میں رانجھا تخت ہزارے کا
شروع سے ہی ہمارے ملک میں رانجھوں کی بھرمار رہی ہے۔
شروع سے ہی ہمارے ملک میں رانجھوں کی بھرمار رہی ہے۔ یہ رانجھے عوام کے عشق کا روگ لگائے آتے اور عوام سے کہتے ''تم میری ہیر ہو، اور میں تمہارے لیے مر جاؤں گا، اپنا سب کچھ تم پر لٹا دوں گا، تمہاری خاطر دن کا چین اور راتوں کی نیند خود پر حرام کرلوں گا، میں عوام کے مسائل حل کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا۔'' یہ مکروفریب کے ماہر جھوٹے رانجھے باری باری آتے رہے اور عوام کو لوٹتے رہے اور جاتے رہے۔
جھوٹے رانجھوں کا یہ سلسلہ اب بھی نہیں رکا اور دو تین جھوٹے رانجھے آج بھی عوام کا رہا سہا خون نچوڑنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اصلی رانجھے نے تو ہیر کی خاطر ''سوانگ'' بھرا تھا اور اس نے جوگی کا روپ دھارا تھا۔ روپ بھی ایسا کہ ہیر بھی رانجھے کو پہچان نہ سکی تھی۔ آج کے رانجھے بھی ہر بار نیا ''سوانگ'' رچا کر آتے ہیں اور عوام انھیں پہچان نہیں پاتے۔ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں اور ظلم کی چکی میں مزید پستے رہتے ہیں۔ یہاں ایک دو اصلی رانجھے بھی آئے، مگر ''کیدو'' نے کھیڑوں کے ساتھ مل کر انھیں مروا دیا۔
آج میں اصلی تے سچے رانجھے کا ذکر چھیڑوں گا، جس نے ہیر کے ساتھ سچا پیار کیا اور یوں کیا کہ ہیر رانجھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ ہیر رانجھے کے عشق کے واقعے کو ''دمودر'' نامی ہیر کے ہم وطن نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ دمودر ہیر کا ہم زبان بھی تھا۔ سب سے پہلے ہیر رانجھے کا واقعہ اسی دمودر نے نظم بند کیا تھا۔ بقول احمد سلیم ''ہیر کے ہم وطن اور ہم عصر ہونے کے ناتے اس کے بیان کردہ قصے کو اور طرز بیان کو دوسرے قصہ گو شاعروں کے مقابلے میں اہمیت حاصل ہے مگر پھر بھی ہیر کو وارث شاہ کی ہیر ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ وارث شاہ کی ہیر محض قصہ نہیں ہے بلکہ اٹھارویں صدی کے پنجاب کا سماجی انسائیکلوپیڈیا بھی ہے۔''
صابر ظفر ہمارے عہد کے ایک منفرد شاعر ہیں، ہمیشہ بھاری پتھر کو ہاتھ ڈالتے ہیں۔ انھوں نے اپنے اردگرد موجود سماجی، معاشی، ثقافتی رنگوں میں رچے بسے کرداروں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ''میں رانجھا تخت ہزارے کا'' بھی ایک بہت بھاری پتھر عرصہ دراز سے پڑا ہوا تھا۔ صابر ظفر کی نظر پڑی تو جا ''جپھا'' مارا اور وارث شاہ کے پنجابی زبان میں لکھے شاہکار کو اردو میں ڈھال دیا۔ بحر بھی عین وارث شاہ والی اور روح بھی وارث شاہ والی۔ صابر ظفر نے کتاب کے شروع ہی میں وارث شاہ کی شکل بحر کے ارکان بھی درج کردیے ہیں۔
احمد سلیم نے کتاب کے دیباچے میں بہت دلچسپ اور اہم بات لکھی ہے ''سر عبدالقادر نے ہیر وارث شاہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر وارث نے ہیر کی کہانی اردو میں لکھی ہوتی تو اس سے بھی زیادہ مقبول ہوتی۔ اس بیان پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہوئے میں کہنا چاہوں گا کہ غالباً صابر ظفر نے اردو کے اس عاشق کی بات سن لی ہوگی۔ اردو ادب میں اس سے پہلے کوئی غزل نما قصہ اور قصہ نما غزل نہیں لکھی گئی، جس کا پنجابی لب و لہجہ ''اسے زمین کی سچائیوں سے اور بھی قریب کر رہا ہے۔''
