آئینی ترامیم پر سیاسی کشمکش
صدر پاکستان کے ساتھ بلاول نہیں گئے۔ بلکہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ساتھ تھے
آئینی ترامیم قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلائے جانے کے باوجود ممکن نہ ہو سکیں۔ ایک عمومی رائے یہ ہے کہ مولانا نہیں مانے۔ سب مولانا کو منانے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن مولانا نہیں مانے۔ اب سب یہ تنقید بھی کر رہے ہیں کہ اگر مولانا نہیں مانے تھے تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلانے اور اتنے بڑے اسٹیج پر اتنا ڈرامہ اسٹیج کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سب حکومت کی نا اہلی ہے۔
حکومت کی نااہل ٹیم کی وجہ سے یہ نا کامی ہوئی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ جب مسودہ ہی تیار نہیں تھا تو پھر اجلاس بلانے کی ضرورت کیا تھی۔ غرض کہ ہر کسی کو ان ترامیم کے منظور نہ ہونے کی اصل وجہ معلوم ہے۔ اور وہ ایسا تبصرہ کر رہا ہے جیسے اسے سب معلوم ہے ۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ جیت کے کئی باپ ہوتے ہیں اور ہار یتیم ہوتی ہے۔ آج ہم اس کی عملی شکل دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کی شکست کی کوئی ذمے داری لینے کی کوشش نہیں کر رہا ۔ اگر یہ ترامیم منظور ہو جاتیں تو کیا ان کے منظور ہونے کا کریڈٹ نہ لیتے۔ کریڈٹ لینے کے لیے سب تیار ہوتے۔لیکن آج نہ ہونے کی ذمے داری لینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
بہرحال میں آپ کے ساتھ مل کر حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان ترامیم کی کہانی پس پردہ توکافی عرصہ سے چل رہی تھی۔ اس کی بازگشت تو سب کے سامنے تھی۔لیکن اس کی عملی سیاسی کوششوں کا آغاز اس دن ہوا۔ جب صدر پاکستان آصف زرداری وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کے گھر گئے۔ سب کو پتہ تھا کہ ترمیم پر بات کرنے گئے ہیں۔
صدر پاکستان نے مولانا کو ایک بندوق بھی تحفہ میں دی ۔ مولانا نے آصف زرداری کا تحفہ قبول کر لیا۔ ویسے تو میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں بغیر کسی بات چیت کے صدر پاکستان ایوان صدر سے اٹھے اور مولانا کے گھر چلے گئے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ یہ پہلی ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے پس پردہ بہت کام ہو چکا ہوگا۔ اور یہ کہا گیا ہوگا کہ اب صدر پاکستان جائیں گے تو بات طے ہو جائے گی۔ پھر صدر مملکت بندوق کا تحفہ لے کر گئے۔
صدر پاکستان کے ساتھ بلاول نہیں گئے۔ بلکہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ساتھ تھے۔ بہر حال جنھیں اس وقت کابینہ اور حکومت میں اسٹبلشمنٹ کا نمایندہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی موجودگی کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ موجود ہے۔ ویسے یہ حقیقت کہ مولانا اور محسن نقوی کے بہت برادرانہ تعلقات بھی ہیں۔
بہر حال صدر مملکت اور مولانا کے درمیان ملاقات کے چند دن بعد وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی مولانا کے گھر گئے۔ سب کو پتہ ہے کہ میاں شہباز شریف آئینی ترامیم کے لیے ہی گئے۔
یہ ملاقات کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ بہت کامیاب رہی۔ یہاں سے یہ تاثر پیدا ہونا شروع ہوا کہ مولانا ترمیم کے حق میں ہیں۔ پھر مولانا نے بھی کچھ ایسے سیاسی سگنل دیے جن سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مولانا ترامیم کے حق میں ہیں۔ جب آصف زرداری بندوق تحفہ میں دے رہے تھے تو یقیناً بندوق کا تحفہ قبول کرتے وقت مولانا نے ایسی گفتگو کی ہو گی کہ وہ سمجھے کہ مولانا ہمارے ساتھ ہیں۔ پھر اس ملاقات کی کامیابی کی کوئی گونج پیدا ہوئی ہو گی کہ وزیر اعظم مولانا کے گھر گئے۔
آج یہ بھی بہت بات کی جا رہی ہے کہ مولانا کو مسودہ نہیں دیا گیا۔ سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ مولانا کو مسودہ نہیں دیا گیا۔ لیکن ہم اس پہلو کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں کہ جب صدر مملکت اور وزیر اعظم مولانا کو ملے تو کیا انھوں نے مسودہ مانگا۔ جب وزیر اعظم ملنے گئے تو انھوں نے کہا کہ مسودہ کے بغیر میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔ جب اسٹبلشمنٹ کے نمایندے محسن نقوی انھیں مل رہے تھے تو انھوں نے انھیں کہا کہ مسودہ کے بغیر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ پہلے مسودہ پھر کوئی بات۔ کیا ہم یہ مان سکتے ہیں کہ مولانا ملاقاتوں میں مسودہ مانگ رہے تھے۔ اور حکومت کا یہ خیال تھا کوئی بات نہیں۔ شاید ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ منطق یہ نہیں مانتی۔
حکومت کی نااہل ٹیم کی وجہ سے یہ نا کامی ہوئی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ جب مسودہ ہی تیار نہیں تھا تو پھر اجلاس بلانے کی ضرورت کیا تھی۔ غرض کہ ہر کسی کو ان ترامیم کے منظور نہ ہونے کی اصل وجہ معلوم ہے۔ اور وہ ایسا تبصرہ کر رہا ہے جیسے اسے سب معلوم ہے ۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ جیت کے کئی باپ ہوتے ہیں اور ہار یتیم ہوتی ہے۔ آج ہم اس کی عملی شکل دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کی شکست کی کوئی ذمے داری لینے کی کوشش نہیں کر رہا ۔ اگر یہ ترامیم منظور ہو جاتیں تو کیا ان کے منظور ہونے کا کریڈٹ نہ لیتے۔ کریڈٹ لینے کے لیے سب تیار ہوتے۔لیکن آج نہ ہونے کی ذمے داری لینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
بہرحال میں آپ کے ساتھ مل کر حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان ترامیم کی کہانی پس پردہ توکافی عرصہ سے چل رہی تھی۔ اس کی بازگشت تو سب کے سامنے تھی۔لیکن اس کی عملی سیاسی کوششوں کا آغاز اس دن ہوا۔ جب صدر پاکستان آصف زرداری وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کے گھر گئے۔ سب کو پتہ تھا کہ ترمیم پر بات کرنے گئے ہیں۔
صدر پاکستان نے مولانا کو ایک بندوق بھی تحفہ میں دی ۔ مولانا نے آصف زرداری کا تحفہ قبول کر لیا۔ ویسے تو میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں بغیر کسی بات چیت کے صدر پاکستان ایوان صدر سے اٹھے اور مولانا کے گھر چلے گئے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ یہ پہلی ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے پس پردہ بہت کام ہو چکا ہوگا۔ اور یہ کہا گیا ہوگا کہ اب صدر پاکستان جائیں گے تو بات طے ہو جائے گی۔ پھر صدر مملکت بندوق کا تحفہ لے کر گئے۔
صدر پاکستان کے ساتھ بلاول نہیں گئے۔ بلکہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ساتھ تھے۔ بہر حال جنھیں اس وقت کابینہ اور حکومت میں اسٹبلشمنٹ کا نمایندہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی موجودگی کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ موجود ہے۔ ویسے یہ حقیقت کہ مولانا اور محسن نقوی کے بہت برادرانہ تعلقات بھی ہیں۔
بہر حال صدر مملکت اور مولانا کے درمیان ملاقات کے چند دن بعد وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی مولانا کے گھر گئے۔ سب کو پتہ ہے کہ میاں شہباز شریف آئینی ترامیم کے لیے ہی گئے۔
یہ ملاقات کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ بہت کامیاب رہی۔ یہاں سے یہ تاثر پیدا ہونا شروع ہوا کہ مولانا ترمیم کے حق میں ہیں۔ پھر مولانا نے بھی کچھ ایسے سیاسی سگنل دیے جن سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مولانا ترامیم کے حق میں ہیں۔ جب آصف زرداری بندوق تحفہ میں دے رہے تھے تو یقیناً بندوق کا تحفہ قبول کرتے وقت مولانا نے ایسی گفتگو کی ہو گی کہ وہ سمجھے کہ مولانا ہمارے ساتھ ہیں۔ پھر اس ملاقات کی کامیابی کی کوئی گونج پیدا ہوئی ہو گی کہ وزیر اعظم مولانا کے گھر گئے۔
آج یہ بھی بہت بات کی جا رہی ہے کہ مولانا کو مسودہ نہیں دیا گیا۔ سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ مولانا کو مسودہ نہیں دیا گیا۔ لیکن ہم اس پہلو کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں کہ جب صدر مملکت اور وزیر اعظم مولانا کو ملے تو کیا انھوں نے مسودہ مانگا۔ جب وزیر اعظم ملنے گئے تو انھوں نے کہا کہ مسودہ کے بغیر میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔ جب اسٹبلشمنٹ کے نمایندے محسن نقوی انھیں مل رہے تھے تو انھوں نے انھیں کہا کہ مسودہ کے بغیر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ پہلے مسودہ پھر کوئی بات۔ کیا ہم یہ مان سکتے ہیں کہ مولانا ملاقاتوں میں مسودہ مانگ رہے تھے۔ اور حکومت کا یہ خیال تھا کوئی بات نہیں۔ شاید ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ منطق یہ نہیں مانتی۔