ارتکاز توجہ اور اضطرابی کمزوری کا شکار بچے

اساتذہ اور والدین کو نفسیاتی مسائل کا شکارطلبہ کی تربیت کے لئے ہمت و صبرکا مظاہرہ کرنا ہوگا


اساتذہ اور والدین کو نفسیاتی مسائل کا شکار طلبہ کی تربیت کے لئے ہمت و صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ فوٹو : فائل

''اس لڑکے نے تو تنگ ہی کر دیا ہے، کریک ہے، آرام سے بیٹھ ہی نہیں سکتا، بد تمیز! پتہ نہیں اس کے والدین نے کیسی تربیت کی ہے، ہر کسی سے لڑتا رہتا ہے۔

کلاس ورک کو لفٹ ہی نہیں کراتا،سائیکل بھی کتنی تیز چلاتا ہے؟'' اس قسم کے ریمارکس اساتذہ سٹاف روم میں شئیر کرتے رہتے ہیں اور اسی طرح والدین بھی گھر پر ان رویوں کے شاکی نظر آتے ہیں۔ ارتکاز توجہ اور اضطرابی کمزوری (Attention deficit hyperactivity disorder) ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو ہماری پرآسائش زندگی اور ماحول میں زیادہ پروان چڑھتی ہے، جس میں جینیاتی(genetic) اور ماحولیاتی عناصر کا بھی اہم کردار ہے۔

اس کی ان گنت علامات میں سے توجہ نہ ہونا، بہت زیادہ پرجوش سرگرمیاں اور اضطرابی حرکات بھی شامل ہیں۔ اس مرض کا شکار بچہ شیر کی طرح پرجوش، بے چین اور مضطرب بھی ہوسکتا ہے اور ٹیڈی بئیر کی طرح سست، کاہل خوابوں کی دنیا میں بسنے والا لاپرواہ بھی۔



اس اعصابی اور دماغی مرض میں توجہ کا دورانیہ بہت کم ہوجاتا ہے، جو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس مرض میں بچہ اپنی توجہ برقرار نہیں رکھ سکتا، چیزوں کو بھولنا، تفصیلات کو یاد نہ رکھنا اور ایک کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کام میں مشغول ہوتا رہتا ہے۔ طالب علم کو ہوم ورک مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اکثر اوقات اپنی چیزیں (پنسل ،کھلونے ،ہدایات )بھول جاتا ہے۔ ایسے بچے اپنی سیٹ پر بیٹھنے سے الجھن اور بے قراری کا شکار ہوجاتے ہیں ۔انہیں جو بھی چیز نظر آئے اسے چھیڑتے رہتے ہیں اور بغیر رکے باتیں کرتے ہیں۔

اسکول میں پڑھائی کے دوران ،کھانے اور سونے کے وقت اس کے لئے نچلا بیٹھنا آسان نہیں ہوتا۔ بے صبری اور اضطراب کی وجہ سے ایسے طالب علم بغیر سوچے سمجھے پھٹ پڑتے ہیں یا کسی کا لحاظ کیے بغیر بات کر دیتے ہیں۔خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں ،چوری بھی کرتے ہیں ۔ان کا دوسرے ساتھیوں کے ساتھ دوستانہ رویہ بھی برقرار نہیں رہتا، جو بڑے ہونے پر سگریٹ نوشی اور پھڈے بازی تک جاسکتا ہے۔ کھیل یا اس جیسی دوسری سرگرمیوں میں ان لوگوں کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ انہی عادات کے پس منظر میں یہ لوگ امتحانات میں فیل ہونے کے علاوہ چھوٹے موٹے حادثات کا شکار بھی ہوتے رہتے ہیں۔



ارتکاز توجہ اور اضطرابی کمزوری ( ADHD) کے علاج کے سلسلے میں نفسیاتی اور ادویاتی علاج کے علاوہ اسکول کی سطح پر کونسلنگ اور اساتذہ کی تعلیمی رہنمائی کا اہم کردار ہے۔ ارتکازتوجہ اور اضطرابی کمزوری کا شکار بچوں کے مسائل کو سمجھ کر حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے،کیوں اگر ابھی سے ان کی تربیت میں کمی رہ گئی تو بڑے ہو کر خود اپنے کچھ کرسکیں گے نہ ملک کے لئے۔

٭سب سے پہلے مذکورہ بچے کا ای این ٹی سپشلسٹ یا کسی ماہر نفسیات سے معائنہ کرائیں کیوں کہ ADHD کی علامات دوسری ذہنی بیماریوں سے بھی ملتی ہیں۔ اسی طرح آئی کیو ٹسٹ سے بھی بچے کی لرننگ پرابلمز(سیکھنے کے مسائل) کا علم ہوگا ستر سے نوے فیصد بچے انہی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں،بعض اوقات ذہین بچے بھی روٹین سے اُکتا کر اس طرح کی حرکات کرتے ہیں تاکہ نئے چیلنج سامنے آئیں۔ ارتکازتوجہ اور اضطرابی کمزوری( ADHD) والے بچوں کو مستقل مزاجی اور روٹین پر سختی سے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس لیے کہ بہت سے گھریلو مسائل سخت واضح ہفتہ وار اور روزانہ روٹین سے ختم ہوجائیں گے۔

٭طالب علم کا سکرین ٹائم (ٹی وی ۔وڈیو۔کمپیوٹر)بیس سے تیس منٹ کردیں۔ باقی وقت ہوم ورک ،کچن گارڈن، لان ،پالتو جانوروں، فٹبال، سوئمنگ ،پارک ،کھیتوں کی سیر، یا نماز باجماعت میں گزارا جاسکتا ہے۔ یہ چیزیںہوم ورک کی طرح ان کی اعصابی اور ذہنی تقویت کے لیے ضروری ہیں۔



٭بچے کے توجہ نہ دینے پر چیخنے چلانے کے بجائے اس کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ (ڈس ٹریکشن) ختم کریں۔ اسے اپنے قریب بلاکر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کم لفظوں اور مضبوط لہجے میں بات کریں۔ ایک وقت میں ایک بات سمجھائیں اور بار بار دہرائیں ۔یہ ہدایات مناسب انداز میں اس کے کمرے میں بھی لگائی جاسکتی ہیں۔

٭بچے کے سکول کی چیزوں کا سسٹم بہتر بنائیں۔ اساتذہ اور والدین اس کے ہر مضمون کی کاپی اور کتاب کا الگ رنگ والاکور بنوا سکتے ہیں۔ اسی طرح گھر اور سکول کے ٹائم ٹیبل میں بلاکس بنوائے جاسکتے ہیں۔

٭اس کے غلط رویے کو کبھی بھی نظر انداز نہ کریں ۔ایسے طلباء اپنے غلط رویوں کے نتائج دیکھنا چاہتے ہیں۔کوئی ردعمل نہ پا کروہ اپنے رویے کو درست سمجھنے لگتے ہیں۔وہ آپ کی برداشت کو ٹیسٹ بھی کرتے ہیں۔اس لئے ان کے غلط اقدام پر فوری توجہ کرکے بری عادت کے متعلق بتائیں ۔کیونکہ ایسے بچوں کے اضطرابی بریک کمزور ہوتے ہیں۔ انہیں وارننگ دے کر سمجھائیں اور پھر بھی نہ رکے ٹائم آؤٹ (تنہائی) دے کر اسے نتائج پر غور کرنے کا موقع دیں، نہیں تو اس کی کوئی پسندیدہ چیز پر پابندی(کچھ وقت کے لیے) لگادیں۔ لیکن سختی کا مطلب ڈسپلن سکھاناہے نہ کہ بچے کو سخت سزا دینا۔

٭طالب علم کے ساتھ مل کر کھیلیں،کام کریں کیوں کہ ایسا بچہ انفرادی توجہ چاہتا ہے۔ اس کی موجودگی میں اپنے کام میں لگے رہیں اور اس کی ہلکی سی حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔

٭ فیملی کے سارے بچوں کو ایک جگہ بٹھا کر ہوم ورک کرائیں ۔اس ٹیم ورک سے ہمارا بچہ ہوم ورک میں بہتر کارکردگی دکھائے گا اور خود کو فیملی کا بہتر حصہ سمجھے گااور دوسرے بچے بھی اس کی مدد کریں گے،بڑے ہونے پر بھی انہیں روٹین ورک کرنے پر زیادہ زور نہ ڈالیں۔

٭ رات کو سونے سے ایک گھنٹہ پہلے الیکٹرونکس کے سارے یونٹس (موبائل ،ٹی وی ،کمپیوٹر،وڈیو گیمز،آئی فون) آف کردئیے جائیں اور شام کو ایسے طالب علم کی جسمانی سرگرمیاں محدود کر دی جائیں۔

