عدالتی نظام اورمجوزہ آئینی ترمیم

آئینی ترمیم ہو یا نئی قانون سازی یہ پارلیمنٹ کا طے شدہ حق ہے۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں کوئی اور آئینی ادارہ کو منتخب پارلیمان کے اس حق کو روکنے ، رکاوٹ ڈالنے یا اس حق کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔ عدلیہ کو آئین کی تشریح کا اختیار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں حدود کے واضع تعین کے باوجود آئینی و قانونی معاملات کو لے کر تنازعات ابھرتے رہتے ہیں۔

آج کل بھی ایسے مناظر نظر آتے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے کئی ایسے فیصلے ہیں، جن کی بدولت آمروں کے اقدامات اور فیصلوں کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہے۔اب پھر ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، حزب اقتدار کئی آرٹیکلز میں ترامیم لانے کی کوشش کررہی ہے جب کہ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتیں اورشخصیات ان ترامیم کی مخالفت کررہی ہیں۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے وکلا بھی ان ترامیم کی مخالفت کے لیے منظم ہونے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ  ہمارے یہاں حکمران آئینی ترامیم اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے متعارف کراتے ہیں ۔حزب اقتدار عموماً ایسی قانون سازی کو خفیہ رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مقصد پارلیمان کی بالادستی اور عدالتی نظام میں شفافیت لانا ہے تو اسے کیونکر خفیہ رکھا جاتا ہے ۔ایک ہی دن میں عجلت میں قانون سازی کرنا ،حزب اختلاف کے کچھ لوگوں کی گمشدگی جیسے امور نے حالیہ آئینی ترامیم کے کھیل کو خاصا متنازعہ بنا دیا ہے۔

پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کیونکر ممکنہ آئینی ترامیم کے پیکیج کے تناظر میںسیاسی تبدیلیوں کو سمجھ نہیں سکیں ۔ اگر مولانا فضل الرحمن ان کی مکمل حمایت پر تیار نہیں تھے تو کیونکر عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر قانون بھی مسودہ سے لاعلم تھے اور ایسا منظر پیش کیا گیا کہ ’’آئینی ترامیم کا پیکیج‘‘جیسے حکومت کا نہیں بلکہ اپوزیشن کا ہے۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ اس آئینی ترامیم کے پیکیج کو ایک ہی رات میں بغیر کسی بحث کے اور کسی کو اعتماد میں لیے پاس کرنا مقصود ہے ۔یقینی طور پر اس طرح کی اہم ترامیم کے معاملات میں حکومتی طرز عمل کسی بھی طور پر آئین اور قانون کی بالادستی کے برعکس تھا اور اس عمل نے مجموعی طور پر اس سارے سیاسی نظام کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ۔

ہر حکومت عدالتی اصلاحات کی بات کرتی ہے مگر شائد ہمارے جیسے کمزور جمہوری معاشروں میں اصلاحات کا اصل مقصد اپنے اقتدار کو طاقت دینا ہوتا ہے ۔ اگر ہم مجوزہ آئینی ترامیم کے پیکیج کو دیکھیں تو ہمیں بہت سے ایسے پہلوؤںکو بھی دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو قانون یا آئین سے زیادہ سیاست کے مسائل سے جڑے ہوئے ہیں ۔اسی بنیاد پر آئینی عدالتوں کے قیام کو یہاں موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ یا نئی بننے والی آئینی عدالت کی سربراہی سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔آئینی ترامیم کے مخالفین کا موقف ہے کہ اول یہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور دوسرا عدالتوں ، ججوں کو حکومتی کنٹرول میں لانے کا منصوبہ ہے ۔

