گرانی کا گراں پہاڑ
دنیا کے دیگر ممالک میں مذہبی تہواروں پر عوام الناس کو حکومتیں اور تجارتی حلقے فائدہ پہنچانے
دنیا کے دیگر ممالک میں مذہبی تہواروں پر عوام الناس کو حکومتیں اور تجارتی حلقے فائدہ پہنچانے کے لیے اشیا کے نرخوں میں رعایتوں کی سہولیات فراہم کرتے ہیں، حکومتیں عوام کو بہت سے ریلیف مہیا کرتی ہیں۔ یہ طریقہ تمام اقوام عالم اور عالم اسلام میں بھی رائج ہے، اس میں ہمدردی کے علاوہ معاشیات کے فارمولے ''کم منافع زیادہ فروخت'' کا دخل بھی ہوسکتا ہے لیکن ہمارے ''زیادہ منافع کم فروخت'' کے فارمولے کے تحت منافع خور اور ذخیرہ اندوز Perfect Competition کے میکنزم کو ناکام بنانے کے لیے منظم طور پر بلیک مارکیٹنگ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور غیر معیاری اشیا کی فروخت کی انتہا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے غریب تو دور کی بات ہے اشیائے خورونوش متوسط طبقے کی دسترس سے بھی باہر ہوجاتی ہیں۔
حکومتی اداروں کے پاس اس لوٹ مار اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا نہ کوئی سلسلہ یا مربوط پالیسی ہوتی ہے نہ ان پر قابو پانے کا عزم و حوصلہ، بلکہ محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ حکومتی ادارے اور شخصیات خود بھی اس عمل میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی جمع تفریق محض زبانی دعوؤں، یقین دہانیوں، نمایشی و واجبی قسم کے اقدامات تک محدود رہتی ہیں۔ ایک طرف سستے بازار اور یوٹیلیٹی اسٹورز عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں تو دوسری جانب اربوں روپوں کی سبسڈی کے نام پر قومی خزانے پر ڈاکا مارا جاتا ہے، جس سے مخصوص عناصر تجوریاں بھرتے یا کچھ صاحب حیثیت لوگ اس سبسڈی سے فیض یاب ہوتے ہیں مگر عام لوگوں تک اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور سبسڈی کے نام پر دی جانے والی اربوں کی رقم بالواسطہ طور پر ان کی جیبوں سے نکال لی جاتی ہے۔
ان اسٹورز پر رعایتی اشیا عام طور پر ناپید ہوتی ہیں، کچھ وقت کے لیے میسر آتی ہیں تو صارفین کو گداگروں کی طرح لائنیں لگا کر فروخت کی جاتی ہیں، ان اشیا کے ساتھ مخصوص اشیا کی خریداری لازمی قرار دی جاتی ہے، ان یوٹیلیٹی اسٹور پر اشیا ترتیب سے نہیں رکھی جاتیں، قیمتیں بھی چسپاں نہیں ہوتیں یا بے ترتیب تحریر ہوتی ہیں۔
کمپنیاں اپنا ناقص مال ان اسٹوروں کی ملی بھگت سے فروخت کردیتی ہیں، یہاں پرانی قیمتوں کی اشیا ہاتھوں سے قیمتیں تبدیل کرکے مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں، اگر کوئی اعتراض کرے تو نئے نرخ نامے کی لسٹ سامنے رکھ دی جاتی ہے، عام طور پر ان یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیائے خورونوش میں دی جانے والی رعایت سے زیادہ رعایت دیگر پرائیویٹ اسٹور میں دے دی جاتی ہے، ان میں فروخت کی جانے والی اشیائے صرف کے وزن اور معیار میں بھی ہیراپھیری عام ہے جس کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں بلوچستان کے ایک یوٹیلٹی اسٹور پر کمشنر کا چھاپہ تاریخ کی پہلی مثال ہے۔