٭کھانے میں موسمی پھل (کسی بھی طرح جوس ،کسٹرڈ ،سلاد کی صورت میں )سبزپتوں والی سبزیاں اور سلاد(کابو ہائیڈریٹس کم کرنے کے علاوہ ،فاسٹ فوڈ ،جنک فوڈ،مصنوعی رنگوں اور فلیور والی غذائیں اور کولا ڈرنکس سے مکمل پرہیز) کے علاوہ بچے کے کھانے پینے میں تین گھنٹوں کے وقفے کا خیال رکھا جائے تو توجہ فوکس کرنے میں کافی مدد ملے گی۔ زنک ،آئرن اور میگنیشیم اومیگا تھری والی غذائیں (السی اخروٹ ،مچھلی کا تیل ،پھلیوں والی غذائیںمچھلی ،کھجور،انڈہ ،دودھ، دہی۔شہد،جن سنگ،گنے کا رس ،گڑ،انار ،آب زمزم ،ادرک)اس مقصد کے لیے کارآمد ہیں۔ اسی طرح شوگر فری ملٹی وٹامنز بہتر ہیں چینی سے حتی الامکان بچیں کیوں کہ یہ ہمارے بچے کے لیے تباہ کن ہے۔



٭عمومی طور پر والدین اور اساتذہ کو حصول کامیابی کے لیے زیادہ صبر سے کام لینا پڑے گا۔انہیں ان اصولوں پر عمل پیرا ہونا زیادہ کامیاب کرے گا۔ بچے کے سامنے واضح اور مخصوص مقاصد کا حصول رکھیں (ہوم ورک کی وقت پر تکمیل،دوستوں کے ساتھ کھلونے شئیر کرنا وغیرہ)۔ انہیں جزا اور آخری نتائج سے آشنا کرائیں۔ اچھے رویوں پر انعام اورغیر متوقع نتائج پر سزا اور طویل عرصے تک جاری رکھیں، جس سے بچے کا مثبت رویہ تشکیل پائے گا۔اسے علم ہوتا ہے کہ ناپسندیدہ رویے سے وہ بہت زیادہ توجہ حاصل کر سکتا ہے لیکن اچھے رویے کے لیے مشکلات سامنے آتی ہیں۔

٭ پوانئٹ چارٹ بنا کر اس کے ہر مثبت اور منفی رویے کے نمبر مقرر کر دیں، جن کے لیے جزا اور سزا ہو۔اس میں اس کی پسندیدہ چیزوں کے مطابق کافی کام کیاجاسکتا ہے۔ریوارڈ (جزا)کے حوالے سے دیکھا جائے توایسے بچوں کے لیے ٹوائے ٹائم (کھیلنے کا وقت ) بھی رف ٹائم (پھڈے بازی اور توڑ پھوڑ کا وقت) ہوتا ہے۔اور ان کے کھلونے بھی میزائل کا کام دیتے ہیں۔ اس پس منظر میں ڈرائنگ بورڈ، میگنی فائر گلاس، سادہ مائیکروسکوپ، زنگو(بنگو کی نئی شکل)گلوئینگ کلرز ،کیمرا ،بیڈمنٹن ،ڈرامائی ڈریس، ماسک ،چاک بورڈ یا وائٹ بورڈ ،وہیل والی کوئی بھی چیز جس میں ان کی انرجی خرچ ہو، پتنگ ،کارٹون کریکٹرز ،جنگلی ور گھریلو جانوروں کے ماڈلز وغیرہ بہترین تحائف ثابت ہوسکتے ہیں۔

بدقسمتی سے اس مرض میں مبتلا ایسے تمام طلباء کی امتحان کے لیے تیاری بعض اوقات متوقع نتائج دینے سے قاصر رہتی ہے۔ والدین اور اساتذہ اچھے گریڈ کے لیے بغیر سوچے سمجھے سخت محنت پر زور دیتے رہتے ہیں کہ طالب علم کو کیسے نصاب یاد کرایا اور رٹایا جائے۔اس طرح وہ تمام چیزیں جن پر دوسرے طلباء دوسری نگاہ ڈالے بغیر تیار کرلیتے ہیں ان کے لیے ADHD سے متاثر طالب علم کوجان جوکھوں کا زور لگانا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہمت اور صبر کے ساتھ اساتذہ اور والدین کو ارتکازتوجہ اور اضطرابی کمزوری کا شکار بچوں کی تربیت اور علاج کا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |