نوجوانوں میں رہنمائی اور تربیت کا فقدان کیوں
رہنماء اور رہنمائی کی اہمیت کو کسی دور میں بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا
انسان کی ترقی کا سارا سفر اس کی ضرورتوں سے جڑا رہا ہے، آج ہم اپنے اردگرد یہ جو سب دیکھ رہے ہیں، یہ کسی ایک وقت میں اس دنیا میں موجود نہیں تھے، اس سب کے وجود میں آنے کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ انسان نے محسوس کر لیا کہ یہ ہماری ضرورت ہے۔
اگر یہ لازم ہوتا کہ صبح اٹھ کر سب نے چاند پر جا کر غسل کرنا ہے، تو آج انسانیت کی ترقی کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان اس کا بھی راستہ نکال لیتا۔ تو لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سارے کا سارا سفر ضرورتوں کا ہے، کبھی ہم ہاتھ سے پانی پیتے تھے، پھر انسان نے پہلا گلاس بنایا اور پھر وہ گلاس کافی مراحل سے گزر کر آج کے گلاس میں ڈھل گیا۔
انسان کی ان مادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ایک اور ضرورت بھی رہی وہ تھی تربیت اور رہنمائی کی ضرورت، اور قدرت نے ہر دور میں ایسی شخصیات کو پیدا کیا جو اپنے وقت میں لوگوں کی رہنمائی اور تربیت کرتے رہے اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور انسان کبھی بھی رہنمائی اور رہنماء کی اہمیت کو جھٹلا نہ سکا۔حضرت امام حنبلؒ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ وہ سفر کر رہے تھے کہ ان کے پاس رقم ختم ہو گئی اور آپ مسجد میں ٹھہر گے۔
رات کے پچھلے پہر مسجد کے امام نے آپؒ کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے آپ کو مسجد سے باہر نکال دیا۔ آپؒ باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور آپ کو اس نے اپنے گھر رکنے کی پیش کش کر دی۔ آپؒ نے ساری رات اس کے گھر پہ گزاری اور دیکھا کہ وہ شخص ساری رات اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے اور دعا مانگتا رہا آپ ؒ نے اس سے پوچھا کہ تم اللہ سے اتنے محبت اور لگن سے کیا مانگ رہے ہو۔ اس آدمی نے کہا کہ میری ساری خواہشات اور دعائیں پوری ہو چکی ہیں بس اب ایک ہی دعا ہے کہ کبھی وقت کے امام ،حنبلؒ سے ملاقات ہو جائے تو آپ مسکرائے اور فرمایا کہ تمہاری لگن ہی اتنی سچی تھی کہ مجھے گھسیٹ کر تیرے گھر تک لے آئی ہے۔ یہ معاملہ جتنا طلب اور سچی طلب سے جڑا ہوا ہے یقین کریں اور کسی چیز سے نہیں جڑا ہوا۔
قدرت ہمیشہ سچی طلب کو ہی عطا کرتی ہے۔ یہ ساری باتیں لگن اور سچی طلب کی ہیں اور یہ اتنی طاقت ور چیز ہے کہ خود ہی سارے راستے بنا لیتی ہے اور انسان کی زندگی میں سب سے بڑی رہنماء بھی یہ سچی طلب ہی ہوتی ہے۔ یہ سچی طلب ایسی چیز ہے کہ جھوٹے پیر سے بھی آپ کو فائدہ پہنچا دیتی ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب انسان نے سفر شروع کیا تو جھوٹے بندے کو اپنا ساتھی غلطی سے بنا لیا مگر خود وہ سچا تھا تو قدرت نے اس کی اس کی سچی لگن کی وجہ سے کامیاب کر دیا۔
واصف علی واصفؒ کی محفل میں اکثر لوگوں نے سوال پوچھا کہ سچا پیر نہیں ملتا تو آپ نے کہا کہ بعد میں بات کریں گے اور پھر کچھ دنوں کے بعد اس سے پوچھا کہ بتا تیرا سوال کیا تھا، تو وہ آدمی اپنا سوال ہی بھول چکا ہوتا تھا۔ اصل میں یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جب ہم کسی چیز کی سچی لگن نہیں ہوتی تو پھر ہمیں اس کا جواب بھی نہیں ملتا۔ آپ کی یہ سوچ کہ کوئی مل جائے جو آپ کو رہنمائی کر دے، آپ کو سیدھا راستہ دیکھا دے، کوئی کامل پیر مل جائے، تو ان سب باتوں کا تعلق آپ کی سچی لگن کے ساتھ ہے، اگر تو آپ کی لگن اور طلب سچی ہے تو قدرت آپ کو یہ سب مل جائے گا۔ آپ کے راستے خود ہی بنتے جائے گے، آپ کو لوگ خود ہی مل جائے گے جو آپ کو منزل کی طرف لے جائے گے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ استاد، پیر، مرشد اور بزرگان دین کا ادب کیسے اور کیوں کیا جائے؟ دیکھیے! دنیا میں رانجھے کو کسی نے یہ نہیں سیکھایا تھا کہ وہ کس طرح ہیر سے عشق کرے۔ اسی طرح ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ جب عورت ماں بنتی ہے تو اسے کسی سے ماں کی ٹریننگ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی، جب وہ ماں بنتی ہے تو اللہ اس کے اندر ممتا خود ہی ڈال دیتا ہے۔ آپ کسی ماں سے پوچھیں وہ آپ کو بتائے گی کہ جیسے ہی بچے کی آواز کانوں میں پڑتی ہے پہلی دفعہ تو ایسے لگتا ہے کہ قدرت کی طرف سے اس آواز کے ساتھ ہی ممتا کے جذبات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح آپ کبھی پوچھ اور سیکھ کر کسی کا ادب نہیں کرتے یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی انسان کے پاس کچھ ہو جو ہم اس سے سیکھ سکتے ہیں اور ہماری آنکھیں اسے دیکھ کر ادب سے جھک نہ جائیں۔ ہم لوگ دوسروں کی عقیدت کو دیکھ کر اس عقیدت کو عقیدہ سمجھ لیتے ہیں۔ یاد رکھیں کبھی بھی عقیدت کے پیمانے سے عقیدہ کی مت پیمائش کریں۔ اب اگر ایک بیٹا اپنی مرحوم ماں کی قبر پر پاؤں کی طرف بیٹھ کر آنسو بہا رہا ہو اور آپ اس پہ کافر کا فتویٰ لگا دیں تو غلط بات ہے وہ تو اپنی ماں سے اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہے یہ اس کی محبت و عقیدت ہے جبکہ تم اس کو اس کا عقیدہ سمجھ رہے ہو۔ پھر ہمیں دوسروں کا عقیدہ ماپنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے عقیدے کو ماپنا چاہیے کیوں کہ کل اسی کے ہم جواب دہ ہیں۔
ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہر جگہ ہماری عزت کی جائے، ہر کوئی میری پیروی کریں، مجھے سر آنکھوں پہ رکھیں، لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے ہمارے اندر بھی تو وہ صفات ہونی چاہیں جو ہم اس قابل بنائیں کہ ہر کوئی ہمیں اہمیت دے۔ ہم پہلے اپنی بات نہیں بلکہ اپنا آپ منوانا ہوتا ہے۔ اپنی خامیوں پر کنٹرول کر کے خود کوسچا اور مخلص انسان منوانا ہوتا ہے۔ تنگ دل انسان تبلیغ نہیں کر سکتا، وہ اچھا استاد نہیں ہو سکتا۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگر استاد کا دنیا میں کوئی اور نام رکھا جاتا تو سخی سے اچھا اور خوبصورت لفظ نہیں ہے جو استاد کے درجے کو بیان کر سکے۔
استاد ہمیشہ علم کے معاملے میں سخی ہوتا ہے، اسے ہمیشہ خوشی ہی ہو گی کہ وہ لوگوں میں یہ انمول دولت بانٹ دے، وہ اپنے شاگردوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ یہ علم کی ہی وراثت ہے جو ہمارے مرنے کے بعد بھی ہم کو فائدہ دے رہی ہوتی ہے۔ ایک پہلوان کی موت کا وقت قریب تھا، اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اس کے کسی ساتھی نے اسے طعنہ دیا کہ تم اولاد کے بنا ہی مر رہے ہو، تمہاری نسل آگے نہیں بڑھے گی تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں سو لوگوں کو ہنر سکھایا ہے، وہ میرے سو شاگرد ہی میر ی اولاد اور میری نسل ہیں۔
قارئین کسی استاد یا رہبر کی اصل اولاد اس کے شاگرد ہوتے ہیں، جنہوں نے اس سے کچھ سیکھا ہوتا ہے، جو اس کے علم کے محافظ ہوتے ہیں، وہ دنیا میں اس کے ہنر اور علم کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں۔ وہ ارسطو ہوتے ہیں جو افلاطون کے نام کو رہتی دنیا تک امر کر جاتے ہیں۔ دنیا میں رہبر و استاد ہر جگہ اور ہر وقت رہے ہیں۔ بس اگر آپ اپنی سچی طلب کے ساتھ کسی رہبر یا استاد کو تلاش کریں گے تو وہ آپ کو مل ہی جائے گا۔ قدرت کبھی بھی انسان کی محنت رائیگاں نہیں کرتی، کوئی بھی انسان جس چیز کی تمنا کرتا ہے اسے وہ مل ہی جاتی ہے۔
