کھجور میں اٹکا

آسمان سے گرا اس لیے نہیں کیوں کہ ہم یہاں کسی محاورے کی نہیں صرف کھجور کی بات کر رہے ہیں


Wajahat Ali Abbasi July 13, 2014
[email protected]

آسمان سے گرا اس لیے نہیں کیوں کہ ہم یہاں کسی محاورے کی نہیں صرف کھجور کی بات کر رہے ہیں وہ کھجور جسے ایکسپورٹ کرنے کے پاکستان کے پاس بہت اچھے مواقع ہیں۔

ہمیں اگر اپنے ملک میں سوئٹزرلینڈ جیسا سکون چاہیے تو اپنے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے چائنا جیسی اکنامیکل گروتھ بھی چاہیے۔

چائنا ایک مثال ہے کہ ایک ملک اپنے برے حالات کیسے بہتر کرسکتا ہے جس میں بین الاقوامی برآمدات کا بڑا ہاتھ ہے، کچھ سال پہلے تک چین سے کوئی تجارت نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن بزنس کی اچھی بات یہ ہے کہ آپ چھوٹی چھوٹی ڈیلز کرکے اپنے لیے ایک اعتماد کی فضا قائم کرسکتے ہیں اور یہی چائنا نے کیا۔

آج چائنا میں ایکسپورٹ مارکیٹ اتنی اچھی ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی کمپنی جیسے ''ایپل'' اپنے آئی فونز چائنا میں بناکر ڈائریکٹ وہیں سے کسٹمر کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔

اگر آپ امریکا یا انگلینڈ میں ایپل ڈاٹ کام سے کمپیوٹر یا آئی فون خریدیں تو آپ کا آرڈر کیلی فورنیا یا انگلینڈ سے نہیں بلکہ چائنا سے شپ ہوگا اور بڑی بڑی کمپنیاں ہی کیوں، چائنا میں ہزاروں پانچ دس لوگوں پر مشتمل کمپنیاں بنی ہوئی ہیں جو اپنے گھروں میں ہی چیزیں بناکر ایکسپورٹ کرتے ہیں اور اس طرح ہزاروں ڈالر کماتے ہیں۔

اس وقت چائنا میں ہر سال 10 فیصد ایکسپورٹ گروتھ ہے اور یہی اگر پاکستان کی ایکسپورٹ میں آجائے تو ہماری گنتی بھی دنیا کے کامیاب ملکوں میں ہونے لگے گی۔

ایک بڑی غلطی جو پاکستان نہیں کرسکتا وہ یہ ہے کہ چین کی کامیابی کا ماڈل اٹھاکر اسے پورا پورا کاپی کرنے کی کوشش کرے یعنی وہی چیزیں ایکسپورٹ کرنے کی صنعتیں لگائیں جو چائنا کر رہا ہے۔ ویسے ہی ہمارے پاس اس وقت وسائل کم ہیں اوپر سے ہاتھی اور چیونٹی کی اس جنگ میں جہاں ہاتھی نے اپنی سونڈ پوری طرح محفوظ کی ہوئی ہے چیونٹی کا جیتنا ناممکن ہے، اس کے لیے پاکستان کا ایکسپورٹ میں اپنا خود کا موقع ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں دنیا کو اپنی کھجوروں میں اٹکانا ضروری ہے۔

ڈی جی سندھ بورڈ آف انوسٹمنٹ نے کہا ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی منڈی میں کھجور ایکسپورٹ کرنے کے بہت مواقع ہیں، اگر ہماری اس انڈسٹری میں صحیح طرح سرمایہ لگایا جائے تو اسی سلسلے میں کچھ دن پہلے ٹریڈ مشن پر سندھ بورڈ آف انوسٹمنٹ کے ارکان یو اے ای کے علاقے العین کی کھجوروں کی کمپنی Al-Foah کے دورے پر گئے تھے، انھوں نے اس پلانٹ کا دورہ کیا جسے ایمرٹ حکومت نے 14 سال پہلے بنوایا تھا اور اس وقت وہ دنیا کا سب سے بہترین پلانٹ ہے۔

سندھ میں آج 3000000 لاکھ ٹن کھجوریں سالانہ پیدا ہوتی ہیں اور پورے پاکستان میں چھ لاکھ ٹن، لیکن ہمارے پروسیسنگ پلانٹ پرانے اور اچھے نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے کبھی بھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں کامیابی حاصل نہیں کی، ہماری ایکسپورٹ کی ہوئی کھجوروں میں زیادہ کم تر درجے کی کھجوریں ہوتی ہیں جس سے زرمبادلہ کم حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان اگر اس سیکٹر پر توجہ دے تو کھجوروں میں دنیا کا ''چائنا'' بن سکتا ہے۔

ایک اور بڑی ایکسپورٹ جس میں پچھلے پانچ سال میں بڑی گروتھ دیکھی گئی ہے اور جس میں پاکستان تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے وہ ہے حلال فوڈ انڈسٹری کیوں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ہم اس حلال فوڈ کی مارکیٹ پر چھا سکتے ہیں اگر ہمارے یہاں صحیح طرح مناسب پلاننگ کی جائے۔

''PEW فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف '' کے حساب سے دنیا میں اس وقت 1.8 بلین مسلمان آباد ہیں یعنی دنیا میں اس وقت 28 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے جس میں سے 60 فیصد ایشیا میں ہیں، بیس فیصد مشرق وسطیٰ اور نارتھ افریقہ میں ہیں، چار سو سے چھ سو ملین مسلمان دوسرے ملکوں میں اقلیت بن کر رہ رہے ہیں جس سے 38 ملین یورپ میں، کینیڈا میں دو ملین اور امریکا میں تقریباً نو ملین مسلمان رہتے ہیں۔

پاکستان کے موسمی حالات کی وجہ سے بیشتر علاقوں میں مویشیوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو صحت مند ہیں ساتھ ہمارے یہاں سستی مزدوری اور زمین کی وجہ سے وہ مسئلے نہیں جو امریکا اور یورپ میں ہیں۔ اس وقت آسٹریلیا، برازیل اور یہاں تک کہ انڈیا سے ہم سے زیادہ حلال فوڈ کی ایکسپورٹ ہو رہی ہے، مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہے کہ دوسرے ملک ہمارے فوڈ کے حلال ہونے پر زیادہ اعتماد کرسکتے ہیں۔

پاکستان دنیا بھر میں آٹھواں ملک ہے جہاں سب سے زیادہ گائیں ہیں اور تیسرے نمبر کا ملک جہاں سب سے زیادہ بکرے پائے جاتے ہیں، اس کے باوجود ہم دنیا کے ٹاپ ٹین حلال فوڈ مہیا کرنے والے ملکوں کی فہرست سے بہت دور ہیں اس کی وجہ ہمارے یہاں لائف اسٹاک کی کمی نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور ڈیمانڈز ہیں جنھیں ہم پورا نہیں کرپاتے۔ میٹ ایکسپورٹنگ کمپنیوں میں بہت سخت صحت کے قوانین ہیں، جہاں پر ایکسپورٹ کیے ہوئے پیکٹوں کو اس حد تک مانیٹر کیا جاتا ہے کہ کون سا گوشت کس فارم کے کس جانور کا ہے، یہ پتا ہوتا ہے تاکہ امپورٹ کے وقت پیکٹ کا گوشت خراب ہو تو اس جگہ کے سارے گوشت کو ہٹا دیا جاتا ہے اور یہی چیز ہے جس میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔

حکومت نے کوئی بھی ایسا ٹریکنگ سسٹم نہیں رکھا ہے جس میں جانور باقاعدہ کیٹگریز میں ٹریک کیے جاتے ہوں، جہاں ہم اپنے جانوروں کو ابھی ٹریک بھی نہیں کرپا رہے وہیں انڈیا کے کئی پرائیویٹ ادارے اور گورنمنٹ کے ادارے ٹیکنالوجی کی مدد سے باقاعدہ میٹ کو پروسیس اسٹور اور مارکیٹ کر رہے ہیں، دوسرے ملکوں میں جہاں لائف اسٹاک فارمرز کو مستقل ٹریکنگ اور مواقع دیے جا رہے ہیں وہیں ہمارے یہاں فارمرز کے لیے مہنگائی کی وجہ سے زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان میں کچھ حد تک حلال فوڈ مارکیٹ کی طرف کام شروع ہوا ہے جیسے پاکستان حلال ریسرچ سینٹر نے حال ہی میں پہلا حلال سرٹیفکیشن اینڈ انشورنس پروگرام شروع کیا ہے جس میں پاکستان بھر کے ایکسپورٹرز کو حلال سرٹیفکیشن کی ایڈوائس دی جائے گی، شاید یہی وہ پہلا قدم ہے جس کے بعد ہم آگے بڑھ کر گلوبل حلال فوڈ لیڈرز بن سکیں۔

دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کامیابی کا انتظار نہیں کرسکتے۔ جو دوسرے ملکوں سے سیکھ سکتے ہیں سیکھ کر خود کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کھجور ہو یا حلال فوڈ یا پھر کوئی اور ایکسپورٹ پاکستان کو Potential صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے کے امکان ہیں جو ہماری بے چاری قوم کو ہر چیز میں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی سوچ کو بدلنے میں مدد دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