخلا شروع ہو گیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد خائم سولومن نے نئی کانگریس کے بہت سے ارکان کی بھی مالی مدد کی اور کبھی اپنے منہ سے رقم کی واپسی کا تقاضا نہیں کیا۔
تین ستمبر سترہ سو تراسی کو پیرس معاہدے کے نتیجے میں برطانیہ ، فرانس اور امریکا کے مابین امن قائم ہو گیا۔برطانیہ نے جارج واشنگٹن کی حکومت کو باضابطہ تسلیم کر لیا۔مگر ملک چلانے کے لیے پیسے اور وسائل کا کال تھا۔امریکا کی عبوری حکومت ساڑھے چار سالہ جنگِ آزادی کے دوران فرانس سے بھی بھاری قرض لے چکی تھی اور اسے چکانے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔
خائم سولومن نے سترہ سو اکیاسی اور چوراسی کے درمیان جارج واشنگٹن کی حکومت کو فنانشل بانڈز فروخت کر کے پچھتر قسطوں میں ساڑھے چھ لاکھ ڈالر مالیت کا قرض فراہم کیا۔آج کے حساب سے اس رقم کی مالیت لگ بھگ دو ارب ڈالر بنتی ہے۔
جنوری سترہ سو پچاسی میں خائم کا چوالیس برس کی عمر میں اچانک انتقال ہوگیا۔جب وہ مرا تو اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔وہ اپنی بیشتر آمدنی نوآزاد ملک کی نوزائیدہ حکومت کے لیے وقف کر چکا تھا اور کنگلی حکومت سے خائم کو اپنی رقم کی واپسی کی کوئی امید نہیں تھی۔
خائم کو قومی اعزاز کے ساتھ فلاڈیلفیا کے یہودی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اس قبرستان کا نام بدل کر خائم سالومن میموریل پارک رکھا گیا۔اس کی وفات کے ایک سو سات برس بعد اٹھارہ سو ترانوے میں باون ویں امریکی کانگریس نے خائم سالومن کے نام سے ایک خصوصی طلائی تمغے کا اجرا کیا۔مختلف ادوار میں اس کے مجسمے شکاگو ، لاس اینجلس اور نیویارک کے متعدد پارکس میں ایستادہ کیے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک امریکی جنگی بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی کا نام بدل کے یوایس ایس سالومن رکھا گیا۔
انیس سو پچھتر میں یو ایس پوسٹل سروسز نے خائم سالومن کی یاد میں خصوصی ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔اس کی پشت پر لکھا تھا '' فنانشل ہیرو ، بزنس مین اور بروکر خائم سولومن نے امریکی انقلاب کی جدوجہد میں کامیابی کے لیے سب سے زیادہ رقم جمع کی اور انقلاب کے بعد ایک نئی قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا رکھنے میں مدد دی ''۔
خائم سالومن نے آزاد امریکا کے قیام میں جو کردار ادا کیا۔اس کی چھاپ امریکی سیاسی و ریاستی نفسیات پر اتنی گہری تھی کہ آنے والی دہائیوں میں خائم کی قومی خدمات کے طفیل یہودی کمیونٹی کے لیے بھی ملک گیر سطح پر ایک نرم گوشہ پیدا ہو گیا۔ یہ چھاپ اتنی گہری ہے کہ پونے تین سو برس میں حالات کے اتار چڑھاؤ کے باوجود مدھم نہ ہو سکی۔
خائم سالومن امریکا کی یہودی کمیونٹی کا سب سے بڑا ہیرو ہے۔ کمیونٹی کے دیگر لوگ آنے والے برسوں میں کن کن ذمے دار عہدوں پر فائز رہے اور اپنی کمیونٹی کی طاقت بنتے رہے۔اس کا تذکرہ اگلے مضمون میں ہو گا۔تاکہ آپ کو امریکا کا ریاستی ذہن پڑھنے میں آسانی ہو سکے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)