اگر ہم سُدھر جائیں تو…
بنگلہ دیشیوں کو فی الوقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن سب سے بڑا چیلنج قومی بیانئے کا ہو سکتا ہے
بنگلہ دیش اپنی 53 سالہ زندگی میں ایک بار پھر بھر پور سیاسی و سفارتی کروٹ لے رہا ہے۔ان 53سالوں میں خالص جمہوری دور تو کبھی دیکھنے کو نہیں ملا،البتہ آمریت کسی نہ کسی صورت سایہ فگن رہی۔شیخ حسینہ کا کل ملا کر 20سالہ دورِ اقتدار ایک بدترین آمریت میں ڈھل چکا تھا۔ڈکٹیٹرشپ اپنے خون آشام پنجے گاڑ چکی تھی۔
لگتا تھا اب بنگلہ دیش میں جمہوریت کبھی سانس نہیں لے سکے گی لیکن بنگلہ دیشی حریت کے متوالے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب کہ شیخ حسینہ واجد بھارت کی مدد سے،آہنی ہاتھوں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھیں،بنگلہ دیشی عوام ایک طوفان کی مانند اُٹھے اور آمریت کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا۔برِ صغیر میں مغربی تعلیم نے سب سے پہلے بنگال کے باسیوں کو ہی جھنجھوڑا،جس سے مغربی جمہوری اقدار پروان چڑھیں۔یہی وجہ ہے کہ بنگال کے باسی لمبے عرصے تک کسی ظلم و استبداد کو برداشت نہیں کرتے۔ 1971میں ہندوؤں کی آبادی22فیصد تھی جو اب گھٹ کر 8فیصد پر آ گئی ہے۔بنگلہ دیش نے 1991 کے بعد اسلامی تشخص کو بڑھاوا دیا ہے۔
1970کی دہائی میں شیخ مجیب بہت مقبول تھے۔وہ ملک کے بانی ،پہلے صدر اور سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جلد ہی وہ جمہوریت کی راہ چھوڑ کر آمریت قائم کرنے لگے۔انھوں نے ون پارٹی سسٹم قائم کیا لیکن بنگلہ دیشی عوام اور افواج نے ان کی نہیں چلنے دی۔چند فوجی افسروں نے ان کے گھر پر دھاوا بول کر ان کو اور ان کے گھر کے اکثر افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔
حسینہ جب برسرِ اقتدار آئیں تو انھوں نے مختلف طریقوں سے مجیب کلٹMujib Cultپیدا کرنے کی ٹھان لی۔شیخ مجیب کے مجسمے جا بجا نصب کیے گئے۔سڑکوں چوراہوں میں شیخ مجیب اور حسینہ واجد کی قدِ آدم تصویریں لگائی گئیں،پورٹریٹ اور فریسکوز بنائے گئے۔کوئی بھی مسافر جب ڈھاکہ ہوائی اڈے سے باہر نکلتا تو اسے شیخ مجیب کے قدِ آدم پورٹریٹ سے آمنا سامنا ہوتا،جس پر جلی حروف میں یہ پڑھنے کو ملتا کہ شیخ مجیب کے بنگلہ دیش میں خوش آمدید۔امسال اگست کے ہنگاموں میں ایسے تمام نشانات مٹا دئے گئے ہیں۔
بنگلہ دیشیوں کو فی الوقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن سب سے بڑا چیلنج قومی بیانئے کا ہو سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کو ایک ایسے فادر آف دی نیشن کی تلاش ہو سکتی ہے جو سب کو قابلِ قبول ہو۔اس ملک کے اپنے ہی باسیوں نے بنگلہ بندھو کو مار ڈالا۔شیخ مجیب کی لاش تین دن سیڑھیوں پر گلتی سڑتی رہی۔اس کے قتل پر کوئی آنکھ نہ روئی اور اب اس کی بیٹی کو ملک سے بھاگنا پڑا۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد 11ستمبر 2024کو پہلی بار نواب سلیم اﷲ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام،ڈھاکہ نیشنل پریس کلب میں حضرت قائدِ اعظم کی برسی منائی گئی۔یہ ایک بہت غیر معمولی واقعہ تھا۔یہ کوئی بہت بڑی تقریب نہ تھی لیکن یہ قدم ایک خوبصورت لمبے سفر کا آغاز تھا۔یہ پاکستان اور حضرت قائدِ اعظم کی بنگلہ دیش میں ایسی انٹری ہے جیسے گلستان میں چپکے سے بہار آ جائے۔قائدِ اعظم کی برسی منانے کے لیے ڈھاکہ پریس کلب کے حال میں قائد کی بڑی تصویر کے ساتھ پینافلیکس آویزاں کیا گیا تھا۔پروفیسر مستفیذالرحمٰن نے اپنے کلیدی مقالے میں قائد کی زندگی اور کارناموں کو اجاگر کیا۔
نواب سلیم اﷲ اکیڈمی کے صدر جناب محمد عبدالجبار اور مشہور صحافی کمال موجمدار نے بھی خطاب کیا۔ شاعر جناب جعفر الحق جعفر نے قائد کی شان میں قصیدہ پڑھا۔ڈھاکہ میں زیرِ تعلیم دو پاکستانی طلباء نے اردو میں نظمیں پڑھیں۔جناب شمس الدین نے اس موقع پر کہا کہ اگر قائد کی قیادت میں برِ صغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل نہ ہوتا تو آج بنگلہ دیش نہ ہوتا اور اس کی حالت کشمیر جیسی ہوتی۔انھوں نے مزید کہا کہ قائد کوپاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کا بھی بانی مانا اور پکارا جائے۔بنگلہ دیش کے انتہائی مضبوط اسلامی تشخص کو دیکھتے ہوئے،دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبونے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔
مندرجہ بالا حقیقتوں کے باوصف ہمارے لیے کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے۔ حالیہ تبدیلیوں کے بعد بنگلہ دیش کی سیاسی و سفارتی لینڈ سکیپ میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔بنگلہ دیش اپنی آزاد پالیسیوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔اب یہ ملک بھارت کے ساتھ چھوٹے اور کمزور پارٹنر کا کردار ادا کرنے کو تیار بھی نہیں اورمجبور بھی نہیں ۔یہ خیال بہت سے لوگوں کے اندر جاگزین ہوتا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش کو بھارت کی غلامی سے جان چھڑانی ہو گی۔
اکثر افراد کا خیال ہے کہ بھارت کے مفادات پر بنگلہ دیش کے مفادات کو قربان کیا جا رہا تھا۔حسینہ کے بھارت میں قیام سے ڈھاکہ اور دہلی کے درمیان تعلقات پہلے والے مثالی نہیں۔ بھارتی انگشت بدندان ہیں کہ عوام کے اندر سے پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے۔ڈھاکہ ٹریبیون نے چند دن پہلے خبر لگائی کہ پروفیسر شاہد الزماں نے فوجی افسروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش چونکہ تین اطراف سے بھارت سے گھرا ہوا ہے،اس لیے ہماری سیکیورٹی پیراماؤنٹ ہے۔
بھارت کا غالب قوت ہونے کا زعم توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش نیوکلیئر ہو جائے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنگلہ دیش نیوکلیئر قوت بنے۔اس کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کرے۔ اس سلسلے میں پاکستان بنگلہ دیش کا سب سے بااعتماد ساتھی ہے۔ بنگلہ دیش کی حفاظت کے لیے پاکستان ہر حد تک جائے گا۔بنگلہ دیشی افواج کے افسران نے اس تجویز کو بہت سراہا۔چند ماہ پہلے ایسے الفاظ کی ادائیگی کا تصور بھی نہیں تھا۔
پاکستان کی مضبوط افواج اور ایٹمی قوت بنگلہ دیش کو بھارتی جارحیت کے خلاف سیکیورٹی چھتری مہیا کر سکتی ہے۔اگر بنگلہ دیش پاکستان نیوکلیئر معاہدہ ہو جائے تو بھارت کبھی بنگلہ دیش کو کسی دباؤ میں نہیں لا سکے گا۔ اور سنیئے، بنگلہ دیش کے ایک بہت بڑے فلاحی ادارے کے سربراہ اور مشہور سماجی شخصیت جناب جسیم الدین رحمٰن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت جموں و کشمیر سے فوراً نکل جائے،کہ ہم خالصتانی قوتوں سے مل کر پنجاب کو بھارت سے علیحدہ کروانے کے لیے کام کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ ہم بھارت کو وارن کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش نہ تو سکم ہے اور نہ ہی بھوٹان۔یہ اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کا آزاد ملک ہے۔کشمیریوں کو بھارت سے آزادی کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی دھرتی سے یہ آوازیں ہمیں کہہ رہی ہیں کہ خدا را جاگ جاؤ۔ سدھر جاؤ،اپنے ملک کو بچا لو۔قدرت تو تمہاری طرف مہربانی کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔
