معروف شاعر اجمل سراج آہوں سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک
اجمل سراج پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے اور کئی روز سے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے
معروف شاعر، صحافی اور کراچی پریس کلب کے ممبر سراج الدین اجمل المعروف اجمل سراج کو جمعرات کی شام سیکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں 'مولابخش قبرستان کورنگی نمبر 6' میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
اس سے قبل ان کی نماز جنازہ بعد نماز عصر طیبہ مسجد زمان ٹاون کورنگی نمبر 4 میں ادا کی گئی جس میں افضال احمد سید، فراست رضوی، خواجہ رضی حیدر، جاوید صبا، فاضل جمیلی، شاہد رسام، نوید عباس سمیت کئی شعرا، ادیبوں، صحافیوں، مرحوم کے احباب، عمائدین شہر اور اہل محلہ نے شرکت کی۔
اجمل سراج پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا اور کئی روز سے نجی اسپتال میں زیرعلاج تھے جہاں وہ جمعرات 19 ستمبر 2024ء کی علی الصباح وفات پا گئے۔ان کی عمر 56 برس تھی۔
انہوں نے پس ماندگان میں ایک بیوہ، دو بیٹوں اور تین صاحبزادیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔
اجمل سراج 1968 میں کراچی میں پیدا ہوئے اور وہ اپنے فرزند کراچی ہونے پر بہت فخر کیا کرتے تھے ۔
انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور نجی روزنامے کے ساتھ میگزین ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔
انہوں نے کئی نظمیں لکھیں جن میں 'بجھ گیا رات وہ ستارا بھی' اور 'میں نے اے دل تجھے سینے سے لگایا ہوا ہے' بہت مشہور ہوئیں۔ ان کی نظموں کا مجموعہ 'اور میں سوچتا رہا' پہلی بار 2005 میں شائع ہوا اور 2010 میں آرٹس کونسل کراچی نے اسے دوبارہ شائع کیا۔
ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ''الفراق'' قابل ذکر ہے ۔
وہ شاعری میں اپنے منفرد اسلوب اور اچھوتے موضوعات کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے تھے۔ان کی وفات سے اردو زبان و ادب میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے جو مدتوں پر نہ ہو سکے گا۔
دریں اثناء کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی، سیکرٹری شعیب احمد اور مجلس عاملہ نے ممبر کراچی پریس کلب اور مشہور شاعر سید سراج الدین اجمل المعروف سراج اجمل کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
جمعرات کو کراچی پریس کلب سے جاری اپنے تعزیتی بیان میں کراچی پریس کلب کے عہدیداروں نے کہا کہ غم کی اس گھڑی میں ہم اجمل سراج کے اہل خانہ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
انہوں نے دعا کی کہ اللہ پاک مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں اعلی مقام اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
اس سے قبل ان کی نماز جنازہ بعد نماز عصر طیبہ مسجد زمان ٹاون کورنگی نمبر 4 میں ادا کی گئی جس میں افضال احمد سید، فراست رضوی، خواجہ رضی حیدر، جاوید صبا، فاضل جمیلی، شاہد رسام، نوید عباس سمیت کئی شعرا، ادیبوں، صحافیوں، مرحوم کے احباب، عمائدین شہر اور اہل محلہ نے شرکت کی۔
اجمل سراج پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا اور کئی روز سے نجی اسپتال میں زیرعلاج تھے جہاں وہ جمعرات 19 ستمبر 2024ء کی علی الصباح وفات پا گئے۔ان کی عمر 56 برس تھی۔
انہوں نے پس ماندگان میں ایک بیوہ، دو بیٹوں اور تین صاحبزادیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔
اجمل سراج 1968 میں کراچی میں پیدا ہوئے اور وہ اپنے فرزند کراچی ہونے پر بہت فخر کیا کرتے تھے ۔
انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور نجی روزنامے کے ساتھ میگزین ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔
انہوں نے کئی نظمیں لکھیں جن میں 'بجھ گیا رات وہ ستارا بھی' اور 'میں نے اے دل تجھے سینے سے لگایا ہوا ہے' بہت مشہور ہوئیں۔ ان کی نظموں کا مجموعہ 'اور میں سوچتا رہا' پہلی بار 2005 میں شائع ہوا اور 2010 میں آرٹس کونسل کراچی نے اسے دوبارہ شائع کیا۔
ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ''الفراق'' قابل ذکر ہے ۔
وہ شاعری میں اپنے منفرد اسلوب اور اچھوتے موضوعات کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے تھے۔ان کی وفات سے اردو زبان و ادب میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے جو مدتوں پر نہ ہو سکے گا۔
دریں اثناء کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی، سیکرٹری شعیب احمد اور مجلس عاملہ نے ممبر کراچی پریس کلب اور مشہور شاعر سید سراج الدین اجمل المعروف سراج اجمل کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
جمعرات کو کراچی پریس کلب سے جاری اپنے تعزیتی بیان میں کراچی پریس کلب کے عہدیداروں نے کہا کہ غم کی اس گھڑی میں ہم اجمل سراج کے اہل خانہ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
انہوں نے دعا کی کہ اللہ پاک مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں اعلی مقام اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