حکومت پر یہ پھبتی بھی کسی جا رہی ہے کہ اس نے بغیر ہوم ورک کے اور بالخصوص مولانا فضل الرحمن کو مکمل اعتماد میں لیے بغیر ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس طلب کرلیا ۔حکومت کا خیال تھا کہ اول مولانا فضل الرحمن کو ہم کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی طور پر رام کرلیں گے ۔اگر کوئی مجبوری یا مشکل آئی تو اس کی کمی اسٹیبلیشمنٹ پوری کردے گی ۔لیکن لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنی تجربہ کاری کے باوجود سمجھنے میں ناکام رہیں یا ان کے ساتھ وہ کچھ طے نہ ہوسکا جو وہ چاہتے تھے ۔مولانا فضل الرحمن کو پہلے ہی ان دونوں بڑی جماعتوں پر غصہ تھا کہ 8فروری کے انتخابات کے بعد جو اقتدار کی بندر بانٹ ہوئی اس میں ان کے مفادات کو نظرانداز کیاگیاتھا ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام آباد میں کچھ دنوں سے ’’ مجوزہ آئینی ترامیم ‘‘ کی منظوری کے لیے سجائے جانے والا سیاسی دربار، سیاسی اسٹیج یا فن کاروں کی خراب پرفارمنس سمیت سیاسی و قانونی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کے کھیل نے مجموعی طورپر ہمارے حکومتی نظام کی ساکھ کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر بے نقاب کیا ہے ۔ سیاسی و جمہوری لوگوں نے اپنی سیاسی ساکھ جس پر پہلے سے ہی کئی سوالیہ نشانات ہیں ان کو مزید خراب کیا ہے اور جس برے انداز سے پارلیمانی و جمہوری سیاست کے طور طریقے اختیار کیے جارہے ہیں وہ کسی بھی طور پر اچھا شگون نہیں ہے۔

پہلے سے موجود کمزور جمہوری نظام مزید خود کو کمزوری کی طرف دھکیل رہا ہے اور اس میں ایک بڑا قصور خود پارلیمانی یا سیاسی جماعتوںکا ہے ۔سوچیں ایک آئینی ترامیم کا پیکیج تیار ہوتا ہے جس سے سیاسی قیادت خود بھی بے خبر ہوتی ہے اس کے ہاتھ میں یہ مسودہ دے دیاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسے پڑھنے یا اس پر بحث یا مباحثہ کی ضرورت نہیں ۔

بس جہاں پارٹی قیادت حکم دے تو اس کی حمایت میں ہاتھ کھڑے کرنے ہیں اور جو اس میں خرابی پیدا کرے گا وہ اپنے سیاسی نقصان کا خود ذمے دار ہوگا، توکہاں گئی جمہوریت یا سیاست کے سنہری اصول یا آئین و قانون کی حکمرانی کے حقیقی تصورات ۔ایسے لگتا ہے کہ ملک کا مجموعی سیاسی اور جمہوری نظام ایک یرغمالی کا منظر پیش کررہا ہے اور ہم جمہوریت و قانون کی حکمرانی کے نام پر محض تماشائی کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔اگرچہ حکومت نے ہمت نہیں ہاری ہے اور اس بار ’’ بڑی وسیع مشاورت ‘‘ کے بعد دوبارہ اسی آئینی ترامیم کے پیکیج پر نئی لپ سٹک اور سرخی کے ساتھ میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کی مشاورت اور ایک نئے آئینی پیکیج کی بازگشت ظاہر کرتی ہے کہ آئینی ترامیم کی روشنی میں کوئی نہ کوئی تو مہم جوئی ہوگی اور جو پس پردہ ایجنڈا ہے اسے ہر صورت آگے بڑھانا مقصود ہے ۔لیکن اس سے پہلے حکومت کو مولانا فضل الرحمن کو وہ کچھ دینا ہوگا جو وہ چاہتے ہیں اور اسی اقتدار کی بندر بانٹ میں ترامیم کی منظوری حکومت کی مجبوری بھی بن گئی ہے ۔لیکن اگر کوئی بھی ترمیم پیدا ہوتی ہے تو ایک نیا سیاسی پنڈورا اور نئے ٹکراؤ کا کھیل قومی سیاست پر غالب ہوگا۔