نیا میثاقِ پارلیمنٹ

پارلیمنٹ ہاؤس سے تحریک انصاف کے 10منتخب اراکین کی گرفتاری، خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا افغانستان سے براہِ راست بات چیت کرنے کا اعلان، بلوچستان میں 4 ہزار کے قریب افراد کا چوتھے شیڈول میں اندراج اور ملک کے مختلف علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں اور پولیس والوں پر حملے ، خیبر پختون خوا کے ضلع بنوں میں پولیس ہڑتال اوراس کے خاتمے کی شرائط میں دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر عدم اعتماد اور بلوچستان میں مستقل دھماکے، کیا ریاست کی رٹ کے کمزور ہونے کے سگنل تو نہیں؟ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ کے احاطے سے ایم این ایز کو گرفتار کیا گیا ہے۔

یوں پارلیمنٹ کی حرمت پامال ہوئی ۔ اسلام آباد کے علاقے سنگجانی میں جلسہ کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی قیادت نے انتظامیہ کے ساتھ جو کمٹمنٹ کی تھی، اس کی شرائط پر عملدرآمد نہ کرنے پر پولیس نے پی ٹی آئی کے دس ارکان قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا، اسلام آباد پولیس نے گرفتار ارکان اسمبلی کو عدالت میں پیش کیا اور ان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پولیس کی یہ استدعا مسترد کردی۔ ایک رپورٹر نے لکھا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہونے والے جن سرکاری اہلکاروں کو معطل کیا اور ان کے خلاف ایف آئی درج کرنے کا کہا تھا ، وہ اگلے دن اپنی ڈیوٹی پر موجود تھے۔ادھر کے پی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے افغانستان سے براہِ راست مذاکرات کا اعلان کردیا۔

اس وقت پاکستان کی وفاقی حکومت افغانستان سے کسی قسم کی بات چیت کے حق میں نہیں۔ وزیر اعلیٰ گنڈا پور اور تحریک انصاف کی قیادت اس حقیقت کو نظرانداز کر رہی ہے کہ جب ان کی حکومت نے افغان طالبان کی حکومت سے مذاکرات کیے تھے تو کابل کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے نمایندوں سے مذاکرات کا مشورہ دیا تھا۔ ٹی ٹی پی نے مطالبہ کیا تھا کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں ان کا کنٹرول تسلیم کیا جائے اور ان طالبان کو خیبر پختونخوا میں دوبارہ آباد کیا جائے۔ پشاور پبلک اسکول اور دیگر فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث مجرموں کو رہا کیا جائے۔

اس وقت کے وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کوششوں سے پاکستان کو مطلوب ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی قبائلی علاقوں میں آبادی کاری ممکن ہوئی ، یوں صوبے میں امن و امان کی نئی صورتحال پیدا ہوگئی اور مختلف علاقوں میں ہونے والے جرگوں میں یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ان طالبان کو نکال دیا جائے۔

اقوام متحدہ نے افغانستان کو دہشت گرد ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے اور کوئی ملک اس سے معاہدہ نہیں کرسکتا، اگر علی امین گنڈا پور نے واقعی افغان حکومت سے مذاکرات کیے اور کسی قسم کا معاہدہ کیا تو بین الاقوامی طور پر پاکستان کے لیے بڑی مشکلات ہوسکتی ہیں۔ ادھر بلوچستان میں حکام نے 4 ہزار کے قریب افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا ہے۔ صوبائی حکومت نے متعلقہ افراد کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس نہیں دیا۔ اس فہرست میں شامل افراد کو روزانہ پولیس تھانے میں حاضری دینا ہوگی۔ جو افراد تھانے جائیں گے ۔

بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک نئے میثاق پارلیمنٹ کی تجویز پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ایک نیا میثاق تیار کیا جائے۔ بلاول بھٹو کے ذہن میں 2005میں برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ان کی والدہ بے نظیر بھٹو شہید اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کا تصور ہے۔ اس میثاق جمہوریت کے گزرنے کے 19برسوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی تو کیا قائم ہونی تھی ، جمہوری اداروں کے لیے پہلے سے موجود جگہ بھی تنگ ہونے لگی۔ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم نہ ہونے کی ذمے داری اسٹیبلشمنٹ ، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور مذہبی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔

ان برسوں کی تاریخ سے اب تک مکمل طور پر واضح ہوگیا ہے کہ ریاستی اداروں کی افسر شاہی نے اپنی حلیف سیاسی قیادت کے تعاون سے جمہوری نظام اور سیاسی جماعتوں کو کمزورکیا ۔ مذہبی جنونی گروہوں کو قائم کیا گیا اور ان مذہبی گروہوں کو ایسے ٹارگٹ کیا گیا کہ جمہوری نظام کمزور ہوگیا اور سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کرنے پر مجبور ہوئیں، نئی سیاسی جماعتیں قائم کی گئیں اور ان جماعتوں کے رہنماؤں کو مقبولیت دلوانے کے لیے مختلف نوعیت کے حربے استعمال کیے گئے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت ایک دوسرے سے الجھنے لگی ۔

سب سے پہلے پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت کو نظرانداز کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف سے معاہدہ کیا جو این آر او کہلایا۔ میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری سے گٹھ جوڑ کرلیا اور سابق جنرل پاشا کے تیارکردہ میمو اسکینڈل کی حمایت کی اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی توہینِ عدالت میں سزا پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ان جماعتوں نے کرپشن کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ پھر اسٹیبلشمنٹ اور بانی پی ٹی آئی یکجا ہوئے اور شریف خاندان اور زرداری و بھٹو خاندان کو مکمل طور پر بدعنوان قرار دینے کے لیے سوشل میڈیا پر منظم مہم چلائی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لیے طویل سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اسٹیبلشنمٹ کے آگے سرینڈر کردیا، مگر اس میثاق کے کئی فوائد بھی ہوئے۔

جمہوری حکومتوں کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملا اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ صوبوں کو مکمل طور پر اختیارات منتقل کیے گئے مگر صوبوں نے نچلی سطح تک اختیارات کو منتقل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا اور نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کو نظرانداز کردیا گیا۔ بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی اور بجلی اور گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھنے اور روپیہ کی قدر کم ہونے سے ملک مہنگائی کے بدترین بحران کا شکار ہوا۔ مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت عوام کے لیے کچھ نہ کرسکیں۔

موجودہ حکومت تو اتنی کمزور ثابت ہوئی کہ بھارت سے تجارت کھولنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر پائی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران بلوچستان  اورخیبر پختون خوا میں مسلسل دہشت گردی اور پنجاب کے جنوبی اضلاع میںکچے کے ڈاکوؤں کی مسلسل سرگرمیوں جیسے اہم مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت ایسے قوانین اور آئینی ترامیم پاس کرانے کی کوشش کررہی ہے، جن پر پی ٹی آئی احتجاج کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق کنونشنز اور اس آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہورہی ہے جس کے تحفظ کا منتخب اراکین نے حلف اٹھایا ہوا ہے۔ اب جو آئینی ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہیں۔

ان میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام اور ججز سمیت سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کی شقیں شامل ہیں مگر اس میں عوام کو درپیش مسائل کے حل کے بارے میں کوئی تجویز نہیں ہے۔ اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے کہ ایسا میثاق تیار ہو جس میں پارلیمنٹ کی مکمل طور پر بالادستی قائم ہو، بلوچستان کا معاملہ طے ہو اور لاپتہ افراد کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کردیا جائے۔ عوام کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے اور آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت ریاست میں ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کے لیے اقدامات کے لیے ترامیم شامل ہونی چاہئیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اتحادی حکومت نے تحریک انصاف کی حکومت سے نجات حاصل کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی قبول کر لی ہے ، یوں سویلین اسپیس مزید کم ہوجائے گی اور عوام میں مایوسی بڑھے گی۔