رحمتیں بانٹتا ہر سمت وہ ذی شان گیا۔۔۔۔۔ رحمتہ اللعالمین ﷺ
عبداﷲ کے گھر سے طلوع ہونے والے اس آفتاب و ماہتاب کی روشنی سے پوری دنیا فیض یاب ہونے لگی
اﷲ تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ کو تمام جہاں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ رحمتہ للعالمین ﷺ کی آمد سے قبل پوری دنیا شرک و بدعت، ضلالت و گم راہی اور معصیت و نافرمانی کے عمیق گڑھے میں گری ہوئی تھی، انساینت نام کی کوئی چیز نہ تھی، لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، عورتوں اور غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا، مرد و زن بیت اﷲ کا برہنہ طواف کرتے، ایک خدا کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کی پرستش کی جاتی حتی کہ خانہ کعبہ میں اس مقصد کے لیے تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔
فسق و فجور اور بدکاریوں پر ندامت و شرمندگی کے بہ جائے فخر کیا جاتا تھا، شراب نوشی اور قمار بازی ان کا پسندیدہ و محبوب مشغلہ تھا، حسب و نسب پر فخر کیا جاتا، انتقام و کینہ پروری کو وصف و خوبی سمجھا جاتا، بغض و عداوت میں کوئی عار نہ ہوتی، بتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے، زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر کھایا جاتا، ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کو کم تر اور ذلیل سمجھتا، گھوڑ دوڑ پر بازی لگائی جاتی، سودی لین دین عام تھا، معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے صدیوں چلتے، گویا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔
ان حالات میں جب کہ ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی حضور اقدس ﷺ دنیا میں ''رحمتہ للعالمین ﷺ'' بن کر تشریف لاتے ہیں اور عبداﷲ کے گھر سے طلوع ہونے والے اس آفتاب و ماہتاب کی روشنی سے پوری دنیا فیض یاب ہونے لگی، آپ ﷺ کی تشریف آوری ایسی نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر ''احسانِ عظیم'' سے تعبیر فرمایا ہے۔
آپ ﷺ سراپا رشد و ہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے کامل نمونہ ہیں اور آپ ﷺ کے ''اسوہ حسنہ'' میں دنیا و آخرت کی فلاح و کام یابی کو مضمر کر دیا گیا ہے، آپ ﷺ ''ابر رحمت'' بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفر و شرک اور ضلالت و گم راہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت کی روشنی سے منور کیا، آپ ﷺ نے انسانیت سے گری ہوئی ایک ایسی قوم میں مثالی پاکیزہ اور باکردار روشن زندگی گزاری کہ جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کرتا بھی اپنے لیے توہین و عیب سمجھتا تھا۔
رحمتہ للعالمین ﷺ اعلانِ نبوت سے قبل ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے، لوگ آپ ﷺ کے پاس امانتیں رکھواتے اور معاملات کے فیصلے کرواتے، لیکن جب رحمتہ للعالمین ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اعلانِ نبوت کرتے ہوئے ان کو بتوں کی پرستش ترک کرکے ایک خدا کی عبادت کرنے، اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دینے کے بارے میں کہا تو یہی قوم جو آپؐ کی پاک دامنی اور صدق و امانت کی قسمیں کھانے والی تھی وہی آپؐ کے خلاف ہوگئی، پھر آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے جانے لگے، آپ ﷺ کو ہر طرح تنگ کرتے ہوئے ستایا جاتا، طائف کے میدانوں میں آپ ﷺ کو توحید کی دعوت دینے کی پاداش میں پتھر مار کر لہولہان کر دیا جاتا ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ رحمتہ للعالمین ﷺ سے سوال کیا: کیا آپ ﷺ پر احد سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ مجھے اذیت و تکلیف (کافروں) سے طائف کی گھاٹی میں پہنچی جس دن میں نے عبدیالیل کے بیٹے پر (دعوت و تبلیغ کے لیے) اپنے آپ کو پیش کیا۔
