سچل سارا سچ
مجھے نہیں معلوم کہ دیگر مسلمان ممالک میں صوفیاء کا مزاج کیسا رہا ہے
مجھے نہیں معلوم کہ دیگر مسلمان ممالک میں صوفیاء کا مزاج کیسا رہا ہے مگر جہاں تک سندھ اور پنجاب کے صوفیائے کرام کا تعلق ہے تو ان کے کلام میں جو مستی اور بغاوت کی خوشبو ہے وہ کہیں اور نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران صوفیاء کی سرزمین رہی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ترکی اور عراق میں صوفیائے کرام کا کردار تاریخ کا انمول خزانہ ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ پنجاب اور وادی سندھ کے صوفیائے کرام نے عرب اور فارسی زبانوں والی سرزمینوں پر پکنے والی تصوف کی فصل سے اپنے تصورات کی جھولیاں بھریں مگر اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جو مٹی کی خوشبو اور اس کے ساتھ ساتھ بہادری اور بے خوفی کی روایت دریائے سندھ کے کنارے جنم لینے والے صوفیائے کرام نے ڈالی وہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کا سبب کیا ہے؟
اس سوال پر ہم کبھی سوچیں گے مگر اس وقت میں یہ کالم وادی سندھ کے اس عظیم صوفی بزرگ کے نام کر رہا ہوں جو نہ صرف بے باکی میں اپنی مثال آپ ہیں بلکہ ان کی شاعری میں جو فنی اور فکری پختگی ہے وہ ہمیں دیگر صوفیائے کرام کے کلام میں اس درجہ نظر نہیں آتی۔ یہ سچل سرمست کی صوفیانہ مستی اور بہادری ہے جس کی وجہ سے انھیں سندھ میں ثانی منصور کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ وہ ثانی منصور ہیں یا نہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے مگر ان کے کلام کو پڑھتے ہوئے آپ کو یہ احساس شدت کے ساتھ ہونے لگے گا کہ وہ منصور سے بہت متاثر بھی تھے اور ان سے بہت محبت بھی کیا کرتا تھے۔ یہی وجہ ہے انھوں نے اپنے کلام میں منصور کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
مرد بن منصور کہہ
ورنہ کہو مت یہ کہ تم منصور ہو
سچل نے اپنی شاعری میں جو جواں مردی اور بہادری کا درس دیا ہے اس کی ہمارے موجودہ دور کو بے حد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے جب آج سے سندھ کے تاریخی شہر خیرپور میں سچل سرمست کا عرس شروع ہو رہا ہے تو میں نے اپنے کالم کے موضوع کے حوالے سے سندھ کے بہادر صوفی شاعر کا انتخاب کیا۔ ان کی بہادری کا اعتراف سب کرتے ہیں۔ شیخ ایاز جو سچل سرمست سے بہت متاثر تھے انھوں نے اپنی ایک نثری نظم میں لکھا ہے کہ ''آج صبح سچل کا کلام پڑھا ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے شیر کے گوشت سے ناشتہ کیا ہے''۔
یہاں پر یہ بات بے محل نہیں ہوگی کہ جب شیخ ایاز بہت ساری وجوہات کے باعث کافی عرصہ گوشہ نشینی میں رہے اور انھوں نے پھر سے منظر عام پر آنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے خیرپور میں سچل سرمست کے عرس کی ادبی تقریب کا انتخاب کیا اور بہت عرصہ خاموش رہنے کے بعد انھوں نے اپنی آواز کو سچل کی بے باکی کے حوالے سے بہادری اور دانائی کی خوشبو میں بسایا اور وہ مقالہ پڑھا جس کا عنوان تھا ''چرخے چت نہیں لگدا'' اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مقالہ سچل سرمست کی شاعری پر سب سے خوبصورت تحریر ہے۔
میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں اپنے کالم میں اس کا اردو ترجمہ پیش کروں مگر سچل کے کلام سے اردو ادب کے قارئین کو قریب لانے کی کوشش کرتے ہوئے میں سچل سرمست کی اس غزل کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس غزل کا ایاز نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ ویسے تو سچل سرمست کو یہ یگانہ حیثیت حاصل ہے کہ انھوں نے اس سرزمین پر بولی جانے والی بہت ساری زبانوں میں اپنے کلام کی معرفت لوگوں کو محبت اور ہمت کا پیغام دیا۔ اس لیے انھیں ''ہفت زباں شاعر'' بھی کہا جاتا ہے مگر ان کی اردو اس دور کی اردو ہے جس کو ہم قدیم کہہ سکتے ہیں۔ مگر ایاز نے انھیں جدید اردو میں پیش کیا۔ ان کی مذکورہ غزل کو پڑھ کر آپ کو ایاز کی محنت اور سچل کی فکری بلندی کا احساس ہوگا۔ وہ غزل جس کی ابتدا اس شعر سے ہے کہ:
وہی موج و تلاطم ہے وہی اپنا سفینہ ہے
مسلسل ہے حیات اپنی نہ مرنا ہے نہ جینا ہے
سچل کے اس شعر سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ تصوف کے حوالے سے اسی فکر سے وابستہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حیات انساں ایک سفر مسلسل ہے مگر اس سفر میں موجوں کا تلاطم ہے۔ اس میں طوفانوں سے ٹکرانے والی دل کی کشتی کا کردار ہے اور وہ سفر زندگی اور موت سے بالاتر ہے۔
اس غزل کا دوسرا شعر ہے:
دیار کفر ایماں ہے سنبھل کر چل ارے ناداں
یہاں تو فرط نفرت ہے یہاں تو شرط کینہ ہے
کیا یہ شعر ہمارے موجودہ دور کی صورتحال کے حوالے سے ایک آئینہ نہیں۔ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنے دور کا حقیقی چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ دور جس کو جمہوریت کا دور کہا جاتا ہے۔ یہ دور جس کے حوالے سے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ آزادی اظہار کا دور ہے۔ یہ دور جس میں انسان کو قانونی طور پر وہ حقوق حاصل ہیں جن کا کسی دور میں تصور کرنا بھی محال تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ روشن خیالی کے اس نام نہاد دور میں ہم کچھ لکھتے اور کچھ کہتے ہوئے کس قدر احتیاط کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں فتوے بازی کا بازار لگا ہوا ہے اور کینہ پرور لوگ کوئی بھی فتویٰ لگاتے ہوئے دیر نہیں کرتے۔ اس لیے سچل سرمست نے حیات کے اس سفر میں انسان کو سنبھل کر چلنے کی ہدایت کی ہے۔ مگر یہ ہدایت کرنے کے باوجود سچل سرمست اپنا حقیقی تعارف کرانا نہیں بھولتے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ:
ریائے زہد کیوں اس کے قریب آئے کہ میرا دل
شراب زیست میں ڈوبا ہوا اک آبگینہ ہے
سچ سرمست نے زندگی کو مستی سے بھرپور بنانے کے حوالے سے جس طرح اسے شراب میں ڈوبا ہوا ایک آبگینہ قرار دیا ہے ان کا یہ انداز انھیں مرزا غالب کی شاعری کے قریب لاتا ہے اور ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ غالب جو کہا کرتے تھے کہ:
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ٹھیک اسی طرح یہ سب عظیم شعراء برصغیر میں اسی فکری تسلسل کی علامت ہیں جسے ہم موجودہ دور میں فراموش کرچکے ہیں۔ وہ فکر جو سب کو محبت کے دھاگے میں پرونے پر اصرار کرتا ہے۔ سچل بھی اسی محبت کی ایک صوفیانہ آواز ہے۔ مگر اس آواز میں احتیاط کے ساتھ ساتھ ایک بغاوت اور ایک سرکشی بھی ہے۔ اس لیے وہ مذکورہ غزل کے ایک شعر میں کہتے ہیں کہ:
در و دیوار مسجد زاہد زنداں طلب کے ہیں
مرا تو مہ بہ مہ انجم بہ انجم ایک زینہ ہے
اس پوری کائنات کو اپنی مسجد سمجھنے والا شعور صرف اس سچل کا ہے جس نے انسانوں سے شکایت بھی کی ہے تو اپنا نام لے کر اور کہا ہے کہ:
سحر پھوٹی ریائے زہد پھر سے کوبکو نکلا
سچو اب تک میری آنکھوں میں اک خواب شبینہ ہے
اپنی آنکھوں میں رات کے خواب کا عکس لیے صبح کی روشنی میں چلنے والوں کو پیغام ہے کہ وہ دن کے اجالے میں زاہد کی ریاکاری کو بے نقاب کریں!
کیا یہ آواز ایسی نہیں جو ہمارے موجودہ دور کے مسائل کا منظر پیش کرتے ہوئے ان کے حل بھی پیش کرتی ہے اور ہمیں بتاتی ہے کہ جب تک پرانے خیالات سے انسان اپنی فکر کا دامن نہیں چھڑائے گا وہ اسی طرح بھٹکتا رہے گا جس طرح جدید کا انسان بھٹک رہا ہے۔
ہمیں اپنی سرزمیں کے صوفیائے کرام نے سچ کی ایک وصف یہ بھی بتائی ہے کہ سچ وہ ہے جو پرانا نہیں ہوتا۔ سچل سارا سچ ہے۔ اس لیے سچل کی باتیں وقت کے ساتھ پرانی نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمارے دور میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں اور یہ سچ صرف اس دور تک محدود نہیں بلکہ جب موجودہ حالات کے بھنور سے نکل جائیں گے اور سفر حیات میں ہمارے دلوں کی کشتی پھر دیگر موجوں سے نبرد آزما ہوگی تب بھی ہمیں اس دور میں بھی سچل کے کلام سے ایک روشنی ملے گی جو ہماری راہ حیات کو منور کرے گی۔