روزے کو غنیمت جانیے

اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریض جو صرف خوراک سے ذیابیطس کنٹرول کر رہے ہوں،


[email protected]

مئی کا مہینہ تھا اور شدید گرمی اپنے جوبن پر تھی، ہمارے ایک واقف کار جو ویسے ہی روزہ خور ہیں فرمانے لگے ''ڈاکٹر صاحب! اس بار رمضان المبارک ماہ جولائی جیسے گرم ترین مہینے میں آرہے ہیں، روزے رکھنا آسان نہ ہوگا۔'' میں نے ان سے عرض کیا کہ اللہ کے نیک بندوں کے لیے کیا گرمی، کیا سردی، تمام موسم برابر ہیں، جسے روزہ رکھنا ہوتا ہے وہ ہر حال میں اللہ کی خوشنودی کے لیے رکھتا ہے اور جسے نہیں رکھنا اس کے پاس سو حیلے اور ہزار بہانے۔

ہاں! البتہ شرعی اعتبار سے بعض امراض میں مبتلا کچھ ایسے مریض بھی ہوتے ہیں جو تمام تر خواہش کے باوجود روزہ رکھنے سے معذور ہوتے ہیں جنھیں پھر اسلام نے بھی روزہ سے رخصت دی ہے ۔ موجودہ دور میں سائنسی ترقی اپنے عروج پر ہے، میڈیکل سائنس کی ترقی کی بدولت کئی عوامل سامنے آچکے ہیں جن کے باعث ہر قسم کی بیماری کو جزوی یا مکمل کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

لہٰذا ایسے تمام مریض جنھیں شریعت نے روزے سے چھوٹ دی ہو تاہم وہ اپنے مذہبی عقیدے، اللہ کی خوشنودی اور رمضان شریف سے وابستہ نیکیوں کے حصول کے بھی خواہاں و آرزومند ہوں ان کے لیے ان کے معالج کا مشورہ یقینا بہت اہمیت کا حامل ہے ایسے مریضوں کو ماہرین سے مکمل مشاورت کے بعد ان کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔

عہد جدید میں انسانی جسم اور بالخصوص مختلف بیماریوں میں مبتلا انسانی جسم پر سائنسی و طبی نقطہ نظر سے انتہائی اہم اور توجہ طلب نتائج سامنے آئے ہیں جن میں سے اکثر لاعلاج بیماریوں میں روزہ رکھنا ہی غنیمت ہے جب کہ بعض امراض میں روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے مثلاً ذیابیطس کے ایسے مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں انھیں روزے نہیں رکھنے چاہئیں کیونکہ ان کی ذیابیطس کو قابو میں رکھنا آسان کام نہیں، اسی طرح شدید ہائپر ٹینشن اور امراض قلب میں مبتلا مریضوں کو بھی روزہ نہیں رکھنا چاہیے، طبیبوں اور معالجین کی جانب سے مرگی کے مرض میں مبتلا افراد کو بھی روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

ایسے مریض جن کے گردوں کی کارکردگی سست پڑگئی ہو اور روزہ رکھنے سے پانی کی کمی کا اندیشہ ہو یا جن مریضوں کے گردے ناکارہ ہونے کے سبب ان کا ڈائیلائسس (Dialysis) ہو رہا ہو ، ایسے افراد جو گردے کے درد اور معدے کے السر میں مبتلا ہوں، ایسے بوڑھے و ضعیف افراد جو دماغ کی رگوں کے مرض میں مبتلا ہوں اور حالت روزہ میں اشیا کی شناخت کی صلاحیت کھو بیٹھیں، شدید دمہ میں مبتلا افراد، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے اطبا کے نزدیک روزہ رکھنا مناسب نہیں ۔

اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریض جو صرف خوراک سے ذیابیطس کنٹرول کر رہے ہوں، دمے کے وہ مریض جن کا مرض معمولی ہو اور وہ تکلیف کی صورت میں بغیر روزہ توڑے سانس کے ساتھ والی ادویہ (Inhaler) استعمال کرسکتے ہوں یا دیرپا اثر والی دوائیں افطار کے بعد اور سحری سے قبل لے سکتے ہوں، بلند فشار خون (High Blood Pressure) اور امراض قلب میں مبتلا ایسے مریض جو خون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کرتے ہوں اور ان کے لیے طویل الاثر دوا کفایت کرسکتی ہو، گردے کے ایسے مریض جن کا اب گردہ تبدیل (Transplant) ہوچکا ہو اس کا فعل و کارکردگی بھی درست ہو، ایسے افراد کو روزے سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا بلکہ روزے کی بدولت ان پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

عصر حاضر میں بعض لوگ بالکل تندرست ہونے کے باوجود روزے سے فرار چاہتے ہیں حالانکہ تندرست افراد کی جسمانی کارگزاری پر روزے کے حیرت انگیز بہترین طبی و سائنسی مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ "Health and Ramadan" کے موضوع پر جو پہلی انٹرنیشنل کانفرنس کاسابلانکا میں منعقد ہوئی۔ اس میں 50 تحقیقی مقالات پیش کیے گئے ہیں جن میں روزے کی افادیت اور کرشمہ سازیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔

آج مغرب میں بھی خورونوش میں زیادتی و بسیار خوری کو ناپسند کیا جا رہا اور صحت انسانی کے لیے مضر گردانا جا رہا ہے، تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو کھانے کی صرف تھوڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے، صرف اتنی جو جسم میں توانائی پیدا کرسکے صرف اتنی توانائی جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہو، جس سے اس کی صحت اچھی رہ سکے اور وہ اپنی روزمرہ کی ذمے داریاں پوری کرسکے، بسیار خوری چربی بن کر انسان کا وزن بڑھاتی اور موٹا و فربہ کرتی ہے نیز انسانی جسم بہت سے امراض کا شکار ہوجاتا ہے بسیار خوری سے انسان کو لاحق ہونے والی مضرت تمام طریقہ ہائے علاج میں مسلم ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے تاکہ گیارہ ماہ کے دوران خورونوش کی بے احتیاطی کے مضر اثرات کا ازالہ ہوسکے۔

رسول اللہؐ نے فرمایا ''روزے رکھو، تندرست ہوجاؤ گے'' مزید فرمایا ''ہر شے کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے'' سورہ اعراف میں فرمان الٰہی ہے کہ ''اور کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک حد سے تجاوز کرنیوالے اسے پسند نہیں۔''

حافظ بن قیمؒ کے مطابق روزے کا شمار روحانی اور طبعی دواؤں میں کیا جاتا ہے، اگر روزہ دار ان چیزوں کو ملحوظ رکھے جن کا طبعی اور شرعی طور پر رکھنا ضروری ہے تو اس سے قلب و بدن کو بے حد نفع حاصل ہوگا، حکیم محمد سعید شہیدؒ لکھتے ہیں ''روزہ جسم میں پہلے سے موجود امراض و آلام کا علاج بھی ہے اور حفظ ماتقدم کی ایک تدبیر بھی، روزہ رکھنے والا صرف بیماریوں سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ ان کے لاحق ہونے کے ممکنہ خطرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے، اس کا طبی سبب یہ ہے کہ روزے سے قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے'' روزے کی افادیت کے بیان میں مزید رقم طراز ہیں کہ ''آج جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ روزہ کولیسٹرول کو ضایع کرتا ہے، یہ وہی خون کا کولیسٹرول ہے جو امراض قلب کا سب سے بڑا سبب ہے۔

آج کی دنیا میں اسی سائنسی انکشاف کے لحاظ سے روزہ ایک برکت ہے جو بات آج سائنس دانوں کو معلوم ہوئی ہے اس کا ادراک ذات ختم الرسلؐ کو تھا اور ضرور تھا، اسی لیے آنحضرتؐ نے روزے کو جسم و روح کے لیے باعث خیروبرکت قرار دیا۔'' فارماسٹ محمد فاروق کمال لکھتے ہیں کہ ''سائنسی تحقیق کے مطابق روزے کے دوران بھوک کی وجہ سے اور خون میں غذائیت کی کمی کے سبب ہڈیوں کے گودے خون بنانے کا عمل تیز کردیتے ہیں، یوں خون بنانے کے سسٹم کی اوور ہالنگ ہوجاتی ہے۔'' ڈاکٹر محمد عالم گیر خان لکھتے ہیں کہ ''سحری و افطار کے وقت پانی عام مقدار سے زیادہ پیا جاتا ہے، جس سے صبح و شام گردوں کی دھلائی ہوتی رہتی ہے، اگر ریت کے ذرات گردوں میں اکٹھے ہوجائیں تو وہ بھی پیشاب کی زیادتی کی وجہ سے نکل جاتے ہیں، ماہرین نفسیات کے مطابق ''انسانی نفس میں الم و مصیبت برداشت کرنے بلکہ اس سے لطف اندوز ہونے کا مادہ ہوتا ہے۔

لہٰذا انسان روزے کے دوران بھوک، پیاس یا ضعف بدن سے ایک خاص لذت محسوس کرتا ہے اور خوف و حزن سے پیدا ہونے والے ۔۔۔۔۔دیگر نفسیاتی عوارض سے بھی محفوظ رہتا ہے'' طبی ماہرین کے مطابق روزے سے انسان کے نظام تولید اور نظام اعصاب پر بھی خوش آئند اثرات مرتب ہوتے ہیں، ڈاکٹر ہلوک نورباقی کے نزدیک روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں اور ان کے اندرونی مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے، ہمارے جسمانی اعضا شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں کہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں، ایلن کاٹ (Allan Cott) نے 1975 میں تحقیق سے ثابت کیا کہ روزے سے نظام ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کردیتا ہے۔

ڈاکٹر محمد عالمگیر خان نے روزے کو ان گنت طبی فوائد کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ ترک اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بہ تدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے، وہ لکھتے ہیں کہ وہ دن بھی آئے گا جب ہر انسان روزہ رکھے گا لہٰذا روزہ ہمیں صحت مند رکھنے، ہمارے امراض کو دفع کرنے اور مختلف بیماریوں کے خلاف ہماری قوت مدافعت بڑھانے میں انتہائی ممدو معاون ہے، لہٰذا جشن رمضان کا تقاضا یہی ہے کہ روزہ رکھیے اور پھر سارا سال صحت مند رہیے، سچ تو یہ ہے کہ جشن عید منانے کے بھی وہی حق دار ہیں جنھوں نے بلا کسی شرعی عذر کے روزہ نہ چھوڑا اور جشن رمضان کے انعقاد کا اہتمام و احترام کیا پھر اللہ نے ان ہی کے لیے جشن عید کا انتظام کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں