معیشت میں بہتری مگر عوامی ریلیف ضروری

گزشتہ پانچ برس کے دوران پاکستان میں مہنگائی کا جو طوفان اٹھا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا تھا

(فوٹو: فائل)

حکومت نے وزیراعظم کے حکم پر مسلسل چوتھی بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑے ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے، پٹرول کی قیمت میں دس روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں تیرہ روپے جب کہ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں بارہ روپے فی لیٹرکمی کا اعلان کیا ہے۔

پٹرول کی قیمت میں دس روپے اور ڈیزل کی قیمت میں تیرہ روپے فی لٹر سے زائد کمی کا اعلان مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے لیکن اس کمی سے حقیقی ریلیف اسی وقت میسر آسکے گا جب حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے فوائد کی براہِ راست عوام تک منتقلی کو بھی یقینی بنائے گی۔

اس ضمن میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ دو ماہ سے مسلسل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ ٹرانسپورٹر ہمہ وقت کرایوں میں اضافے کی تاک میں رہتے ہیں۔ جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ٹرانسپورٹر سرکاری کرایہ ناموں کا انتظارکیے بغیر ہی من چاہا کرایہ وصول کرنے لگتے ہیں لیکن جب قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو کرایے کم کرنے کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔

حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے تناظر میں نظر ثانی شدہ کرایہ نامے جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اُن پر عملدرآمد بھی یقینی بنانا چاہیے، جس طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کا اثر ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں اضافے کی صورت میں مجموعی مہنگائی میں اضافے کا باعث بنتا ہے، ویسے ہی عوام کو سستی پٹرولیم مصنوعات کا حقیقی ریلیف تبھی مل سکے گا جب ٹرانسپورٹیشن اخراجات میں کمی کے اثرات غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں بھی سامنے آئیں گے۔

گزشتہ پانچ برس کے دوران پاکستان میں مہنگائی کا جو طوفان اٹھا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ پٹرولیم مصنوعات کا تسلسل کے ساتھ مہنگا ہوجانا تھا اور یہ اتنی زیادہ مہنگی ہوگئیں کہ عام آدمی کے لیے یہ قیمتیں ناقابل برداشت تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی نے جو عام آدمی کا حشرکیا، وہ مرے کو مارے شامدار کے مترادف تھا۔ نگران حکومت آئی تو اس کی طرف سے بھی پہلے پہل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا تاہم تھوڑے ہی عرصے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہونے لگی۔

پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت کے اختتام پر پٹرول کی قیمت ساڑھے تین سو کے قریب تھی جس میں مزید اضافہ ہوا اور پھر اس میں کمی ہونا شروع ہوگئی۔ اب پٹرول کی قیمت 250 روپے سے بھی قدرے کم ہے۔ یہ روایت رہی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ان کے نرخوں میں کمی ہو جائے تو بھی مہنگائی کم نہیں ہوتی۔ بجلی کی قیمت توکبھی کم نہیں ہوئی البتہ پٹرولیم نرخ تقریباً چھ ماہ میں ضرورکم ہو گئے ہیں۔ اس کا اثر مہنگائی میں کمی کی صورت میں بھی دیکھا گیا ہے لیکن جس تناسب سے مہنگائی میں کمی ہونی چاہیے وہ نہیں ہوئی۔ منافع خور اب بھی ناجائز منافع کما رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے پٹرولیم نرخوں میں کمی کرنا احسن اقدام ہے لیکن اس کا مکمل ریلیف عوام تک پہنچانے کو بھی یقینی بنانا حکومت ہی کا کام ہے، لہٰذا ناجائز منافع خوروں پر سخت ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

سرکاری گاڑیوں میں مفت کا سرکاری پٹرول استعمال کرنے والے سرکاری افسروں کو کیا پتا کہ مسافر ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں کس طرح لٹ رہے ہیں۔ مہنگائی بڑھنے کے ذمے دار بھی یہی افسران اور پوش طبقہ ہے جو اگر کبھی خریداری کرنے چلے جائیں تو وہ نرخ نہیں پوچھتے اور آرڈرکر کے منہ مانگی رقم دکانداروں کو ادا کر دیتے ہیں۔ مہنگائی اورکرایوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تناسب سے کمی کے بغیر عوام کو حقیقی ریلیف نہیں مل سکتا۔ پاکستانی معیشت براہ راست ڈالر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مزید کم ہوگئیں تو پاکستان کے پاس موقع ہوگا کہ وہ اپنے ہاں مہنگائی پر قابو پاسکے، لیکن اس کے لیے حکومت کو ڈالرکی شرح تبادلہ کو قابو میں رکھنا ہوگا۔ پاکستان سے ڈالرکی بیرون ملک اسمگلنگ ایک بڑا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔ سابقہ نگران واتحادی حکومت اور پھر موجودہ حکومت نے ڈالرکی اسمگلنگ پر بہت حد تک قابو پایا، جس کی وجہ سے بالواسطہ طور پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے۔


حکومت کی جانب سے معیشت کے مستحکم ہونے اور اسے مزید تقویت ملنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور اس کی عملی اور اچھی مثال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی درجہ بندی بہتر ہوئی ہے جو کہ معیشت کو مستحکم بنانے اور طویل المدتی نمو کے لیے ایک پختہ بنیاد رکھنے میں حکومت کی کامیابی کی تصدیق ہے۔ عالمی معاشی ادارے بہتری کے اشارے دے رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورتحال بہترکی ہے۔

مثبت اقدامات کی بدولت معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں، تاہم آئی ایم ایف نے افراط زر میں مزید اضافے کا اشارہ بھی دیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت مناسب اقدامات کرے تو اس پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ اقدامات کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے۔ پاکستان ایک بڑی معیشت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بنیادی اقتصادی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عالمی معیشت کا زیادہ تر انحصار پٹرولیم مصنوعات اور اس سے حاصل ہونے والی توانائی کے بیش بہا وسائل سے ہے، جس ملک نے اپنے وسائل پر بھروسہ اور اپنی افرادی قوت سے استفادہ کیا وہ اقتصادی اور سماجی میدان میں زقندیں بھرتا رہا،آج معاشی انجن پٹرولیم مصنوعات کا محتاج ہے۔

لیکن ساتھ ہی متبادل توانائی کے نت نئے وسائل کے استعمال کی جستجو میں لگی ریاستیں توانائی بحران کے خاتمے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور اقتصادی اہداف تک رسائی کو قومی خوشحالی کی کلید سمجھتی ہیں، مگر ہماری معیشت کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ اسے عدم شفافیت کے باعث پیدا شدہ قیاس آرائیوں، الزامات اور تضادات کا سامنا ہے۔ ادھر ملک میں تشدد، لاقانونیت اور انتہا پسندی کے عفریت نے سیاسی و معاشی استحکام کے حصول کو اقتصادی صحرا کے طویل اور اعصاب شکن مسافت کا روپ دے دیا ہے۔

شاید ہی کسی ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں مبصرین، ہم سب نے مل کر پورے نظام کو برباد کر رکھا ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں کہ حق دار ناامید ہوچکے ہیں، تعلق داروں کوکھلے عام عہدوں پر فائزکیا جا رہا ہے۔ جب کہ ہم ہرگزرتے دن کے ساتھ کچھ نہ کچھ گنوا رہے ہیں، اس پر قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ پیسہ کہاں لگ رہا ہے؟ یہ انگریز بھی عجیب قوم ہے، ہر پانچ سال کے بعد الیکشن کرانے کی ریت مسلمانوں میں بھی ڈال کر چلاگیا۔

اچھے خاصے مسلمان حکمران بادشاہت کے مزے لوٹ رہے تھے۔ آج چوہدریوں، سرداروں، جاگیرداروں، نوابوں کو ہر پانچ سال کے بعد عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ عوام کو وہ ووٹ لیتے ہی بھول جاتے ہیں۔ ان حکمرانوں اور سیاست دانوں کو نہیں معلوم آج ان کی وجہ سے تمام کاروبار، اسٹاک ایکسچینج، صنعتیں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ عام آدمی کی غربت دورکرنے کے لیے مفید، مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ خطِ افلاس کے نیچے بدترین حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔

اس کے لیے دو وقت کی آبرو مندانہ روٹی کا حصول بے لگام مہنگائی کی وجہ سے آج بہت مشکل ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی معیارِ زندگی کے لحاظ سے پاکستان عالمی رینکنگ میں انتہائی نچلے نمبروں پر ہے۔ ان معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے اشرافیہ کی قربانی بھی بہت ضروری ہے۔ حکومت اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کی متحمل نہیں ہوتی، لہٰذا حکمرانوں کو پلاٹوں کی تقسیم، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنا اور مراعات کی بندر بانٹ کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا اور اپنے اخراجات کو ملکی آمدنی کے مطابق رکھنا ہوگا۔

ان دنوں ملک میں اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، اس طرح کے سخت اقدامات نظام کا مستقل حصہ ہونے چاہئیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا فروغ بھی اچھی بات ہے لیکن مقامی سرمایہ کارکی بھی حوصلہ افزائی ضروری ہے تاکہ ملک میں صنعتی پہیہ بلا تعطل چلتا رہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک ایسا لائحہ عمل جوکاروبار اور صنعت کو فروغ دے، نظام کا مستقل حصہ ہوتا ہے۔ کسی ایک شعبے پر وقتی طور پر توجہ دینا معاشی مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ بیک وقت ان سب مسائل پر توجہ دینا بہت ضروری ہے، حکومت جو پیسہ فضول خرچیوں میں ضایع کردیتی ہے اسے ریاستی اداروں کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور اس عمل کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔عوام مہنگائی کی جس چکی میں پس رہے ہیں اُس کے پیش نظر یہ پیسہ اُن پر لگانا زیادہ ضروری ہے لیکن اُس کے لیے وقتی ریلیف نہیں بلکہ مستقل ریلیف کو ترجیح دینا ہوگا۔ اس ضمن میں عوام کی توقعات بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کی سیاسی قیمت ضرور چکانا پڑے گی لیکن اب سیاست بچانے کے لیے ریاست کو مستقل خسارے کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔
Load Next Story