خودغرضی بے حسی کا درد اور نیند

ٹلر اکثر کہا کرتا تھا کہ میں دنیا سے بیشتر یہودی ختم کردوں گا،مگر کچھ اس لیے زندہ چھوڑ دوں گا


www.facebook.com/draffanqaiser

سیانے کہتے ہیں اگر انسان سکون میں ہو تو کانٹوں پر بھی نیند آجاتی ہے اور اگر اضطراب کا شکار ہو تو مخمل کی خواب گاہیں بھی اسے نیند جیسی نعمت عطا نہیں کر سکتیں۔ آج کی دنیا آسٹریا میں پیدا ہونے والے دو انسانوں کی سوچ کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔

ایک وہ جو یہودیوں یعنیJews کے لیے زہر قاتل تھا اور دوسرا وہ جس نے Zionism یا یہودیت کی بنیاد رکھی۔پہلا اڈولف ہٹلر اور دوسرا تھیوڈر ہرلز۔دونوں کی زندگی کے ایام بھی ایک جیسے عشروں میں عروج و زوال کا شکار رہے۔اڈولف ہٹلر جب جرمنی کا مختارِ کل بنا تو ایک طرف تو اس پرجرمنی کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنانے کا جنون سوار تھا اور دوسری طرف اسے یہودیوں سے شدید ترین نفرت تھی،اسی نفرت نے ہٹلر کی نازی جرمن فورس کو یہودیوں کی نسل کشی کی تاریخ رقم کرنے پر مجبور کردیا۔ہولوکاسٹ نامی نسل کشی کے اس دور میں 60 لاکھ یہودیوں کو اذیت ناک موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

یہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی اور بدترین نسل کشی تھی۔جرمنی اور جرمنی کے مقبوضہ علاقوں میں 42,500 کے قریب عقوبت خانے، گیس کیمپس، ٹارچر سیل اور زندہ انسانی جسموں کی چیر پھاڑ کرکے تجربات کرنے والی لیبارٹریاں قائم کی گئیں۔یہ دوسری جنگِ عظیم کا وقت تھا جب جرمنی دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن چکا تھا اور 1942ء میں جرمنی کا تقریبا آدھی دنیا پر قبضہ ہوچکا تھا۔جہاں ہٹلر پوری دنیا کو فتح کررہا تھا وہیں وہ zionism کی سب سے بڑی نسل کشی میں بھی مصروف تھا۔

دوسری طرف تھیوڈر ہرلز نے 'The Jewish State' نامی کتاب میں 1896ء میں یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا نظریہ دیا ۔اس کتاب کا خلاصہ یہی کہتا ہے کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو یورپ سے الگ ہوکر اپنی ایک علیحدہ طاقت ور ریاست قائم کرنی ہوگی اور پوری دنیا کی اکانومی کو اپنے قابو میں کرکے باقی دنیا کو فنا کرنا ہوگا۔تھیوڈر تو 30 جولائی 1904ء کو مرگیا ، مگر بعد کے عشروں میں ہونے والے ہولوکاسٹ اور صہیونیت کی بقا کی جنگ نے اسرائیل کی بنیاد رکھ دی۔1949ء میں تھیوڈر کی لاش کو وینا آسٹریا سے یوروشلم لایا گیا اور اب اسرائیل ماؤنٹین ہرلز کے مقام پر اس کا مزار قائم ہے۔

ہٹلر اکثر کہا کرتا تھا کہ میں دنیا سے بیشتر یہودی ختم کردوں گا،مگر کچھ اس لیے زندہ چھوڑ دوں گا کہ دنیا یہ جان سکے کہ میں نے انھیں اتنی بیدردی سے کیوں مارا۔1923ء کے برٹش مینڈیٹ کے مطابق دریائے جارڈن کے مغرب میں فلسطین اور اس کے مشرق میں ٹرانس جارڈن نامی ریاستوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔15 مئی 1948ء کو یہودی لابی کے زور پر یہ مینڈیٹ ختم کردیا گیا اور اس علاقہ میں اسرائیل کی بنیاد رکھ دی گئی۔یوں کئی صدیوں تک در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور ہٹلر کے ہاتھوں بدترین نسل کشی کے باوجود تھیوڈر کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے یہودیت کو دنیا پر ایک ٹھکانہ دے دیا گیا۔آج یہ علاقہ پوری دنیا کے لیے وبالِ جان بنا ہوا ہے۔

کئی صدیوں سے یروشلم میں رہنے والے فلسطینی مسلمان 1948ء سے آج تک صہیونیت کی بقا کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔آج فلسطین میں مسلمانوں کا ہولوکاسٹ جاری ہے۔افسوس ناک حد تک آج یہودی پوری دنیا کی اکانومی پر حاوی ہیں۔آبادی کے لحاظ سے یہ یہودی دنیا کا دو فیصد ہیں ، مگر دنیا کی پچاس فیصد سے زیادہ اکانومی یہی یہودی کنٹرول کر رہے ہیں۔

تاریخ شائد یہ بات نہیں جانتی ہٹلر، تھیوڈر اور آج کے مسلمانوں میں ایک قدر مشترک ہے۔ہٹلر یہودیوں کو اتنی بے دردی سے مارنے اور پوری دنیا کو فتح کرنے کے باوجود، سکون سے سو نہیں پاتا تھا۔آج پوری دنیا کے مسلمان بھی سب سے زیادہ ڈیپریشن کے مرض کا شکار ہیں اور ہر وقت بے یقینی کی کیفیت کی وجہ سے دنیا بھر میں نیند آور گولیاں سب سے زیادہ مسلمان ہی استعمال کرتے ہیں۔آج دنیا بھر کے مسلمان ، اپنے گھر، اپنے ماں باپ، اپنے بیوی بچوں اور اپنی عیاشی کے لیے خودغرض اور بے حس ہوچکے ہیں۔ان کو فلسطینی، کشمیری، چیچن، افغانستانی، پاکستانی، عراقی، شامی مسلمانوں کے ہولوکاسٹ سے کوئی غرض نہیں ہے۔بے حسی اور خود غرضی کا یہ درد نہ ہٹلر کو سونے دیتا تھا،نہ تھیوڈر کو اورنہ آج کے مسلمانوں کو سونے دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