امریکا سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے کوشاں
تحقیقی سرگرمیوں کا مقصد سوشل میڈیا کی نوعیت اور رجحان سمجھ کر اس پرقابو پانا ہے
سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس ایک ایسا میڈیم ہیں جہاں نہ صرف لوگ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، بلکہ اپنی مصروفیات بھی شیئر کرتے ہیں اور اپنے خیالات، نظریات اور جذبات پوسٹ اور کمنٹس کی صورت میں ان سائٹس پر سامنے لاتے رہتے ہیں۔
دوسری طرف کسی خاص فکر اور نظریے سے وابستہ افراد اور اس فکر اور نظریے کے تحت کام کرنے والے گروہوں کے ارکان بھی سوشل ویب سائٹس کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک رہتے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں اور دفاعی ادارے ان سائٹس میں دل چسپی رکھتے ہیں اور ان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
اس معاملے میں امریکا سب سے آگے ہے۔ حال ہی میں ہونے والے انکشاف کے مطابق امریکا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ برطانیہ کے موقر اخبار ''گارجین'' میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا کے دفاعی ادارے پینٹاگون نے ایسی درجنوں تحقیقات کے لیے فنڈز جاری کیے ہیں جن کا مقصد سوشل میڈیا کی نوعیت اور رجحان کو سمجھ کر اس پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
گارجین میں شایع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق امریکا کے سائنسی تحقیق سے متعلق دفاعی ادارے DARPA(Defense Advanced Research Projects Agency) جو پینٹاگون کے زیرسایہ کام کرتا ہے، ٹوئٹر، Pinterest ،Kickstarter اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے متعلق تحقیقی مطالعوں کے لیے بھاری رقوم پر مشتمل فنڈز جاری کرچکا ہے۔ سوشل میڈیا کو سمجھنے اور قابو پانے کے ''ڈی اے آر پی اے'' کے اس منصوبے کو ''Social Media in Strategic Communications'' کا نام دیا گیا ہے جس کا مخفف ہے '' SMISC۔''
بہ ظاہر DARPA نے اس منصوبے کا مقصد بڑا سادہ اور مثبت قرار دیا ہے، جو یہ ہے کہ ایسے ٹول تیار کیے جائیں جن کی مدد سے غلط اور جھوٹی اطلاعات کی روک تھام کی جائے اور درست اطلاعات سامنے لائی جائیں۔ تاہم یہ صرف ظاہری مقصد ہے، درحقیقت پینٹاگون سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اس طرح دسترس حاصل کرنا چاہتا ہے کہ ان کے یوزرز کے ڈیٹا تک اس کی بہ آسانی رسائی ہوسکے اور ساتھ ہی یوزرز کی پوسٹس اور کمنٹس کے ذریعے ان کے رجحانات کا سائنٹیفک بنیاد پر تجزیہ کیا جاسکے، اور پھر ان معلومات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
پینٹاگون کے اس منصوبے میں جو ادارے شریک ہیں ان میں یونی ورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، آئی بی ایم اور جارجیا ٹیک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔
DARPA کے تحت ہونے والی ان تحقیقی سرگرمیوں، جن پر کروڑوں ڈالر لگائے گئے ہیں، میں سے کچھ تحقیقی سرگرمیاں بڑی دل چسپ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ریسرچ جس میں سیلیبریٹیز جیسے لیڈی گاگا اور جسٹن بائبر کے ٹوئٹس کا تجزیہ بھی شامل تھا۔ اس تحقیق کا مقصد دراصل ٹوئٹر پر اثرپذیری کے صلاحیت کو سمجھنا تھا۔ دیگر تحقیقی کاوشیں ٹوئٹس کا ڈیٹا مرتب کرنے اور دیگر نوعیت کی پوسٹس کے تجزیے پر منتج ہوئیں۔
سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس ایک ایسی دنیا ہے جہاں ہر شخص اپنی بات کہہ سکتا اور اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرسکتا ہے۔ اسی طرح ان سائٹس پر ایسی خبریں، تصاویر اور وڈیوز آجاتی ہیں جنھیں مین اسٹریم میڈیا چھپاتا ہے۔ اس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے کسی بھی معاملے اور تنازعے کا ہر رخ لوگوں کے سامنے آجاتا ہے۔
امریکا اور وہ تمام طاقتیں جو صرف اپنے مطلب کی اطلاعات ہی لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہیں، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کے اس کردار سے خائف ہیں۔ ساتھ ہی وہ ان سائٹس پر موجود اپنے دشمن گروہوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور انھیں روکنا چاہتی ہیں، چناں چہ اس مقصد کے لیے ہر حربہ اور طریقہ آزمایا جارہا ہے۔ پینٹاگون کی تحقیقی سرگرمیاں کیا رنگ لائیں گی اور ان کی کام یابی کے بعد یوزرز کا ڈیٹا کس حد تک محفوظ رہ پائے گا؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔
دوسری طرف کسی خاص فکر اور نظریے سے وابستہ افراد اور اس فکر اور نظریے کے تحت کام کرنے والے گروہوں کے ارکان بھی سوشل ویب سائٹس کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک رہتے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں اور دفاعی ادارے ان سائٹس میں دل چسپی رکھتے ہیں اور ان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
اس معاملے میں امریکا سب سے آگے ہے۔ حال ہی میں ہونے والے انکشاف کے مطابق امریکا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ برطانیہ کے موقر اخبار ''گارجین'' میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا کے دفاعی ادارے پینٹاگون نے ایسی درجنوں تحقیقات کے لیے فنڈز جاری کیے ہیں جن کا مقصد سوشل میڈیا کی نوعیت اور رجحان کو سمجھ کر اس پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
گارجین میں شایع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق امریکا کے سائنسی تحقیق سے متعلق دفاعی ادارے DARPA(Defense Advanced Research Projects Agency) جو پینٹاگون کے زیرسایہ کام کرتا ہے، ٹوئٹر، Pinterest ،Kickstarter اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے متعلق تحقیقی مطالعوں کے لیے بھاری رقوم پر مشتمل فنڈز جاری کرچکا ہے۔ سوشل میڈیا کو سمجھنے اور قابو پانے کے ''ڈی اے آر پی اے'' کے اس منصوبے کو ''Social Media in Strategic Communications'' کا نام دیا گیا ہے جس کا مخفف ہے '' SMISC۔''
بہ ظاہر DARPA نے اس منصوبے کا مقصد بڑا سادہ اور مثبت قرار دیا ہے، جو یہ ہے کہ ایسے ٹول تیار کیے جائیں جن کی مدد سے غلط اور جھوٹی اطلاعات کی روک تھام کی جائے اور درست اطلاعات سامنے لائی جائیں۔ تاہم یہ صرف ظاہری مقصد ہے، درحقیقت پینٹاگون سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اس طرح دسترس حاصل کرنا چاہتا ہے کہ ان کے یوزرز کے ڈیٹا تک اس کی بہ آسانی رسائی ہوسکے اور ساتھ ہی یوزرز کی پوسٹس اور کمنٹس کے ذریعے ان کے رجحانات کا سائنٹیفک بنیاد پر تجزیہ کیا جاسکے، اور پھر ان معلومات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
پینٹاگون کے اس منصوبے میں جو ادارے شریک ہیں ان میں یونی ورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، آئی بی ایم اور جارجیا ٹیک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔
DARPA کے تحت ہونے والی ان تحقیقی سرگرمیوں، جن پر کروڑوں ڈالر لگائے گئے ہیں، میں سے کچھ تحقیقی سرگرمیاں بڑی دل چسپ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ریسرچ جس میں سیلیبریٹیز جیسے لیڈی گاگا اور جسٹن بائبر کے ٹوئٹس کا تجزیہ بھی شامل تھا۔ اس تحقیق کا مقصد دراصل ٹوئٹر پر اثرپذیری کے صلاحیت کو سمجھنا تھا۔ دیگر تحقیقی کاوشیں ٹوئٹس کا ڈیٹا مرتب کرنے اور دیگر نوعیت کی پوسٹس کے تجزیے پر منتج ہوئیں۔
سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس ایک ایسی دنیا ہے جہاں ہر شخص اپنی بات کہہ سکتا اور اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرسکتا ہے۔ اسی طرح ان سائٹس پر ایسی خبریں، تصاویر اور وڈیوز آجاتی ہیں جنھیں مین اسٹریم میڈیا چھپاتا ہے۔ اس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے کسی بھی معاملے اور تنازعے کا ہر رخ لوگوں کے سامنے آجاتا ہے۔
امریکا اور وہ تمام طاقتیں جو صرف اپنے مطلب کی اطلاعات ہی لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہیں، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کے اس کردار سے خائف ہیں۔ ساتھ ہی وہ ان سائٹس پر موجود اپنے دشمن گروہوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور انھیں روکنا چاہتی ہیں، چناں چہ اس مقصد کے لیے ہر حربہ اور طریقہ آزمایا جارہا ہے۔ پینٹاگون کی تحقیقی سرگرمیاں کیا رنگ لائیں گی اور ان کی کام یابی کے بعد یوزرز کا ڈیٹا کس حد تک محفوظ رہ پائے گا؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