زبیدہ آپا اور مصباح الحق
زبیدہ آپا اور مصباح الحق، ایک خاتون اور ایک مرد، ایک پکوان کی دنیا کا بڑا نام تو دوسرا کرکٹ کا ستارہ،
زبیدہ آپا اور مصباح الحق، ایک خاتون اور ایک مرد، ایک پکوان کی دنیا کا بڑا نام تو دوسرا کرکٹ کا ستارہ، ان دونوں میں کون سی چیز مشترک ہے؟ حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والی زبیدہ آپا، تو میانوالی میں جنم لینے والا مصباح الحق، کراچی میں پلنے بڑھنے والی آپا تو لاہور میں پڑھنے اور کھیلنے والا نیازی، کچھ ہونہ ہو لیکن دونوں میں ایک مشترک بات ضرور ہے جس نے دونوں کو ایک کالم میں اکٹھا کردیا ہے۔
نعیم بخاری اور سعید اجمل میں بھی کچھ ملتی جلتی خصوصیات ہیں۔ بالکل ہیں اور ہم ان کا مختصراً تذکرہ کردیںگے جب کہ ہمارے آج کے ہیرو اور ہیروئن مصباح الحق اور زبیدہ آپا ہیں، دونوں کی زندگی میں کچھ بات ایسی ہے جو ہر کسی کو متاثر کرسکتی ہے، نوجوانوں کے لیے تو دونوں کی زندگی مشعل راہ بن سکتی ہے۔
زبیدہ طارق 45ء میں پیدا ہوئیں۔ یہ وہ دور تھا جب جنگ عظیم اور تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد زبیدہ آپا نے خاندان کے ہمراہ کراچی کا رخ کیا، ابھی وہ اکیس سال کی تھیں کہ ان کی شادی ہوگئی۔ فاطمہ ثریا بجیا، انور مقصود، احمد مقصود حمیدی اور زہرہ نگاہ ان کے بھائی بہن ہیں۔ بجیا کے پی ٹی وی کے ڈراموں شمع، افشاں اور عروسہ کی پورے ملک میں دھوم تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی دور میں انور مقصود کے طنزیہ اور کاٹ دار ڈرامے ناظرین میں پسند کیے جانے لگے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ یوں ہوسکتا ہے کہ انھوں نے کئی اشتہارات میں کام کیا۔ جب زبیدہ آپا کے بھائی بہنوں کا تعارف ہورہا ہے تو بتاتے چلیں کہ احمد مقصود حمیدی اعلیٰ سرکاری افسر تھے۔
حمیدی شہرت کی دنیا سے دور تھے لیکن اعلیٰ بیوروکریسی جانتی تھی کہ ان کا کون سا گریڈ ہے۔ زہرہ نگاہ بڑی بہن ہیں ہمارے آج کے کالم کے ٹائٹل کردار کی۔ شاندار نظموں اور عمدہ غزلوں کی خالق زہرہ شاعری کا ایک بڑا نام ہیں۔ 96 کا سال زبیدہ آپا کی زندگی میں اہم تھا، یہ وہ دور تھا جب ان کی عمر نصف سنچری مکمل کرچکی تھی۔ اس برس ان کے شوہر ایک کمپنی سے ریٹائرڈ ہوئے تو ادارے نے زبیدہ کو طارق کی کرسی عطا کردی۔ چار مشہور کامیاب بھائی بہنوں کے درمیان گمنام زندگی گزارنے والی زہرہ آپا کا کیریئر پچاس سال کی عمر میں شروع ہوا۔
دو باتیں بڑی اہم ہیں جن پر گفتگو کیے بغیر ہم اپنے قارئین کے لیے آپا کی زندگی سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے۔ پچاس سال کی عمر اور بھائی بہنوں کا عروج، یہ دو باتیں سمجھ کر نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ اپنے اندر توانائی محسوس کریںگے۔ ''عزم نو'' کے نام سے کالم کے عنوان کو امید کے دیے جلانے ہی چاہئیں۔ زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکنے والے سوچنا شروع کرتے ہیں کہ اگلے چار چھ برسوں بعد وہ ریٹائرمنٹ کی تفصیلی پلاننگ کریں گے۔