ہیر رانجھے کے پیار کی داستان کا اردو بیان ایک بالکل نیا اور اچھوتا تجربہ ہے۔ صابر ظفر اپنے تجربے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ صابر ظفر کو سیکڑوں اشعار کی ایک ہی قافیہ ردیف میں غزلیں لکھنے کا ملکہ حاصل ہے۔ ''میں رانجھا تخت ہزارے کا'' بھی چار سو سے اوپر اشعار پر مشتمل ایک ہی قافیہ ردیف والی غزل ہے۔ ہیر رانجھا کی داستان تو زمانہ جانتا ہے، اب اردو زبان میں پڑھ کر اور بھی جان جائیں گے۔ ہیر رانجھا کے اصل خالق وارث شاہ کے نام اور کام سے پورا پنجاب واقف ہے۔
شعر و ادب کی دنیا میں بھی وارث شاہ کا نام ہے۔ لاہور کے ساتھ جڑے شہر شیخوپورہ کے گاؤں میں ان کا مزار ہے۔ ہیر اور رانجھا جھنگ شہر میں مدفون ہیں۔ دریائے چناب کے کنارے عشق کی اس داستان نے جنم لیا۔ دریا کنارے جنگل بیلے، کھیت، کھلیان، کچے پکے راستے، پگڈنڈیاں، کنوئیں، رہٹ، ڈھورڈنگر، شیر جوان، الہڑ مٹیاریں، بیلے میں سکھی سہیلیوں کے قہقہے، پرندوں کی معصوم آوازیں اور کھیتوں، سبزہ زاروں، درختوں میں گونجتی رانجھے کی بانسری اور ہیر کا بانسری کے سحر میں گم دیوانہ وار تعاقب۔
صابر ظفر نے پنجاب کے کلچر میں رچے بسے اس قصے کو اردو میں ڈھالتے ہوئے علاقائی تہذیب کے بہاؤ کے ساتھ بہنے کو ترجیح دی ہے اور صابر ظفر کو ایسا ہی کرنا تھا، ورنہ سارا معاملہ گڑبڑ ہوجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری کتاب میں جا بجا پنجابی زبان کی تراکیب کا استعمال، داستان کے حسن کو برقرار رکھتا ہے۔ اس مختصر تحریر میں کتاب پر جامع تبصرہ ممکن نہیں ورنہ کتاب میں جس طرح پنجاب کے تہذیبی رنگ برقرار رکھے گئے ہیں، شاعر کا یہ بڑا کمال ہے۔
صابر ظفر وکھرا ٹائپ بندہ ہے۔ ذرا غور فرمائیں کتاب لکھنے کے دوران شاعر نے جھنگ شہر جاکر ہیر کے روضے پر حاضری دی، ہیر رانجھے کے ساتھ مکالمہ کیا، مال متاع جمع کیا، گٹھڑی باندھی اور چلتے چلتے مزار کے سامنے کھڑے ہوکر تصویر بھی بنوائی۔ کتاب کے ٹائٹل پر یہی رنگین تصویر موجود ہے۔
صابر ظفر کا یہ 34 واں مجموعہ کلام ہے۔ صابر ظفر بہت لکھتا ہے، سنا ہے میر صاحب بھی بہت زیادہ لکھا چھوڑ کر گئے ہیں۔ مگر میر، میر صاحب ہیں، ادب و شاعری کے میر، خود غالب نے جن کو تسلیم کیا۔
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
مرزا اسد اﷲ غالب نے بہت کم لکھا اور مجموعہ چھپواتے وقت اپنا بہت سا لکھا منسوخ کردیا، مگر مختصر کلام کے باوجود غالب سب پر غالب ہے۔ تو اصل بات معیار ہے، زیادہ یا کم لکھنا نہیں۔ صابر ظفر نے بھی جو لکھا ہے لکھنے کا جواز موجود ہے۔ اس کے موضوعاتی مجموعے ثبوت ہیں۔ اب شاعر کا مقام کیا بنتا ہے۔ یہ فیصلہ بھی ہوجائے گا۔ مگر میں صابر ظفر کے بارے میں اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ شاعر اپنے اردگرد سے باخبر شاعری کر رہا ہے، جس دور ابتلا سے ہمارا ملک اور عوام گزر رہے ہیں، صابر ظفر کے ہاں یہ رنج و الم بھی موجود نہیں اور شاعر اچھے زمانوں کے آنے پر یقین بھی رکھتا ہے۔
''رانجھا تخت ہزارے کا'' اس کتاب کے بارے میں آخری صفحے پر شاعر نے یوں تبصرہ کیا ہے ''سادہ طور سے داستان میں نے لکھی/بات رمز والی کہاں میں نے لکھی/ پڑھ کے دیکھیے کب ہے ابہام اس میں/ گرہیں کھول دیں جو بھی تھیں اس کے اندر/ جو میں جزئیات اس کی دن رات لکھتا/ لکھتا عمر بھر جو میں ہر بات لکھتا/ اور کھوجتا جو اسے تو تھا ممکن/ پاتا کائناتیں کئی ذرے اندر/ چاہوں میں کوئی بعد میں اور لکھے/ اور وہ کسی اور ہی طور لکھے/ تاکہ رہ سکے عشق کا فیض جاری/ تاکہ رہ سکے درد دل بندے اندر/ تو نے وارثا لکھ دیا اصل قصہ/ اس میں ہے ظفر کا مگر اتنا حصہ/ اردو جاننے والے بھی تو دیکھیں/ کتنا وزن ہے عشق کے پلڑے اندر۔