دعوت توحید دینے کی پاداش میں آپؐ پر گندگی پھینکی جاتی اور آپ ﷺ کو مجنون دیوانہ اور جادوگر تک کہا گیا (نعوذباﷲ)۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے، شعب ابی طالب میں آپ ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کو تین سال تک قید و محصور کر دیا جاتا ہے آپ ﷺ کے ساتھ اس قید میں ام المومنین حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سمیت عورتیں بچے اور بوڑھے تک تھے، آپ ﷺ کا مکمل مقاطعہ اور سوشل بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے، کھانے پینے کی کوئی چیز بھی آپؐ تک اور آپؐ کے ساتھیوں تک نہ پہنچنے دی جاتی تھی تاکہ یہ بھوک و پیاس سے تنگ آ کر حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔
دودھ پیتے بچے بھوک سے روتے بلکتے تو کفار خوش ہوتے، ان مشکل ترین حالات میں بھی آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ نے جاں نثاری و فدا کاری کی اعلیٰ اور بے نظیر مثال قائم کرتے ہوئے درختوں کے پتے چپا کر اور خشک چمڑے کو پانی میں بھگو کر نگل لیتے لیکن حضور ﷺ کا ساتھ اور ایمان کو نہیں چھوڑا۔ آپ ﷺ کو احد کے میدان میں زخمی کیا گیا، دندان مبارک شہید کیے گئے، آپ ﷺ پر ایمان لانے کی پاداش میں حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ اور یاسرؓ و عمارؓ سمیت دیگر صحابہ کرامؓ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کفار ان کو گرم ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتے، لیکن اس سب کے باوجود رحمتہ للعالمین ﷺ نے کبھی ان ظالموں کے لیے بد دعا نہیں کی بل کہ ہدایت کے لیے ہی دعا کی۔
ان حالات میں بھی محسن انسانیت ﷺ اپنے مشن کو زندہ اور جاری رکھتے ہیں، مکہ کے لوگوں نے جب ظلم و تشدد کی انتہاء کر دی تو آپ ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں، مدینہ میں انصار نے حضور ﷺ اور ہجرت کر کے آنے والے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اخوت و محبت کا وہ بے مثال مظاہرہ کیا کہ تاریخ انسانی اس کی نظیر و مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔
اور پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب رحمتہ للعالمین ﷺ اپنے دس ہزار جاں نثار صحابہ کرامؓ کے لشکر کے ہم راہ اسی مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جہاں سے آپ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو دس سال قبل ظلم و تشدد کر کے نکالا جاتا ہے، حضور ﷺ کے سر مبارک کی قیمت سو سرخ اونٹ مقرر کی گئی تھی... لیکن یہ کیسا فاتح ہے... اور کیسا انقلاب ہے... نہ تو قتل عام کیا جا رہا ہے اور نہ ہی فتح کا جشن منایا جا رہا ہے آج انتقام... فتح کا نشہ ... اور تکبر و غرور نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ... رحمتہ للعالمین ﷺ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے ہوئے عاجزی و انکساری کے ساتھ سواری پر اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ کا چہرہ انور سواری کی پشت کے ساتھ ملا ہُوا نظر آتا ہے...
مکہ سے نکالنے والے خوف زدہ ہیں کہ حضور ﷺ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں... اور انتقام کا کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں... ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے... وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کے خون کے پیاسے تھے... وہ بھی تھے جنہوں نے پتھر مار مار کر آپ ﷺ کے جسم اطہر کو لہولہان کیا تھا... وہ بھی تھے کہ جنھوں نے آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ پر ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے تپتی ریت پر لٹا کر ان کے سینوں پر وزنی پتھر رکھے تھے ان صحابہ کرامؓ کو دھکتے ہوئے کوئلوں پر لٹایا گیا اور ان کے جسموں کو گرم سلاخوں کے ساتھ داغا گیا...
آج یہ سب بارگاہ رسالت ﷺ میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں، رحمتہ للعالمین ﷺ نے ان سب پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا: ''جانتے ہو آج میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟'' بے بسی اور ندامت کے عالم میں ہر طرف سے ایک ہی رحم طلب صدا گونجی: ''آپ ﷺ عالی ظرف اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔'' رحمتہ للعالمین ﷺ نے سب کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ''آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے جاؤ تم سب آزاد ہو۔''
پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ہر کسی کو امان مل رہی ہے، جو بھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں آیا اس نے اپنے آپ کو مامون پایا، پھر رحمتہ للعالمین ﷺ کی بارگاہ میں بڑے بڑے دشمنِ اسلام اپنے کفر سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اپنے آپ کو نورِ ایمان سے منور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں... جو فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ کے انتقام کے خوف سے بھاگ رہے تھے وہ بھی آپ ﷺ کی شانِ رحیمی و کریمی اور معافی کے معاملے کو دیکھ اور سن کر اسلام کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں۔ اور پھر رحمتہ للعالمین ﷺ بیت اﷲ میں داخل ہو کر تین سو ساٹھ بتوں کو توڑتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کا کلمہ بلند کر کے حق کے آ جانے اور باطل کے مٹ جانے کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں... چشم فلک نے پھر یہ منظر بھی دیکھا کہ جب مکہ کی گلیوں میں ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والے سیدنا حضرت بلالؓ حضور ﷺ کے حکم سے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کے اذان دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت و کبریائی اور حضور ﷺ کی رسالت کا اعلان کرتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور حضور ﷺ کی سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
فسق و فجور اور بدکاریوں پر ندامت و شرمندگی کے بہ جائے فخر کیا جاتا تھا، شراب نوشی اور قمار بازی ان کا پسندیدہ و محبوب مشغلہ تھا، حسب و نسب پر فخر کیا جاتا، انتقام و کینہ پروری کو وصف و خوبی سمجھا جاتا، بغض و عداوت میں کوئی عار نہ ہوتی، بتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے، زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر کھایا جاتا، ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کو کم تر اور ذلیل سمجھتا، گھوڑ دوڑ پر بازی لگائی جاتی، سودی لین دین عام تھا، معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے صدیوں چلتے، گویا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔
ان حالات میں جب کہ ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی حضور اقدس ﷺ دنیا میں ''رحمتہ للعالمین ﷺ'' بن کر تشریف لاتے ہیں اور عبداﷲ کے گھر سے طلوع ہونے والے اس آفتاب و ماہتاب کی روشنی سے پوری دنیا فیض یاب ہونے لگی، آپ ﷺ کی تشریف آوری ایسی نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر ''احسانِ عظیم'' سے تعبیر فرمایا ہے۔
آپ ﷺ سراپا رشد و ہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے کامل نمونہ ہیں اور آپ ﷺ کے ''اسوہ حسنہ'' میں دنیا و آخرت کی فلاح و کام یابی کو مضمر کر دیا گیا ہے، آپ ﷺ ''ابر رحمت'' بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفر و شرک اور ضلالت و گم راہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت کی روشنی سے منور کیا، آپ ﷺ نے انسانیت سے گری ہوئی ایک ایسی قوم میں مثالی پاکیزہ اور باکردار روشن زندگی گزاری کہ جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کرتا بھی اپنے لیے توہین و عیب سمجھتا تھا۔
رحمتہ للعالمین ﷺ اعلانِ نبوت سے قبل ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے، لوگ آپ ﷺ کے پاس امانتیں رکھواتے اور معاملات کے فیصلے کرواتے، لیکن جب رحمتہ للعالمین ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اعلانِ نبوت کرتے ہوئے ان کو بتوں کی پرستش ترک کرکے ایک خدا کی عبادت کرنے، اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دینے کے بارے میں کہا تو یہی قوم جو آپؐ کی پاک دامنی اور صدق و امانت کی قسمیں کھانے والی تھی وہی آپؐ کے خلاف ہوگئی، پھر آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے جانے لگے، آپ ﷺ کو ہر طرح تنگ کرتے ہوئے ستایا جاتا، طائف کے میدانوں میں آپ ﷺ کو توحید کی دعوت دینے کی پاداش میں پتھر مار کر لہولہان کر دیا جاتا ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ رحمتہ للعالمین ﷺ سے سوال کیا: کیا آپ ﷺ پر احد سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ مجھے اذیت و تکلیف (کافروں) سے طائف کی گھاٹی میں پہنچی جس دن میں نے عبدیالیل کے بیٹے پر (دعوت و تبلیغ کے لیے) اپنے آپ کو پیش کیا۔
دعوت توحید دینے کی پاداش میں آپؐ پر گندگی پھینکی جاتی اور آپ ﷺ کو مجنون دیوانہ اور جادوگر تک کہا گیا (نعوذباﷲ)۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے، شعب ابی طالب میں آپ ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کو تین سال تک قید و محصور کر دیا جاتا ہے آپ ﷺ کے ساتھ اس قید میں ام المومنین حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سمیت عورتیں بچے اور بوڑھے تک تھے، آپ ﷺ کا مکمل مقاطعہ اور سوشل بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے، کھانے پینے کی کوئی چیز بھی آپؐ تک اور آپؐ کے ساتھیوں تک نہ پہنچنے دی جاتی تھی تاکہ یہ بھوک و پیاس سے تنگ آ کر حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔
دودھ پیتے بچے بھوک سے روتے بلکتے تو کفار خوش ہوتے، ان مشکل ترین حالات میں بھی آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ نے جاں نثاری و فدا کاری کی اعلیٰ اور بے نظیر مثال قائم کرتے ہوئے درختوں کے پتے چپا کر اور خشک چمڑے کو پانی میں بھگو کر نگل لیتے لیکن حضور ﷺ کا ساتھ اور ایمان کو نہیں چھوڑا۔ آپ ﷺ کو احد کے میدان میں زخمی کیا گیا، دندان مبارک شہید کیے گئے، آپ ﷺ پر ایمان لانے کی پاداش میں حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ اور یاسرؓ و عمارؓ سمیت دیگر صحابہ کرامؓ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کفار ان کو گرم ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتے، لیکن اس سب کے باوجود رحمتہ للعالمین ﷺ نے کبھی ان ظالموں کے لیے بد دعا نہیں کی بل کہ ہدایت کے لیے ہی دعا کی۔
ان حالات میں بھی محسن انسانیت ﷺ اپنے مشن کو زندہ اور جاری رکھتے ہیں، مکہ کے لوگوں نے جب ظلم و تشدد کی انتہاء کر دی تو آپ ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں، مدینہ میں انصار نے حضور ﷺ اور ہجرت کر کے آنے والے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اخوت و محبت کا وہ بے مثال مظاہرہ کیا کہ تاریخ انسانی اس کی نظیر و مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔
اور پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب رحمتہ للعالمین ﷺ اپنے دس ہزار جاں نثار صحابہ کرامؓ کے لشکر کے ہم راہ اسی مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جہاں سے آپ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو دس سال قبل ظلم و تشدد کر کے نکالا جاتا ہے، حضور ﷺ کے سر مبارک کی قیمت سو سرخ اونٹ مقرر کی گئی تھی... لیکن یہ کیسا فاتح ہے... اور کیسا انقلاب ہے... نہ تو قتل عام کیا جا رہا ہے اور نہ ہی فتح کا جشن منایا جا رہا ہے آج انتقام... فتح کا نشہ ... اور تکبر و غرور نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ... رحمتہ للعالمین ﷺ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے ہوئے عاجزی و انکساری کے ساتھ سواری پر اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ کا چہرہ انور سواری کی پشت کے ساتھ ملا ہُوا نظر آتا ہے...
مکہ سے نکالنے والے خوف زدہ ہیں کہ حضور ﷺ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں... اور انتقام کا کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں... ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے... وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کے خون کے پیاسے تھے... وہ بھی تھے جنہوں نے پتھر مار مار کر آپ ﷺ کے جسم اطہر کو لہولہان کیا تھا... وہ بھی تھے کہ جنھوں نے آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ پر ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے تپتی ریت پر لٹا کر ان کے سینوں پر وزنی پتھر رکھے تھے ان صحابہ کرامؓ کو دھکتے ہوئے کوئلوں پر لٹایا گیا اور ان کے جسموں کو گرم سلاخوں کے ساتھ داغا گیا...
آج یہ سب بارگاہ رسالت ﷺ میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں، رحمتہ للعالمین ﷺ نے ان سب پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا: ''جانتے ہو آج میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟'' بے بسی اور ندامت کے عالم میں ہر طرف سے ایک ہی رحم طلب صدا گونجی: ''آپ ﷺ عالی ظرف اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔'' رحمتہ للعالمین ﷺ نے سب کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ''آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے جاؤ تم سب آزاد ہو۔''
پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ہر کسی کو امان مل رہی ہے، جو بھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں آیا اس نے اپنے آپ کو مامون پایا، پھر رحمتہ للعالمین ﷺ کی بارگاہ میں بڑے بڑے دشمنِ اسلام اپنے کفر سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اپنے آپ کو نورِ ایمان سے منور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں... جو فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ کے انتقام کے خوف سے بھاگ رہے تھے وہ بھی آپ ﷺ کی شانِ رحیمی و کریمی اور معافی کے معاملے کو دیکھ اور سن کر اسلام کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں۔ اور پھر رحمتہ للعالمین ﷺ بیت اﷲ میں داخل ہو کر تین سو ساٹھ بتوں کو توڑتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کا کلمہ بلند کر کے حق کے آ جانے اور باطل کے مٹ جانے کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں... چشم فلک نے پھر یہ منظر بھی دیکھا کہ جب مکہ کی گلیوں میں ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والے سیدنا حضرت بلالؓ حضور ﷺ کے حکم سے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کے اذان دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت و کبریائی اور حضور ﷺ کی رسالت کا اعلان کرتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور حضور ﷺ کی سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین