’’بیٹا ابھی کتنا فاصلہ باقی ہے‘‘
حکمران سیاست دانوں کی حماقتوں نے دشمن کو موقع دیا کہ وہ ہمارے لوگوں اور آبادیوں کے اندر فتنہ و فساد برپا کر دے
قیام پاکستان کے وقت ہماری تقدیر میں ہجرت اور نقل مکانی لکھ دی گئی چنانچہ اب تک یہ سلسلہ جاری ہے اور لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ اور حادثہ ہوتا رہے گا جس کا نتیجہ کسی انسانی نقل مکانی کی صورت میں برآمد ہو گا۔ حال ہی میں دہشت گردی شروع ہوئی امن و ا مان کا مسئلہ تھا اور اس کے لیے پولیس اور زیادہ سے زیادہ رینجرز کافی تھے لیکن بات اتنی بڑھ گئی کہ پولیس اور رینجرز کی جگہ باقاعدہ فوج کو میدان میں آنا پڑا ۔
جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے ٹھکانے اور آبادیاں مسمار کرنی پڑیں اور ان ٹھکانوں اور گھروں میں جو لوگ آباد تھے اور نسل در نسل دنیا کی اس خوبصورت ترین دنیا کو آباد کیے ہوئے تھے وہ آناً فاناً بے گھر ہو گئے، جھونپڑی تھی یا محل سب کچھ کھنڈر بن گیا۔ ٹیلی ویژن پر ان سابقہ آبادیوں کی تصویریں دکھائی گئیں تو زبان پر یہی بات آئی کہ رہے نام اللہ کا۔ زمین پر سوائے خدا کے نام کے اور کچھ نہ تھا اور یہ سب انتہائی اور حد سے زیادہ بادل نخواستہ ان لوگوں کو کرنا پڑا جو ان لوگوں اور ان کے گھروں کے محافظ تھے۔
جنھوں نے گھر بار چھوڑ کر دفاع وطن کا فرض سنبھالا تھا دوسروں کو آباد رکھتے اور ان کو پر امن زندگی دینے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی تھی لیکن حکمران سیاست دانوں کی حماقتوں نے دشمن کو موقع دیا کہ وہ ہمارے لوگوں اور آبادیوں کے اندر فتنہ و فساد برپا کر دے ہمیں زندگی کے امن سے محروم کر دے۔ یہ سب مسلمان دہشت گرد تھے جن کو ہم نے دشمنوں کا آلہ کار بننے دیا اور پھر جنھوں نے دشمنوں کی مالی اور اسلحی مدد سے ہمارا جینا حرام کر دیا۔ تب ہماری فوج نے دیکھا کہ اب صبر اور احتیاط کی کوئی صورت باقی نہیں رہی اور وہ ان علاقوں پر ٹوٹ پڑی جو زندہ تھے وہ ہمارا نشانہ بن گئے اور ان دہشت گردوں کی چھاؤنیاں ہم نے تباہ کر دیں۔ بھارت اور مغربی دنیا براستہ افغانستان ہمیں ختم کرنے کے لیے ہمارے اندر گھس آئیں۔
دہشت گردوں کے لشکروں کی صورت میں ہم پر حملہ آور ہو گئیں اور ہمیں اپنے گھروں میں غیر محفوظ کر دیا۔ آج اس کے نتیجے میں دہشت گردی اور ان کے قبیلوں کے لاکھوں افراد نقل مکانی کر کے پاکستان میں داخل ہو گئے ہیں۔ یہ لاکھوں بپھرے ہوئے پاکستانی ہم دوسرے پاکستانیوں کو اپنا ملزم سمجھتے ہیں لیکن حالات نے ان کو پاکستانیوں کا محتاج کر دیا ہے۔ خدا کرے ان کی یہ محتاجی جلد ختم ہو اور وہ واپس چلے جائیں۔ جیسا کہ عرض کیا تھا کہ نقل مکانی اس قوم کی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے اور تقدیر سے بھاگنا ممکن نہیں۔
اس کھلی حقیقت کے باوجود کہ ان دہشت گردوں نے پاکستان کو تباہی کے کنارے کھڑا کر دیا تھا ان میں کچھ بے گناہ بھی ہوں گے لیکن ہم پاکستانی تو بالکل ہی بے گناہ تھے۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم نے ان پاکستانیوں کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں اور اربوں روپے ان کی خدمت میں نقد کی صورت میں پیش کر رہے ہیں اور ان کی آبادی کے وسیلے تلاش کر رہے ہیں۔ سچ عرض کر دوں کہ ہم پاکستانی ان سے ڈرتے بھی ہیں اور ان میں سے بہت واپس نہیں جائیں گے۔ یہ ان کی روایت ہے۔
یہاں لاہور میں انھوں نے کاروبار کی کئی دنیائیں بسائی ہیں اور انھیں پٹھانوں کی مارکیٹ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ہمارے رشوت خوروں کے ذریعے شناختی کارڈ بنوائے ہیں اور پھر وہ اس ملک کے قانونی شہری بن گئے ہیں۔ میرا ایک ڈرائیور تھا اس کے پاس پشاور اور لاہور دو شہروں کی پاکستانی شہریت موجود تھی۔ دونوں جگہوں کے کارڈ تھے اور پتے تھے لیکن وہ ایک قبائلی علاقے کا باشندہ تھا۔ پاکستانیوں کو خطرہ یہ ہے کہ ہم بلاشبہ ان کی خدمت کریں گے اور ان کی دیکھ بھال ہمارا فرض ہے لیکن وہ غریبانہ قبائلی زندگی کی جگہ پاکستان کی خوشحال زندگی کو ترجیح دیں گے۔ ہمارے پشاور کے دوست کہتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ نے ان کے خوبصورت شہر کو برباد کر دیا ہے۔ گلاب کے پھولوں کا یہ شہر اب پھر واپسی کی کوشش کر رہا تھا لیکن خدا کرے وہ اس نئی آزمائش سے بچ نکلیں جو اس کے دروازوں پر کھڑی ہے اور پشاور کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کے دل کھلے ہیں لیکن گھروں میں اب کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔
رمضان المبارک میں اب ان پاکستانیوں کی امداد کا سامان جو کیا جا رہا ہے اور کئی ادارے قائم ہو گئے ہیں جہاں ان کے لیے سامان جمع ہو رہا ہے۔ پاکستانیوں کی حالت اب بہتر نہیں ہے۔ بری اور نااہل حکومت نے ان سے روزگار کے وسائل چھین لیے ہیں۔ نہ بجلی ہے نہ گیس، کوئی مشین کیسے چلے۔ پاکستانی اس وقت معاشی زوال سے گزر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس کوشش میں ہیں کہ ان مہمانوں کا سہارا بن جائیں۔ اس بوڑھے کا جو قافلے کے ساتھ پیدل چل رہا تھا اور ایک جگہ وہ تھک کر بیٹھ گیا بلکہ گر گیا۔ اس نے اپنے ایک ہم سفر سے پوچھا کہ ابھی کتنا فاصلہ باقی ہے مگر اس کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے اس بوڑھے کی تصویر ہے جو زمین پر نڈھال ہو کر بیٹھا ہے اور پوچھ رہا ہے کہ بیٹے ابھی کتنا دور جانا ہے۔ ابھی کتنا فاصلہ باقی ہے لیکن اسے کوئی نہیں بتا سکتا کہ اس کے سامنے ابھی کتنا فاصلہ باقی ہے اور اس کی بوڑھی ٹانگوں کو ابھی کتنا چلنا ہے۔ اس کے ہمسفر خواہ جوان بھی ہیں تب بھی وہ تھکے ہوئے ہیں ان کی ہمتیں ٹوٹ گئی ہیں ان کے جسموں میں جو تھوڑی بہت طاقت بچ گئی ہے وہ ان کی جوانی کے باوجود کسی بوڑھے کا سہارا نہیں بن سکتی۔
سب کی زبان پر یہی سوال ہے کہ کتنا فاصلہ باقی ہے لیکن ہم دہشت گردی کے شکار پاکستانی ان کو کیا جواب دیں۔ ایک وہ حالت ہے جو ہم ان کی آمد سے پہلے ہی بھگت رہے ہیں اور ایک وہ ہے جو ہمیں اب ان کی آمد پر بھگتنی ہے۔ ٹی وی پر میں نے قبائلی علاقوں میں ان کے اسلحہ ساز کارخانے دیکھے ہیں۔ ان کے ہاں اسلحہ اور بارود کے ڈھیر دیکھے ہیں جو پاکستان کے لیے ہیں ان کی رہائش کے سامان دیکھے ہیں اب میں ان کے کسی بوڑھے کو کیا جواب دوں کہ بزرگو کتنا فاصلہ باقی ہے۔