ہر دور میں حکومتیں عوام کو سستی اشیائے صرف کی فراہمی یقینی بنانے کی یقین دہانیاں، دعوے اور کوششیں کرتی ہیں۔ گرانی، منافع خوری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات اور کارروائیوں کا آغاز کرتی ہیں، بازاروں میں چھاپے مارے جاتے اور جرمانوں اور قید کی سزائیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں لیکن حکومتیں ان کا سدباب کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہیں۔ مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنروں کے چھاپے کے دوران دکاندار نرخ نامے آویزاں کردیتے ہیں، مگر قیمتیں ان کے مطابق وصول نہیں کرتے۔
عوامی شکایت ہے مجسٹریٹ دکانداروں سے پوچھتے ہیں کہ نرخ نامے آویزاں کیوں نہیں ہیں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ نیچے گر گیا تھا یا پلٹ گیا ہے، صاحب ان سے حلف لیتا ہے کہ کلمہ پڑھ کر اقرار کرو کہ میں نرخ نامے کے مطابق قیمت وصول کر رہا تھا اگر جھوٹ بولوں تو مجھ پر اﷲ کا قہر اور عذاب نازل ہو۔ صاحب کے روانہ ہوتے ہی دکاندار نرخ نامہ لپیٹ کر من مانے نرخوں پر اشیا کے فروخت کا سلسلہ شروع کردیتا ہے۔ انگشت بہ دنداں صارفین آن واحد میں یہ تمام کارروائی دیکھتے ہوئے دکاندار سے من مانے نرخوں پر خریداری پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔
حالانکہ دکانداروں سے موثر بہ ماضی حلف لینے کے بجائے اگر آیندہ کے لیے بھی حلف لیا جاتا کہ وہ اشیا کی قیمتیں نرخ نامے کے مطابق وصول کرے گا تو شاید امید کی جاسکتی تھی کہ کچھ دکاندار اس حلف کا خوف خدا کے تحت پاس کرلیتے۔ تبلیغ کا کام تو بہت سی تبلیغی جماعتیں بھی بازاروں میں کرتی ہیں، مساجد میں بھی اس پر واعظ ہوتے رہتے ہیں، انتظامیہ کا کام تو ایسے منافع خوروں کو قانون کے شکنجے میں لینا اور اس پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے نہ کہ وعظ کرنا اور جھوٹے حلف اٹھواکر ان کے دلوں سے رہا سہا خوف خدا بھی ختم کردینا۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ وہ پھلوں کی خریداری کر رہا تھا کہ بازار میں چھاپہ مار ٹیم آ پہنچی، اسے دیکھ کر خوف کے مارے پھل فروش ٹھیلا چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا، ٹیم نے ٹھیلہ خالی دیکھا تو اس کے تربوز مفت تقسیم کرنا شروع کردیے۔
اسی طرح پچھلے سال یہ شکایتیں آئی تھیں کہ دودھ فروشوں کے دکان سے فرار ہونے کے ردعمل میں چھاپہ مار ٹیمیں ان کے گلوں سے جن میں ہزاروں روپے موجود ہوتے ہیں نکال کر اپنے ساتھ لے گئیں، بعض نے پیسہ گن کر ایک پرچی پر لکھ کر دکان پر موجود گاہکوں کے حوالے کرکے حکم دے دیا کہ دکاندار واپس آئے تو اس سے کہنا کہ آکر ہم سے رابطہ کرلے۔ قانون کا اطلاق کرنے والوں کے اس رویے کو قانون کی حکمرانی سے تعبیر کیا جائے یا قانون کی بے وقعتی سے؟