لگتا تھا اب بنگلہ دیش میں جمہوریت کبھی سانس نہیں لے سکے گی لیکن بنگلہ دیشی حریت کے متوالے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب کہ شیخ حسینہ واجد بھارت کی مدد سے،آہنی ہاتھوں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھیں،بنگلہ دیشی عوام ایک طوفان کی مانند اُٹھے اور آمریت کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا۔برِ صغیر میں مغربی تعلیم نے سب سے پہلے بنگال کے باسیوں کو ہی جھنجھوڑا،جس سے مغربی جمہوری اقدار پروان چڑھیں۔یہی وجہ ہے کہ بنگال کے باسی لمبے عرصے تک کسی ظلم و استبداد کو برداشت نہیں کرتے۔ 1971میں ہندوؤں کی آبادی22فیصد تھی جو اب گھٹ کر 8فیصد پر آ گئی ہے۔بنگلہ دیش نے 1991 کے بعد اسلامی تشخص کو بڑھاوا دیا ہے۔
1970کی دہائی میں شیخ مجیب بہت مقبول تھے۔وہ ملک کے بانی ،پہلے صدر اور سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جلد ہی وہ جمہوریت کی راہ چھوڑ کر آمریت قائم کرنے لگے۔انھوں نے ون پارٹی سسٹم قائم کیا لیکن بنگلہ دیشی عوام اور افواج نے ان کی نہیں چلنے دی۔چند فوجی افسروں نے ان کے گھر پر دھاوا بول کر ان کو اور ان کے گھر کے اکثر افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔
حسینہ جب برسرِ اقتدار آئیں تو انھوں نے مختلف طریقوں سے مجیب کلٹMujib Cultپیدا کرنے کی ٹھان لی۔شیخ مجیب کے مجسمے جا بجا نصب کیے گئے۔سڑکوں چوراہوں میں شیخ مجیب اور حسینہ واجد کی قدِ آدم تصویریں لگائی گئیں،پورٹریٹ اور فریسکوز بنائے گئے۔کوئی بھی مسافر جب ڈھاکہ ہوائی اڈے سے باہر نکلتا تو اسے شیخ مجیب کے قدِ آدم پورٹریٹ سے آمنا سامنا ہوتا،جس پر جلی حروف میں یہ پڑھنے کو ملتا کہ شیخ مجیب کے بنگلہ دیش میں خوش آمدید۔امسال اگست کے ہنگاموں میں ایسے تمام نشانات مٹا دئے گئے ہیں۔
بنگلہ دیشیوں کو فی الوقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن سب سے بڑا چیلنج قومی بیانئے کا ہو سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کو ایک ایسے فادر آف دی نیشن کی تلاش ہو سکتی ہے جو سب کو قابلِ قبول ہو۔اس ملک کے اپنے ہی باسیوں نے بنگلہ بندھو کو مار ڈالا۔شیخ مجیب کی لاش تین دن سیڑھیوں پر گلتی سڑتی رہی۔اس کے قتل پر کوئی آنکھ نہ روئی اور اب اس کی بیٹی کو ملک سے بھاگنا پڑا۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد 11ستمبر 2024کو پہلی بار نواب سلیم اﷲ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام،ڈھاکہ نیشنل پریس کلب میں حضرت قائدِ اعظم کی برسی منائی گئی۔یہ ایک بہت غیر معمولی واقعہ تھا۔یہ کوئی بہت بڑی تقریب نہ تھی لیکن یہ قدم ایک خوبصورت لمبے سفر کا آغاز تھا۔یہ پاکستان اور حضرت قائدِ اعظم کی بنگلہ دیش میں ایسی انٹری ہے جیسے گلستان میں چپکے سے بہار آ جائے۔قائدِ اعظم کی برسی منانے کے لیے ڈھاکہ پریس کلب کے حال میں قائد کی بڑی تصویر کے ساتھ پینافلیکس آویزاں کیا گیا تھا۔پروفیسر مستفیذالرحمٰن نے اپنے کلیدی مقالے میں قائد کی زندگی اور کارناموں کو اجاگر کیا۔