وہ سوچتے ہیں کہ انھیں جو کچھ کرنا تھا انھوں نے کرلیا۔ کامیابی کے غرور اور ناکامی کے بوجھ کو لیے بغیر زندگی آرام سے گزارنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ وہ زبیدہ آپا کی رفتار حیات کو اس عمر میں اونچی اڑان بھرنے کے لیے تیار کررہی تھی۔ یوں نئی صدی کی ابتدا میں زبیدہ آپا نے عزت و شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔ کوکنگ جیسے بظاہر خشک شعبے میں آکر انھوں نے اپنے بھائی بہنوں کی شہرت کو گہنا دیا۔ یہ پہلی بات ہے، دوسری بات یہ ہے کہ آس پاس مشہور و معروف رشتے دار ہوں تو گمنام شخص کو کیسا لگتا ہے؟
نعیم بخاری کہتے ہیں کہ ان کی شادی کی خبر اخبار میں یوں شائع ہوئی ''مشہور گلوکارہ ملکہ پکھراج کی بیٹی طاہرہ سید کی شادی نعیم بخاری سے ہوئی'' طاہرہ خود بھی معروف مغنیہ ہیں۔ دلہا کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بالر سلیم الطاف کے چھوٹے بھائی اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر کے شاگرد ہیں۔ نعیم کہتے ہیں کہ ان کا اپنا کوئی ذکر نہ تھا۔ صرف ان کی ساس، بیگم، بھائی اور استاد کی شہرت کی کہانی تھی۔ پھر نعیم نے پی ٹی وی کے کئی پروگرام کیے اور اپنی دنیا آپ پیدا کی۔ زبیدہ آپا نے ڈرامے، مزاح و شاعری جیسے شعبوں میں مشہور و معروف بھائی بہنوں سے کہیں زیادہ شہرت اس عمر میں پائی جب لوگ ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچتے ہیں۔
مصباح الحق کی زندگی کے کون کون سے روشن پہلو ہیں؟ آیئے پہلے سعید اجمل کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر ہم ہمارے آج کے کالم کے ہیرو مصباح الحق کی جانب آئیںگے۔ سعید اجمل نے فیصل آباد میں جنم لیا، وہ جدوجہد کررہے تھے یعنی صرف کرکٹ کھیل رہے تھے اور کچھ نہیں کررہے تھے، ان کے خاندان نے انھیں وارننگ دی کہ آگے نہیں بڑھ رہے تو کرکٹ چھوڑ کر کاروبار کی دنیا میں آجائو۔ غریب اور گمنام سعید نے کچھ مہلت مانگی اور اس کے بعد قسمت کی دیوی مہربان ہوئی۔
دنیا کا نمبر ون بالر اور کائونٹی کرکٹ میں بے شمار کامیابیاں۔ وہ سعادت کہ سعید نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، یہی صورت حال ایک فٹ بالر کے ساتھ پیش آئی۔ وہ بھی کامیابی سے کوسوں دور تھا۔ کچھ ہو نہیں رہا تھا تو اس کی حاملہ بیوی نے کہا کہ فٹ بال چھوڑو اور ہم دونوں نوکری کرتے ہیں، جدوجہد کرنے اور وقت کے اس لمحے میں مایوس نہ ہونے والے کھلاڑی نے مہلت مانگی۔ اس پر بھی قسمت کی دیوی مہربان ہوگئی۔ دنیا کے دس بڑے فٹ بالرز کی دولت ڈیڑھ کھرب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ہمارے کالم کا سائیڈ ہیرو ٹاپ ٹین میں نہ ہو تب بھی قدرت نے اسے جد وجہد کا ثمر دیا۔ ان سب سے منفرد کہانی ہمارے بلے باز کپتان کی ہے۔ آیئے دیکھیں کہ ''مایوسی کفر ہے'' والی بات کو اس نے کس طرح سچ کر دکھایا۔
ٹی 20 کے لیے مصباح کو منتخب کیے جانے پر بڑا شور مچا۔ یہ 2007 کی بات ہے۔ محمد یوسف کو ڈراپ کرکے مصباح الحق کو ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ سوال تھا کہ جب دونوں کھلاڑی ہم عمر ہیں تو مشہور و تجربے کار کو چھوڑ کر نو آموز کو کیوں؟ 74 میں پیدا ہونے والے مصباح نے اپنا مقام کس طرح بنایا؟ ستائیس برس کی عمر میں ٹیسٹ اور اگلے برس میں ون ڈے کھیلنے والے کے کریڈٹ پر چھ برسوں میں گنتی کے چند میچز تھے۔ عمر کی 33 بہاریں دیکھ لینے والے بلے باز کو مایوس ہوجانا چاہیے تھا۔ ایم بی اے کیا تھا تو کوئی نوکری ڈھونڈنی چاہیے تھی۔ مایوس نہ ہونے والے مصباح الحق کے کھیل کو دیکھ کر شور مچانے والے خاموش ہوگئے۔
نائب کپتان اور گریڈ اے لینے والے کی فٹنس کا یہ عالم ہے کہ وہ عمر سے دس برس کم نظر آتے ہیں۔ پھر کپتانی اور کامیابیوں کا سفر مایوس نہ ہونا اور قدرت پر بھروسہ رکھنا ہمارے آج کے ہیرو اور ہیروئن کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔ تمام انسانوں بالخصوص نوجوانوں کے لیے ان کرداروں میں بڑا سبق ہے کہ ان کے پاس عمر کی نقدی زیادہ ہوتی ہے۔ قسمت کی دیوی کبھی جلد اور کبھی دیر سے مہربان ہوتی ہے۔ وہ دستک دینے میں کبھی دیر کردیتی ہے۔ ہمارے قارئین یاد رکھیںگے کہ کیا ہے جدوجہد پکوان کی دنیا کی ملکہ اور کرکٹ کے شہزادے کی؟ کب ملی خوش بختی اور اقبال مندی زبیدہ آپا اور مصباح الحق کو؟
نعیم بخاری اور سعید اجمل میں بھی کچھ ملتی جلتی خصوصیات ہیں۔ بالکل ہیں اور ہم ان کا مختصراً تذکرہ کردیںگے جب کہ ہمارے آج کے ہیرو اور ہیروئن مصباح الحق اور زبیدہ آپا ہیں، دونوں کی زندگی میں کچھ بات ایسی ہے جو ہر کسی کو متاثر کرسکتی ہے، نوجوانوں کے لیے تو دونوں کی زندگی مشعل راہ بن سکتی ہے۔
زبیدہ طارق 45ء میں پیدا ہوئیں۔ یہ وہ دور تھا جب جنگ عظیم اور تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد زبیدہ آپا نے خاندان کے ہمراہ کراچی کا رخ کیا، ابھی وہ اکیس سال کی تھیں کہ ان کی شادی ہوگئی۔ فاطمہ ثریا بجیا، انور مقصود، احمد مقصود حمیدی اور زہرہ نگاہ ان کے بھائی بہن ہیں۔ بجیا کے پی ٹی وی کے ڈراموں شمع، افشاں اور عروسہ کی پورے ملک میں دھوم تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی دور میں انور مقصود کے طنزیہ اور کاٹ دار ڈرامے ناظرین میں پسند کیے جانے لگے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ یوں ہوسکتا ہے کہ انھوں نے کئی اشتہارات میں کام کیا۔ جب زبیدہ آپا کے بھائی بہنوں کا تعارف ہورہا ہے تو بتاتے چلیں کہ احمد مقصود حمیدی اعلیٰ سرکاری افسر تھے۔