اگر یہ لازم ہوتا کہ صبح اٹھ کر سب نے چاند پر جا کر غسل کرنا ہے، تو آج انسانیت کی ترقی کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان اس کا بھی راستہ نکال لیتا۔ تو لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سارے کا سارا سفر ضرورتوں کا ہے، کبھی ہم ہاتھ سے پانی پیتے تھے، پھر انسان نے پہلا گلاس بنایا اور پھر وہ گلاس کافی مراحل سے گزر کر آج کے گلاس میں ڈھل گیا۔
انسان کی ان مادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ایک اور ضرورت بھی رہی وہ تھی تربیت اور رہنمائی کی ضرورت، اور قدرت نے ہر دور میں ایسی شخصیات کو پیدا کیا جو اپنے وقت میں لوگوں کی رہنمائی اور تربیت کرتے رہے اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور انسان کبھی بھی رہنمائی اور رہنماء کی اہمیت کو جھٹلا نہ سکا۔حضرت امام حنبلؒ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ وہ سفر کر رہے تھے کہ ان کے پاس رقم ختم ہو گئی اور آپ مسجد میں ٹھہر گے۔
رات کے پچھلے پہر مسجد کے امام نے آپؒ کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے آپ کو مسجد سے باہر نکال دیا۔ آپؒ باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور آپ کو اس نے اپنے گھر رکنے کی پیش کش کر دی۔ آپؒ نے ساری رات اس کے گھر پہ گزاری اور دیکھا کہ وہ شخص ساری رات اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے اور دعا مانگتا رہا آپ ؒ نے اس سے پوچھا کہ تم اللہ سے اتنے محبت اور لگن سے کیا مانگ رہے ہو۔ اس آدمی نے کہا کہ میری ساری خواہشات اور دعائیں پوری ہو چکی ہیں بس اب ایک ہی دعا ہے کہ کبھی وقت کے امام ،حنبلؒ سے ملاقات ہو جائے تو آپ مسکرائے اور فرمایا کہ تمہاری لگن ہی اتنی سچی تھی کہ مجھے گھسیٹ کر تیرے گھر تک لے آئی ہے۔ یہ معاملہ جتنا طلب اور سچی طلب سے جڑا ہوا ہے یقین کریں اور کسی چیز سے نہیں جڑا ہوا۔
قدرت ہمیشہ سچی طلب کو ہی عطا کرتی ہے۔ یہ ساری باتیں لگن اور سچی طلب کی ہیں اور یہ اتنی طاقت ور چیز ہے کہ خود ہی سارے راستے بنا لیتی ہے اور انسان کی زندگی میں سب سے بڑی رہنماء بھی یہ سچی طلب ہی ہوتی ہے۔ یہ سچی طلب ایسی چیز ہے کہ جھوٹے پیر سے بھی آپ کو فائدہ پہنچا دیتی ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب انسان نے سفر شروع کیا تو جھوٹے بندے کو اپنا ساتھی غلطی سے بنا لیا مگر خود وہ سچا تھا تو قدرت نے اس کی اس کی سچی لگن کی وجہ سے کامیاب کر دیا۔
واصف علی واصفؒ کی محفل میں اکثر لوگوں نے سوال پوچھا کہ سچا پیر نہیں ملتا تو آپ نے کہا کہ بعد میں بات کریں گے اور پھر کچھ دنوں کے بعد اس سے پوچھا کہ بتا تیرا سوال کیا تھا، تو وہ آدمی اپنا سوال ہی بھول چکا ہوتا تھا۔ اصل میں یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جب ہم کسی چیز کی سچی لگن نہیں ہوتی تو پھر ہمیں اس کا جواب بھی نہیں ملتا۔ آپ کی یہ سوچ کہ کوئی مل جائے جو آپ کو رہنمائی کر دے، آپ کو سیدھا راستہ دیکھا دے، کوئی کامل پیر مل جائے، تو ان سب باتوں کا تعلق آپ کی سچی لگن کے ساتھ ہے، اگر تو آپ کی لگن اور طلب سچی ہے تو قدرت آپ کو یہ سب مل جائے گا۔ آپ کے راستے خود ہی بنتے جائے گے، آپ کو لوگ خود ہی مل جائے گے جو آپ کو منزل کی طرف لے جائے گے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ استاد، پیر، مرشد اور بزرگان دین کا ادب کیسے اور کیوں کیا جائے؟ دیکھیے! دنیا میں رانجھے کو کسی نے یہ نہیں سیکھایا تھا کہ وہ کس طرح ہیر سے عشق کرے۔ اسی طرح ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ جب عورت ماں بنتی ہے تو اسے کسی سے ماں کی ٹریننگ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی، جب وہ ماں بنتی ہے تو اللہ اس کے اندر ممتا خود ہی ڈال دیتا ہے۔ آپ کسی ماں سے پوچھیں وہ آپ کو بتائے گی کہ جیسے ہی بچے کی آواز کانوں میں پڑتی ہے پہلی دفعہ تو ایسے لگتا ہے کہ قدرت کی طرف سے اس آواز کے ساتھ ہی ممتا کے جذبات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح آپ کبھی پوچھ اور سیکھ کر کسی کا ادب نہیں کرتے یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی انسان کے پاس کچھ ہو جو ہم اس سے سیکھ سکتے ہیں اور ہماری آنکھیں اسے دیکھ کر ادب سے جھک نہ جائیں۔ ہم لوگ دوسروں کی عقیدت کو دیکھ کر اس عقیدت کو عقیدہ سمجھ لیتے ہیں۔ یاد رکھیں کبھی بھی عقیدت کے پیمانے سے عقیدہ کی مت پیمائش کریں۔ اب اگر ایک بیٹا اپنی مرحوم ماں کی قبر پر پاؤں کی طرف بیٹھ کر آنسو بہا رہا ہو اور آپ اس پہ کافر کا فتویٰ لگا دیں تو غلط بات ہے وہ تو اپنی ماں سے اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہے یہ اس کی محبت و عقیدت ہے جبکہ تم اس کو اس کا عقیدہ سمجھ رہے ہو۔ پھر ہمیں دوسروں کا عقیدہ ماپنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے عقیدے کو ماپنا چاہیے کیوں کہ کل اسی کے ہم جواب دہ ہیں۔
ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہر جگہ ہماری عزت کی جائے، ہر کوئی میری پیروی کریں، مجھے سر آنکھوں پہ رکھیں، لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے ہمارے اندر بھی تو وہ صفات ہونی چاہیں جو ہم اس قابل بنائیں کہ ہر کوئی ہمیں اہمیت دے۔ ہم پہلے اپنی بات نہیں بلکہ اپنا آپ منوانا ہوتا ہے۔ اپنی خامیوں پر کنٹرول کر کے خود کوسچا اور مخلص انسان منوانا ہوتا ہے۔ تنگ دل انسان تبلیغ نہیں کر سکتا، وہ اچھا استاد نہیں ہو سکتا۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگر استاد کا دنیا میں کوئی اور نام رکھا جاتا تو سخی سے اچھا اور خوبصورت لفظ نہیں ہے جو استاد کے درجے کو بیان کر سکے۔
استاد ہمیشہ علم کے معاملے میں سخی ہوتا ہے، اسے ہمیشہ خوشی ہی ہو گی کہ وہ لوگوں میں یہ انمول دولت بانٹ دے، وہ اپنے شاگردوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ یہ علم کی ہی وراثت ہے جو ہمارے مرنے کے بعد بھی ہم کو فائدہ دے رہی ہوتی ہے۔ ایک پہلوان کی موت کا وقت قریب تھا، اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اس کے کسی ساتھی نے اسے طعنہ دیا کہ تم اولاد کے بنا ہی مر رہے ہو، تمہاری نسل آگے نہیں بڑھے گی تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں سو لوگوں کو ہنر سکھایا ہے، وہ میرے سو شاگرد ہی میر ی اولاد اور میری نسل ہیں۔
قارئین کسی استاد یا رہبر کی اصل اولاد اس کے شاگرد ہوتے ہیں، جنہوں نے اس سے کچھ سیکھا ہوتا ہے، جو اس کے علم کے محافظ ہوتے ہیں، وہ دنیا میں اس کے ہنر اور علم کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں۔ وہ ارسطو ہوتے ہیں جو افلاطون کے نام کو رہتی دنیا تک امر کر جاتے ہیں۔ دنیا میں رہبر و استاد ہر جگہ اور ہر وقت رہے ہیں۔ بس اگر آپ اپنی سچی طلب کے ساتھ کسی رہبر یا استاد کو تلاش کریں گے تو وہ آپ کو مل ہی جائے گا۔ قدرت کبھی بھی انسان کی محنت رائیگاں نہیں کرتی، کوئی بھی انسان جس چیز کی تمنا کرتا ہے اسے وہ مل ہی جاتی ہے۔