آج کل کمشنر کراچی نے ضلعی انتظامیہ کے ذریعے شہر میں منافع خوری، ملاوٹ اور گرانی کے خلاف آپریشن شروع کیا ہوا ہے جس کے تحت 223 دکانداروں کے چالان کرکے 2 لاکھ 99 ہزار جرمانہ وصول کیا گیا ہے، 15 گراں فروشوں کو جیل بھجوایا گیا ہے، سبزی اور پھل منڈیوں میں رات کی نیلامی کے اوقات میں انتظامی افسران کی ڈیوٹیاں لگا دی گئی ہیں۔ کمشنر کراچی کا کہنا ہے کہ منافع خوروں کو عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کارروائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ضمیر فروش اپنی روش ترک نہ کردیں۔
رمضان کے دوسرے ہفتے میں پھلوں اور سبزیوں کی مقدار میں اضافہ اور قیمتوں میں 10 سے 15 فیصد کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ کمشنر صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، رسد کی فراوانی کی وجہ سے ہے، یا عوام کے خریداری کے رجحان میں کمی کی وجہ سے اس کا اندازہ آیندہ کچھ دنوں میں ہوجائے گا۔ حکومت کی جانب سے دودھ کی سرکاری قیمت فروخت 70 روپے ہے جب کہ یہ کھلے عام 84 روپے فی کلو لیٹر فروخت ہو رہا ہے۔ گائے کا گوشت 280 روپے کے بجائے 380، بکرے کا گوشت 550 روپے کے بجائے 700 روپے تک فروخت ہو رہا ہے، شہر میں 80 فیصد گوشت پانی بھرا، بیمار، لاغر اور بوڑھے جانوروں یا کٹے کا فروخت کیا جا رہا ہے، دودھ میں میلامائین پاؤڈر کی آمیزش کی شکایات عام ہیں جو مختلف مہلک بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں۔
کمشنر کراچی نے نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک کرپشن زدہ ماحول اور ضمیر فروشوں کی موجودگی میں منافع خوری اور مہنگائی کے خلاف جس جانفشانی سے آپریشن شروع کیا ہے وہ قابل تحسین ہے، انھیں خاص طور پر دودھ اور گوشت فروشوں کے علاوہ شہر بھر میں جگہ جگہ قائم غیر قانونی چارجڈ پارکنگ کے خلاف بھی بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آج کل تمام عوام اور تاجروں کی نگاہیں اور توجہ بوجہ رمضان سے متعلق ٹی وی پروگراموں پر مرکوز ہیں۔
ان پروگراموں میں اسلامی تعلیمات بتائی جائیں کہ اسلام میں منافع کا تناسب کیا ہے اور اشیا کے معیار کا طریقہ کار کیا ہے، اشیا کے عیب یا نقص کو ظاہر کرنے کا حکم اور فروخت شدہ مال واپس لینے کا کیا اجر ہے، ماتحت کی اجرت اور ضروریات سے متعلق کیا احکامات ہیں، زکوٰۃ، خیرات، فطرہ کا فلسفہ کیا ہے، لیڈر شپ کے کیا فرائض و ذمے داریاں ہیں۔ غزوہ بدر میں جب ایک صحابی اپنے پیٹ پر بھوک سے بندھا ایک پتھر دکھاتا ہے تو دنیا سرور کائنات کے پیٹ پر بندھے دو پتھر دیکھتی ہے۔
حضرت عمرؓ اونٹ سے اتر کر اپنے غلام کو اس پر سوار کراکے اور خود اونٹ کی رسی تھامے پیدل چلتے ہیں تو دنیا کے سامنے آقا و غلام کے انسانی حقوق کی سنہری مثال سامنے آتی ہے۔ حضرت عمرؓ راتوں کو بھیس بدل کر رعایا کی تکالیف اور پریشانیوں کا بذات خود مشاہدہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر اس کا جواب دہ ہوگا۔ یہ کوئی دیومالائی کہانیاں، پتھروں کے دور کی باتیں نہیں، اس مملکت کی زندہ جاگتی حقیقتیں ہیں جس کا رقبہ پاکستان سے بھی کئی گنا زیادہ تھا مگر مجال ہے کہ کوئی حکومتی اعمال اپنے دائرہ اختیار و حدود سے تجاوز کرجاتا۔