حمیدی شہرت کی دنیا سے دور تھے لیکن اعلیٰ بیوروکریسی جانتی تھی کہ ان کا کون سا گریڈ ہے۔ زہرہ نگاہ بڑی بہن ہیں ہمارے آج کے کالم کے ٹائٹل کردار کی۔ شاندار نظموں اور عمدہ غزلوں کی خالق زہرہ شاعری کا ایک بڑا نام ہیں۔ 96 کا سال زبیدہ آپا کی زندگی میں اہم تھا، یہ وہ دور تھا جب ان کی عمر نصف سنچری مکمل کرچکی تھی۔ اس برس ان کے شوہر ایک کمپنی سے ریٹائرڈ ہوئے تو ادارے نے زبیدہ کو طارق کی کرسی عطا کردی۔ چار مشہور کامیاب بھائی بہنوں کے درمیان گمنام زندگی گزارنے والی زہرہ آپا کا کیریئر پچاس سال کی عمر میں شروع ہوا۔
دو باتیں بڑی اہم ہیں جن پر گفتگو کیے بغیر ہم اپنے قارئین کے لیے آپا کی زندگی سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے۔ پچاس سال کی عمر اور بھائی بہنوں کا عروج، یہ دو باتیں سمجھ کر نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ اپنے اندر توانائی محسوس کریںگے۔ ''عزم نو'' کے نام سے کالم کے عنوان کو امید کے دیے جلانے ہی چاہئیں۔ زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکنے والے سوچنا شروع کرتے ہیں کہ اگلے چار چھ برسوں بعد وہ ریٹائرمنٹ کی تفصیلی پلاننگ کریں گے۔
وہ سوچتے ہیں کہ انھیں جو کچھ کرنا تھا انھوں نے کرلیا۔ کامیابی کے غرور اور ناکامی کے بوجھ کو لیے بغیر زندگی آرام سے گزارنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ وہ زبیدہ آپا کی رفتار حیات کو اس عمر میں اونچی اڑان بھرنے کے لیے تیار کررہی تھی۔ یوں نئی صدی کی ابتدا میں زبیدہ آپا نے عزت و شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔ کوکنگ جیسے بظاہر خشک شعبے میں آکر انھوں نے اپنے بھائی بہنوں کی شہرت کو گہنا دیا۔ یہ پہلی بات ہے، دوسری بات یہ ہے کہ آس پاس مشہور و معروف رشتے دار ہوں تو گمنام شخص کو کیسا لگتا ہے؟
نعیم بخاری کہتے ہیں کہ ان کی شادی کی خبر اخبار میں یوں شائع ہوئی ''مشہور گلوکارہ ملکہ پکھراج کی بیٹی طاہرہ سید کی شادی نعیم بخاری سے ہوئی'' طاہرہ خود بھی معروف مغنیہ ہیں۔ دلہا کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بالر سلیم الطاف کے چھوٹے بھائی اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر کے شاگرد ہیں۔ نعیم کہتے ہیں کہ ان کا اپنا کوئی ذکر نہ تھا۔ صرف ان کی ساس، بیگم، بھائی اور استاد کی شہرت کی کہانی تھی۔ پھر نعیم نے پی ٹی وی کے کئی پروگرام کیے اور اپنی دنیا آپ پیدا کی۔ زبیدہ آپا نے ڈرامے، مزاح و شاعری جیسے شعبوں میں مشہور و معروف بھائی بہنوں سے کہیں زیادہ شہرت اس عمر میں پائی جب لوگ ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچتے ہیں۔
مصباح الحق کی زندگی کے کون کون سے روشن پہلو ہیں؟ آیئے پہلے سعید اجمل کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر ہم ہمارے آج کے کالم کے ہیرو مصباح الحق کی جانب آئیںگے۔ سعید اجمل نے فیصل آباد میں جنم لیا، وہ جدوجہد کررہے تھے یعنی صرف کرکٹ کھیل رہے تھے اور کچھ نہیں کررہے تھے، ان کے خاندان نے انھیں وارننگ دی کہ آگے نہیں بڑھ رہے تو کرکٹ چھوڑ کر کاروبار کی دنیا میں آجائو۔ غریب اور گمنام سعید نے کچھ مہلت مانگی اور اس کے بعد قسمت کی دیوی مہربان ہوئی۔
دنیا کا نمبر ون بالر اور کائونٹی کرکٹ میں بے شمار کامیابیاں۔ وہ سعادت کہ سعید نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، یہی صورت حال ایک فٹ بالر کے ساتھ پیش آئی۔ وہ بھی کامیابی سے کوسوں دور تھا۔ کچھ ہو نہیں رہا تھا تو اس کی حاملہ بیوی نے کہا کہ فٹ بال چھوڑو اور ہم دونوں نوکری کرتے ہیں، جدوجہد کرنے اور وقت کے اس لمحے میں مایوس نہ ہونے والے کھلاڑی نے مہلت مانگی۔ اس پر بھی قسمت کی دیوی مہربان ہوگئی۔ دنیا کے دس بڑے فٹ بالرز کی دولت ڈیڑھ کھرب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ہمارے کالم کا سائیڈ ہیرو ٹاپ ٹین میں نہ ہو تب بھی قدرت نے اسے جد وجہد کا ثمر دیا۔ ان سب سے منفرد کہانی ہمارے بلے باز کپتان کی ہے۔ آیئے دیکھیں کہ ''مایوسی کفر ہے'' والی بات کو اس نے کس طرح سچ کر دکھایا۔
ٹی 20 کے لیے مصباح کو منتخب کیے جانے پر بڑا شور مچا۔ یہ 2007 کی بات ہے۔ محمد یوسف کو ڈراپ کرکے مصباح الحق کو ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ سوال تھا کہ جب دونوں کھلاڑی ہم عمر ہیں تو مشہور و تجربے کار کو چھوڑ کر نو آموز کو کیوں؟ 74 میں پیدا ہونے والے مصباح نے اپنا مقام کس طرح بنایا؟ ستائیس برس کی عمر میں ٹیسٹ اور اگلے برس میں ون ڈے کھیلنے والے کے کریڈٹ پر چھ برسوں میں گنتی کے چند میچز تھے۔ عمر کی 33 بہاریں دیکھ لینے والے بلے باز کو مایوس ہوجانا چاہیے تھا۔ ایم بی اے کیا تھا تو کوئی نوکری ڈھونڈنی چاہیے تھی۔ مایوس نہ ہونے والے مصباح الحق کے کھیل کو دیکھ کر شور مچانے والے خاموش ہوگئے۔
نائب کپتان اور گریڈ اے لینے والے کی فٹنس کا یہ عالم ہے کہ وہ عمر سے دس برس کم نظر آتے ہیں۔ پھر کپتانی اور کامیابیوں کا سفر مایوس نہ ہونا اور قدرت پر بھروسہ رکھنا ہمارے آج کے ہیرو اور ہیروئن کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔ تمام انسانوں بالخصوص نوجوانوں کے لیے ان کرداروں میں بڑا سبق ہے کہ ان کے پاس عمر کی نقدی زیادہ ہوتی ہے۔ قسمت کی دیوی کبھی جلد اور کبھی دیر سے مہربان ہوتی ہے۔ وہ دستک دینے میں کبھی دیر کردیتی ہے۔ ہمارے قارئین یاد رکھیںگے کہ کیا ہے جدوجہد پکوان کی دنیا کی ملکہ اور کرکٹ کے شہزادے کی؟ کب ملی خوش بختی اور اقبال مندی زبیدہ آپا اور مصباح الحق کو؟