نواب سلیم اﷲ اکیڈمی کے صدر جناب محمد عبدالجبار اور مشہور صحافی کمال موجمدار نے بھی خطاب کیا۔ شاعر جناب جعفر الحق جعفر نے قائد کی شان میں قصیدہ پڑھا۔ڈھاکہ میں زیرِ تعلیم دو پاکستانی طلباء نے اردو میں نظمیں پڑھیں۔جناب شمس الدین نے اس موقع پر کہا کہ اگر قائد کی قیادت میں برِ صغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل نہ ہوتا تو آج بنگلہ دیش نہ ہوتا اور اس کی حالت کشمیر جیسی ہوتی۔انھوں نے مزید کہا کہ قائد کوپاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کا بھی بانی مانا اور پکارا جائے۔بنگلہ دیش کے انتہائی مضبوط اسلامی تشخص کو دیکھتے ہوئے،دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبونے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔
مندرجہ بالا حقیقتوں کے باوصف ہمارے لیے کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے۔ حالیہ تبدیلیوں کے بعد بنگلہ دیش کی سیاسی و سفارتی لینڈ سکیپ میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔بنگلہ دیش اپنی آزاد پالیسیوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔اب یہ ملک بھارت کے ساتھ چھوٹے اور کمزور پارٹنر کا کردار ادا کرنے کو تیار بھی نہیں اورمجبور بھی نہیں ۔یہ خیال بہت سے لوگوں کے اندر جاگزین ہوتا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش کو بھارت کی غلامی سے جان چھڑانی ہو گی۔
اکثر افراد کا خیال ہے کہ بھارت کے مفادات پر بنگلہ دیش کے مفادات کو قربان کیا جا رہا تھا۔حسینہ کے بھارت میں قیام سے ڈھاکہ اور دہلی کے درمیان تعلقات پہلے والے مثالی نہیں۔ بھارتی انگشت بدندان ہیں کہ عوام کے اندر سے پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے۔ڈھاکہ ٹریبیون نے چند دن پہلے خبر لگائی کہ پروفیسر شاہد الزماں نے فوجی افسروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش چونکہ تین اطراف سے بھارت سے گھرا ہوا ہے،اس لیے ہماری سیکیورٹی پیراماؤنٹ ہے۔
بھارت کا غالب قوت ہونے کا زعم توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش نیوکلیئر ہو جائے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنگلہ دیش نیوکلیئر قوت بنے۔اس کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کرے۔ اس سلسلے میں پاکستان بنگلہ دیش کا سب سے بااعتماد ساتھی ہے۔ بنگلہ دیش کی حفاظت کے لیے پاکستان ہر حد تک جائے گا۔بنگلہ دیشی افواج کے افسران نے اس تجویز کو بہت سراہا۔چند ماہ پہلے ایسے الفاظ کی ادائیگی کا تصور بھی نہیں تھا۔
پاکستان کی مضبوط افواج اور ایٹمی قوت بنگلہ دیش کو بھارتی جارحیت کے خلاف سیکیورٹی چھتری مہیا کر سکتی ہے۔اگر بنگلہ دیش پاکستان نیوکلیئر معاہدہ ہو جائے تو بھارت کبھی بنگلہ دیش کو کسی دباؤ میں نہیں لا سکے گا۔ اور سنیئے، بنگلہ دیش کے ایک بہت بڑے فلاحی ادارے کے سربراہ اور مشہور سماجی شخصیت جناب جسیم الدین رحمٰن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت جموں و کشمیر سے فوراً نکل جائے،کہ ہم خالصتانی قوتوں سے مل کر پنجاب کو بھارت سے علیحدہ کروانے کے لیے کام کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ ہم بھارت کو وارن کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش نہ تو سکم ہے اور نہ ہی بھوٹان۔یہ اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کا آزاد ملک ہے۔کشمیریوں کو بھارت سے آزادی کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی دھرتی سے یہ آوازیں ہمیں کہہ رہی ہیں کہ خدا را جاگ جاؤ۔ سدھر جاؤ،اپنے ملک کو بچا لو۔قدرت تو تمہاری طرف مہربانی کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